ہوم << قائد اعظم پر حملہ حقائق کی روشنی میں- عرفان علی عزیز

قائد اعظم پر حملہ حقائق کی روشنی میں- عرفان علی عزیز

23 مارچ 1940ء کے روز لاہور میں منٹو پارک میں عظیم الشان جلسے ہوا۔ اس کے روحِ رواں قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ سیاسی افق پر روشن ستارہ بن کر ابھرنے والے مسلمانوں کے بڑے اور جید رہنما تھے۔ پاکستان کی حامی بڑے زور و شور سے قائد اعظم کے ساتھ تھے، مگر مخالفین بھی تھے جن میں خاکسار تحریک بھی شامل تھی ۔ اس کے رہنما اور کارکنان برملا قائد اعظم کے خلاف مہم چلاتے تھے۔ خاکسار تحریک کے لیڈر مولوی عنایت اللہ مشرقی تھے، جو قائد اعظم کے سخت تھے، اور اپنے کارکنان کو قائد اعظم کے خلاف خوب بھڑکاتے رہتے تھے۔ قائد اعظم پر حملہ کے حوالے سے اس مضمون کا بڑا حصہ اکبر اے پیر بھائی بار ایٹ لا کی کتاب Jinnah faces an assassin سے لیا گیا۔ اکبر اے پیر بھائی قائد اعظم کے بھانجے تھے، اور مریم بی کے بیٹے تھے۔ یہ مضمون 1943 ء میں ہی لکھ دیا گیا تھا۔

بمبئی میں ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر کوئی ایک سو گز نیچے کی طرف آپ کی نظریں ایک شاندار گیٹ پر پڑیں گی۔ اس کے عظیم الشان انوکھے ڈیزائن اور اس کے دونوں جانب بلند دیواریں دیکھ کر آپ کے ذہن میں ایک مقدس مقام کا تصور ابھرے گا۔ لکڑی کا ایک چھوٹا سا بورڈ اس عظیم الشان گیٹ سے لگا ہوا ہے۔ اس پر ایم اے جناح لکھا ہے۔ آپ اندر داخل ہوں ، آپ کا کسی انسان سے سامنا نہیں ہو گا لیکن جب آپ اندر کی طرف چند قدم آگے چلے جائیں تو ایک پُر شکوہ گھر اور ایک خوشنما گارڈن آپ کے سامنے ہوگا۔ خوبصورت بلند اور پر شکوہ درخت زمانے کی رفتار سے بے نیاز ہوا میں جھوم رہے ہوں گے۔ رنگا رنگ پھولوں کے تختے اور اچھی طرح سے تراشے ہوئے لان نگہداشت اور اعلیٰ ذوق کا پتہ دیتے ہیں۔

یہاں امن اور سکون کا دور دورہ ہے۔ اس ماحول میں وہ گھر واقع ہے جو گارڈن کی طرح ہی عمدگی اور اعلیٰ منصوبہ بندی کا شاہکار اور خوبصورتی و خوش ذوقی سے آراستہ ہے۔ اس آرام دہ اور حسین ماحول میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر مسٹر محمد علی جناح رہتے ہیں۔ بظاہر عالم حقیقی کے درمیان غیر حقیقی انداز میں رہنے والا تنہا شخص، ہو سکتا ہے وہ اس ماحول سے ہندوستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کی مستقبل کی رہنمائی اور کسی حد تک پورے ہندوستان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے وجدان اور حوصلہ چاہتے ہوں۔ جب وہ کام میں مگن ہوں تو ان کے گرد کتابوں، فائلوں اور کاغذات کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ انہیں اختلافات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ منصوبے اور پالیسیاں انہی کو وضع کرنا پڑتی ہیں۔ وائسرائے کی تقریریں اور دارالعوام کے مباحثے ان کی توجہ اپنی طرف رکھتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ کسی مدد کے بغیر اور تنہا کرتے ہیں۔ لیگ میں اس قد و قامت کا کوئی آدمی موجود نہیں جو ان کی ذمہ داریاں اور بوجھ ہلکا کر سکے۔

