اب تو اس چشم تر کا چرچا ہے
ذکرِ دریا نہیں سحاب نہیں
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شب حسرت کی تاریکیوں میں ناگہاں صبح مسرت کے طلوع کی نوید ملی، انجمن معین الندوہ کو دوبارہ متحرک کیا گیا اور ندوی برادری کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تو اس پکار پر آپ بلا تردد تشریف لائے اور کارپردازان انجمن کو حوصلہ بخشا۔ آپ کی آمد سے مادر علمی کے تئیں فکرمندی عیاں ہوئی اور یہ معلوم ہوا کہ آپ اُلش نصیب یا بے بصیرت نہیں، بلکہ اپنے پہلو میں قلب نباض اور عزم جواں رکھتے ہیں ؎
موجیم که آسودگی ما عدم ماست
ما زنده به آنیم که آرام نگیریم
برسوں پہلے اہل نظر کو محسوس ہو چکا تھا کہ مادر علمی کی نونی زدہ دیواروں پر ادبار کے ساے پھیلنے لگے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب یہ ساے دیواروں سے اتر کر مادر علمی کے فرش پر دراز اور آہستہ آہستہ اس کے مکینوں کو نگلنے لگیں گے اور نتیجتاً اس کی بنیادیں کمزور اور دیواریں منہدم ہونے لگیں گی۔ بابصیرت ابناے ندوہ کے لیے یہ صورت حال سوہان روح بنی ہوئی تھی اور وہ بہرصورت ان گرتی دیواروں کو تھامنا چاہتے تھے۔ ان کی آشفتگی جنون کو پہنچ گئی جسے دیکھ کر بعض کم کوش، باد فروش، دریوزہ گر، ژولیدہ فکر، کاسہ لیس اور سطح بین افراد نے ان کا مضحکہ اڑایا، آوازے کسے، سخت سست کہا، انھیں خار ہستی اور ننگ جہاں باور کرایا اور یوں فرزندان ندوہ کے بڑے حلقے میں ان افراد کی ہستی سبزۂ بیگانہ ہو کر رہ گئی۔ لیکن وہ اصحاب بصیرت ان سب شورشوں سے بے پروا ان طوفان جوڑنے والوں سے کہتے ؎
ز عين عشق به كونين صلح كل كردیم
تو خصم گرد و ز ما دوستى تماشا كن
دوا یکی ست به دار الشفای میکده ها
ز هر مرض که بنالد کسی، شراب دهند
اور ایسا کیوں نہ ہو؛ بھلا کسی ادارے میں دستور کی اہمیت، ضرورت، افادیت، اشاعت اور اس کے اطلاق میں کسی ذی ہوش کو کلام ہو سکتا ہے۔ دستور ادارہ کی روح اور اس کی قوت کا سرچشمہ ہے۔ یہ ادارے کو باہمی کشاکش، داخلی انتشار، بد نظمی، بے سمتی، بے چارگی اور بے چہرگی سے بچاتا اور یکسوئی، یکجہتی اور تسلسل بخشتا ہے۔ دستور ایک میزان ہے جو ادارے اور ادارے سے جڑے ہر شخص کے متعینہ کردار کو پرکھتا ہے۔ دستور کسی مضبوط اور ناقابل شکست فصیل کے مانند ادارے کو استحکام عطا کرتا اور ادبار کے طوفان کے سامنے سپر بن کر کھڑا رہتا ہے۔ دستور وہ آہنی زنجیر ہے جو ادارے کے ہر ذرے کو منظم، مربوط اور مستحکم اکائی بنا کر رکھتی ہے۔ اگر ادارے ميں دستور نہ ہو یا نافذ نہ کیا جا سکے تو وقت کے رخ پر اس کی ساری سرگرمیاں پرِکاہ ثابت ہوں گی اور ترقیوں کا غلغلہ اس ساز کے شور کے مانند سنائی دے گا جس کے تار بے ہنگم ہو چکے ہوں۔ دستور کا نفاذ قیام عدل کا پہلا زینہ اور فطرت انسانی کا مظہر ہے۔ ابلیسی طبیعتیں دستور سے نفور اور اس کی پاسداری سے ابا کرتی ہیں۔ چنانچہ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اقوام عالم میں انھی کو بقا نصیب ہوئی جو پابند دستور اور عدل و انصاف کی خوگر تھیں؛ اور وہ سلطنتیں تاریخ کے چہرے پر بوسۂ امن ثبت نہ کر سکیں جنھیں عدل پروری اور دستور پسندی سے گریز تھا۔
