صبح تندور سے روٹی لینے جاتے ہوئے جب میں اپنی گاؤں کی چھوٹی گلی سے نکل کر بڑی سٹرک پر آیا تو میں نے سڑک کے کنارے گندگی کے بڑے ڈھیر پر لوگوں کا ہجوم دیکھا. سب خاموش اور حیران تھے۔
لوگوں کا یہ ہجوم دیکھ کر میں بھی متجسس حالت میں ان کی طرف چل پڑا، اور پاس جا کر ایک شخص کے کان میں سرگوشی سے کہا: "بھائی کیا ہوا ہے؟"
اس شحض نے پاس کھڑے ایک بچے سے سے پوچھا :
" بیٹا تمھیں کچھ پتہ ہے کہ یہ ماجرا کیا ہے؟"
"انکل (مشرقی طرف اشارہ کرتے ہوئے) وہاں پر کسی نےنومولود بچے کو چھوڑا ہے!"
"حرامی بچہ؟"
اسی اثنا میں گندگی کی ڈھیر پر بڑے بچے کی رونے کی آواز آئی
ہائے اللّٰہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ معصوم بچہ خداتعالیٰ سے شکوہ کر رہا ہے کہ آپ نے مجھے کیوں اس دنیا میں بھیجا ۔۔۔۔ مجھے کیوں پیدا کیا۔۔۔ یہاں کی بے رحم مخلوق تو میرے اس دنیا میں آنے کو تماشا بنا رہی ہے، مجھے کوئی اٹھانے کو تیار نہیں. لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ، میرے قریب نہیں آتے، مجھے حرامی کہتے ہیں۔ مجھے واپس بھیج دے اس منافقت کی دنیا سے ۔۔۔ کیونکہ میں تو اپنی مرضی سے نہیں آیا، میں تو نتیجہ ہوں کسی کی جنونی محبت کا! میں نشانی ہوں روایات کے خلاف بغاوت کا۔۔
میرے پاس کھڑے شخص نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے استغفار کیا اور ساتھ یہ سرگوشی کہ " صبح صبح یہ کس گند پہ آنکھ لگی، اب پتہ نہیں آج کا دن کیسے گُزرے گا ؟، بڑا اچھا کام ہوا ہے جو لوگ اب تماشا بھی کررہے ہیں، اس بہتے نالے میں پھینک دیتے تو یہ لوگ اب جمع نہ ہوتے۔" یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور وہاں سے چلا گیا ۔
اسی میں ایک دوسرا شخص پرآکر پاس کھڑا ہوا جو اپنے حلیے سے عالم لگ رہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی جرگے کے لیے جا رہا ہو، لیکن یہ سماں دیکھ کر احوال لینے آیا ہو۔
"یہ قیامت کی نشانی ہے!. بات یہاں تک آ پہنچی!!، یہ زمین پھٹتی کیوں نہیں!!"
بچےنے پھر سے رونا شروع کر دیا۔
"کسی نے پولیس کو اطلاع دی ہے؟" مولانا نے ایک بندے سے پوچھا۔۔۔
شاید اس کے خیال میں بچے نے بڑا جرم کیا ہے جو اس دنیا میں بنا پوچھے آیا ہے۔
بچے کے پاس اجازت نامہ یا پرمٹ نہیں ہے، شاید اس لیے وہ اسے قانون کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔
خیر مولانا بھی استغفار و اغوذ باللہ پڑھتے ہوئے قیامت کی نشانی کو چھوڑ کر چلے گئے۔
لوگ جمع ہوتے گئے اور میں بھی روٹی لینا بھول کر بچے کے دل کو چیرنے والی رونے کی آواز میں مستغرق ہوگیا ۔
ہائے یہ بچہ خداتعالیٰ کے ہاں احتجاج کر رہا ہوگا کہ کوئی مجھے زبردستی اس مکان ظلم و ستم میں لے آیا۔ یا شاید ماں کے پیچھے رو رہا ہوگا۔۔ لیکن ایسے بچے کے ماں باپ کہاں ہوتے ہیں ۔ ایسے بچے کا کوئی نہیں ہوتا۔ ایسا بچہ تو گند کے ڈھیر پر پیدا ہوتا ہے ، لوگ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تماشا کرتے ہیں اور وہ تڑپتے ہوئے واپس اُس جہاں میں چلا جاتا ہے جہاں سے وہ آیا ہوتا ہے۔
میں یہ باتیں سوچ رہا تھا کہ ایک پروفیسر صاحب آکر میرے قریب کھڑے ہوئے ، اخلاقیات پر ایک طویل لیکچر دیا لیکن کسی نے اس پر کان نہ دھرے اور بچے نے پھر سے ایک چیخ نکالی۔
لوگوں کے اس ہجوم میں ایک سیاسی لیڈر بھی کھڑا تھا جو اپنے ساتھ سرگوشی کررہا تھا " یہ دیکھو! اس گند کو سبز کپڑے میں لپیٹا ہے، ظالمو سرخ کپڑے میں لپیٹ لیتے، سبز رنگ تو پاک رنگ ہے۔ یہ کام جس نے بھی کیا ہے اچھا نہیں کیا ہے۔"
ایک لڑکے نے یہ سن کر جواب دیا "انکل جی! سبز کپڑے میں نہیں بلکہ سرخ کپڑے میں ہے، ہنہہ آپ دیکھتے نہیں کہ اس کے بدن پر کوئی کپڑا ہی نہیں."
یہ دونوں باتیں کر رہے تھے اور بچہ اسی طرح رو رہا تھا. وہ چاہتا تھا کہ مجھے کوئی اٹھائے ، مجھ پر کوئی رحم کھائے یا پھر کوئی اسے بہتے ہوئے پانی میں پھینک دے لیکن وہاں پر ایسا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
کچھ بچوں نے پاس جانے کی کوشش بھی کی لیکن بڑوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا "پاس نہ جاؤ ! کسی نے کوئی چیز نہ باندھی ہو ، کوئی مسلہ نہ بن جائے ."
لوگ جمع ہوتے گئے اور بچے نے رونا بند کر دیا ، اس کی آواز دب گئی یا شاید زیادہ رونے سے گلا بیٹھ گیا۔
ان میں سے ایک لڑکے نے زور سے آواز لگائی۔
"گل مکئی !!"
لوگوں نے جب پیچھے دیکھا تو ایک نوجوان مگر پاگل سی، لمبے بال ، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ، گرد آلود اور ایک کھوئی کھوئی سی لڑکی جس کی چہرے پر کیچڑ لگی تھی ، دبے دبے قوموں کے ساتھ لوگوں کے اس ہجوم کے پاس آکر کھڑی ہوئی ، مگر اس نے کسی کی طرف دیکھا نہیں.
ایک لمحے کے لیے کھڑی رہی ، اور جب بچے نے چیخ نکالی تو وہ ہرنی کی طرح دوڑ کر اس بچے کے پاس جاکھڑی ہوئی، اسے اٹھا کر گلے سے لگایا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مگر چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی، وہ مسکراہٹ جو کسی کھوئی ہوئی گمشدہ چیز کے ملنے سے چہرے پر آتی ہے۔
اس نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا ،بچے کو چوما اور وہاں سے بھاگ نکلی۔
(محمد کامران اتمان خیل نےپشتو سے اردو میں ترجمہ کیا ہے.)
تبصرہ لکھیے