انہی دنوں مولوی عنایت اللہ مشرقی نے ایک منشور جاری کر دیا جس میں اپنے عقیدت مندوں سے اپیل کی اور انہیں تاکید کی کہ وہ مسٹر جناح پر ہزاروں پوسٹ کارڈوں ، خطوط اور تاروں کے ذریعے دباؤ ڈالیں کہ وہ مسٹر گاندھی سے ملیں، چنانچہ جناح صاحب کو 15جون سے ہر ڈاک میں اوسطا" پچاس پوسٹ کارڈ خطوط اور تاریں موصول ہونے لگیں۔ اپنے کاغذات اور فائلوں کے درمیان بیٹھے ہوئے جب انہوں نے ان میں سے ایک تار کھولی تو اس میں لکھا تھا۔
” یدسی - 6 جولائی 1943ء
جناح کے نام بمبئی
اگر متحدہ محاذ نہ بنایا گیا تو خاکسار معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔“
”يعقوب“

خطوط کے ڈھیر میں سے ایک اور خط اٹھا کر پڑھتے ہیں:
”از بھوپال“
19 جولائی 1943ء
جناح کے نام - بمبئی
آخری موقع ہے گاندھی سے ملیں.“
فضل شاہی

جناح صاحب نے باقی ماندہ تاریں ایک طرف کرتے ہوئے خطوط کی طرف توجہ کی۔ انہوں نےڈھیر میں سے ایک خط اٹھایا ۔ جو نہی انہوں نے اسےپڑھنا شروع کیا ان کا چہرہ متغیر ہو گیا۔
”قائد اعظم مسٹر جناح “
”ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کی۔اب جبکہ ہم بقول آپ کے دس کروڑ ہیں ، پھر بھی ڈر رہےہیں کہ ہندو ہم پر مسلط نہ ہو جائیں۔ افسوس ، شیر اپنے آپ کو میمنا سمجھ رہا ہے اور بکریوں سے ضمانت چاہتا ہے کہ وہ اقتدار ملنے پر اُسے ہراساں نہ کریں۔۔اگر آپ کا حتمی نصب العین پاکستان ہے تو اس کا حصول قریب تر لانے کے لئے خدارا گاندھی جی سےملیں اور مل کر کوئی تصفیہ کر لیں۔ اس کے لیے گاندھی جی بھی تیار نظر آتے ہیں۔ آپ جیسے لیڈروں کی احمقانہ حرکتوں سے ہندوستانی عوام بہت پریشان ہیں۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کافی نہیں، پہننے کے لیے چیتھڑے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کس طرح وہ گلیوں میں زمین پر پڑے آہیں بھرتے ہیں۔ یاد رکھیں ان غریبوں کی آہیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ان لوگوں کو جو سزا مل رہی ہے حشر کے روز آپ اس کے سزاوار ہوں گے۔ ہماری گذارش ہے کہ فورا جیل میں گاندھی جی سے ملیں ورنہ ہم میں سے کچھ لوگ اپنی زندگی داؤ پر لگا کر آپ کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنائیں گے۔ آپ جیسے لوگ قیادت کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن انہیں عوام کی بھلائی کی کوئی فکر نہیں۔
محمد احمد سالار اعلیٰ (خاکسار)
27 جون 1943ء
حیدر آباد سٹی دکن، سرکل ڈی“

اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ جناح صاحب کو قتل کرنے کی سازش ہے؟ وہ خوفزدہ تو نہیں لیکن مسلمانوں کے مفادات کی خاطر انہیں زیادہ احتیاط برتنی چاہیے۔ احکامات جاری کیے جاتے ہیں کہ ملاقاتیوں کو براه راست ان تک نہ آنے دیا جائے۔ اس کے بجائے انھیں سیکرٹری کے دفتر لے جایا جائے۔ یہ حکم اس وقت موجود تھا جب 26 جولائی 1943ء کو رفیق صابر اُس گھر میں پہنچ گیا جس کا نقشہ ہم پیچھے پیش کر آئے ہیں۔ اس کٹھن مرحلے پر جب ہندوستان کے مسلمانوں کی بھلائی اور خوشیوں کا اہتمام ہو رہا تھا اور جب محمد علی جناح فیصلہ کن امور کی طرف پوری طرح متوجہ تھے تو ان کے گھر سے تھوڑی دور ہی یہی کوئی پانچ میل کے فاصلے پر ایک وحشیانہ جرم کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ایک ایسا جرم جو اگر کامیاب ہو جاتا تو ایک ایسا المیہ اور مسلمانوں کے لیے ایک ایسی بربادی ہوتی جس کا مداوا نا ممکن تھا۔6 جولائی کی سہ پر بمبئی کے وکٹوریہ ٹرمینس سٹیشن میں ایک گاڑی داخل ہوتی ہے۔ گاڑی میں سے اُترنے والے سینکڑوں مسافروں میں ایک آدمی رفیق صابر مزنگوی بھی ہے۔ چھریرے اور مضبوط جسم موٹے سیاہ بالوں اور نوکیلی داڑھی والے قریبا" 30 سالہ شخص میں قدرے جاذبیت اور امتیاز پایا جاتا ہے۔ گاڑی سے اتر کر وہ کسی کا منتظر دکھائی دیتا ہے اور پھر دھکے کھاتا سڑک کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ سٹیشن سے باہر نکلتا ہے اور اپنا واحد اثاثہ ایک بستر بغل میں دبائے ہوئے ٹرام کار میں سوار ہو جاتا ہے۔ اس نے مسلمان محلے میں جانا ہے۔ وہاں وہ اترتا ہے اور تیزی سے پاک موڈیا سٹریٹ کی طرف جاتا ہے جہاں اُس نے ایک مسافر خانے میں قیام کرنا ہے جو حاجی اسمعیل حاجی حبیب ٹرسٹ کی ملکیت ہے۔ بمبئی آنے والے غریب مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسے کچھ عرصے کے لئے اس مسافر خانے میں رہائش رکھنے کا حق حاصل ہے۔ مسافر خانے میں وہ یہ مراعات حاصل کرتا ہے۔ رہائش کی اجازت ملنے سے پہلے اسے مینجر انچارج کو کچھ ضروری معلومات دینی ہیں۔ وہ ایک واضح مقصد کے لیے بمبئی آیا ہے اس لئے وہ اپنی شناخت بمشکل ہی کر سکتا ہے۔ چنانچہ وہ غلط نام لکھواتا ہے .... محمد صادق مولانا عمر الدين ..... بمبئی آنے کا مقصد بھی غلط بیان کرتا ہے یعنی وہ اپنے بھائی کی تلاش میں آیا ہے حتی کہ رجسٹر پر وہ محمد صادق حیثیت سے دستخط کر کے رہائش حاصل کرتا ہے۔

6 جولائی 1943ء سے 13 جولائی 1943ء تک وہ مسافر خانے میں قیام کرتا ہے۔ وہ یہاں مستقل قیام نہیں کر سکتا اس لیے 13 جولائی 1943ء کو وہاں سے چلا جاتا ہے اور اسے بمبئی کی خاکسار تنظیم کے دفتر میں سونے کے لئے جگہ مل جاتی ہے۔ اس عرصے میں شہر کی خاکسار طلبہ تنظیم کے سربراہ سید جیلانی کے ساتھ اس کی دوستی ہو جاتی ہے۔ وہ جیلانی کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ اسے کوئی نوکری دلوائے۔ 13 سے 23 جولائی تک وہ کام کرتا ہے۔ اس دوران جناح صاحب کراچی اور بلوچستان کے دورے پر ہیں۔ رفیق صابر کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔

23 جولائی کو جناح صاحب بمبئی واپس پہنچ رہے ہیں اور ان کی آمد کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ رفیق ریلوے ٹیشن پر جاتا ہے اور لوگوں کے اس بہت بڑے ہجوم میں گھل مل جاتا ہے جو وہاں جناح صاحب کو خوش آمدید کہنے کے لئے جمع ہے۔ رفیق اپنے ہدف کو اچھی طرح سے دیکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اس وقت بھی قتل کا ارادہ رکھتا ہو اور اُسے موقع نہ ملا ہو۔ اگلے روز وہ تیاریاں مکمل کر کے جزئیات تک طے کر لیتا ہے۔ اس نے قدرت اللہ ساکن کرلہ کے نام سے مسلم لیگ کی رکنیت کا فارم حاصل کر کے جیب میں ڈال لیا ہے۔ جناح صاحب کے گھر کے اندر تک جانے کے لیے یہ ایک بہترین پاسپورٹ ہے۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے اگلا مرحلہ ہتھیار کا حصول ہے۔ بمبئی جیسی جگہ بلکہ کسی بھی جگہ ایسے ہتھیار کا حصول مشکل نہیں۔ چاقو حاصل کرنے کے بعد رفیق اس کا پھل اپنی مرضی کے مطابق تیز دھار نہیں پاتا۔ وہ چاقو تیز کرنے والی دکان پر چلا جاتا ہے۔ یہ دکان اسمعیل دادا میاں کی ملکیت ہے۔ وہاں سے چاقو تیز کراتا ہے بلکہ دادا میاں کو تاکید کرتا ہے کہ اسے خوب تیز کیا جائے۔ یہ 24 جولائی 1943ء ہفتے کا روز ہے۔ اب ہر چیز تیار ہے۔
(جاری ہے)

Comments

Avatar photo

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

Click here to post a comment