دستور کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہ چند فرزندان ندوہ دستور کی کھوج میں تنہا سرگرداں رہے۔ بس ؏
یہی آہ راہ بر تھی یہی اشک ہم سفر تھا
اور انجام کار ایک روز جناب عادل خاں صاحب نے یہ مژدہ سنایا کہ دستور کا ایک نسخہ ہم دست ہوا ہے۔ یہ وہی نسخہ تھا جسے ریختہ نے اپنی ویب گاہ پر اپلوڈ کر رکھا ہے۔ اگر وہاں نہ ملتا تو اس کی تلاش شاید اب تک جاری رہتی۔ دستور ندوہ سامنے آیا تو بے چین نگاہوں نے اس کے بوسیدہ اوراق الٹے، کپکپاتی انگلیوں نے اسے پڑھا اور دل بے قرار کی بے قراری سوا ہوتی چلی گئی۔ شکن آلود پیشانی سے شوق کی واماندگی اور ہمتوں کی درماندگی پھوٹی پڑتی تھی۔ لیکن بدقت تمام حواس بجا رکھے گئے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی نشاط و انبساط کا باعث بنا کہ ندوے کی ترقی کی شاہ کلید ہاتھ آچکی ہے۔
دستور کے مطالعہ سے یہ راز بھی کھلا کہ کتب خانۂ شبلی کے کارکنان سے لے کر دفتر نظامت تک کا سارا کارخانہ بالفعل اس کے اخفا کے لیے کیوں سرگرم ہے۔ ہرچند ارباب ندوہ کو دستور کی بالادستی کا دعویٰ ہے لیکن احاطۂ ندوہ میں اصلاً اسے چون مد به حساب اندر کا مصداق بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ ضروری تھا کہ ندوے کے سارے نظام و انصرام کو اس کے متفقہ دستور العمل کے تابع کیا جائے اور کوئی شخص و شخصیت یا دفتر و خانوادہ اپنی ذات کو اس سے بالا نہ سمجھے۔
اسی مقصد عظیم کے پیش نظر انجمن معین الندوہ کا احیا عمل میں آیا جس کی مدد سے دستور ندوہ کی بالادستی کی تحریک اب زوروں پر ہے اور انجمن کی نشستوں میں دستور کی تمام دفعات کا اجتماعی اور بالتفصیل مطالعہ و مناقشہ جاری ہے۔ اس موقع پر بعض احباب نے انجمن معین الندوہ کی حیثیت و کردار کے بابت استفسار کیا اور اس کی دستوری تفصیلات بھی طلب کیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انجمن دستور ندوۃ العلماء کی دفعہ 22 کی رو سے ایک دستوری ادارہ ہے جس کے فرائض اسی دفعہ میں مفصل بیان کیے گئے ہیں۔
آخر میں انجمن کے تمام ارکان اور کارپردازان کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کرنا چاہتے ہیں، خصوصاً محترم و مکرم طارق شفیق صاحب ندوی کے ممنون ہیں جنھوں نے انجمن کا نام سجھایا، اور حکیم عادل خاں صاحب کے جن کی شبانہ روز محنتوں نے انجمن کی سرگرمیوں کو وسعت بخشی اور سراپا سپاس ہیں مفتی آصف انظار صاحب کی ذات فیض آیات کے جن کے الفاظ کے رچاؤ، فقروں کے بہاؤ اور لہجے کے سُبھاؤ نے انجمن کو اعتبار عطا کیا اور جن کے طرز استدلال نے فرزندان ندوہ کے ذہنوں سے بدگمانی رفع کی۔ نیز اس کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ندوہ گو زوال بردوش ہے لیکن اس کے بانیوں کے اخلاص اور شبلی کی روح پرفتوح نے امت مسلمہ کو اب تک فرزندان ندوہ سے مستغنی نہیں کیا اور ہنوز ندوہ کا وجود مغتنمات میں شمار ہوتا ہے ؎
کسي که محرم باد صباست ميداند
که با وجود خزان بوي ياسمن باقيست
اب اس اعتراف کے ساتھ رخصت کہ ؎
زبان ز نکته فروماند و راز من باقيست
بضاعت سخن آخر شد و سخن باقيست
تبصرہ لکھیے