یہ طوطے صاحب آج بازار میں مل گئے، خرید کر گھر لے آیا. شان الحق حقی صاحب طوطا کا املا توتا بتاتے تھے لیکن یوسفی انکل نے 'خاکم بدہن، میں دلچسپ انداز میں حقی صاحب کے املے کو مسترد کر دیا ہے-
سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میاں مٹھو کو پنجرے میں قید رکھوں یا آزاد کر دوں، پھر سوچا کہ اگر یہ مجھ سے مانوس ہو گئے تو میرے، نہیں ہوئے تو انہیں آزاد کر دوں گا. لیکن یہ بھی تو صحیح ہے کہ طوطے آنکھ بہت جلدی پھیرتے ہیں- یہ بھی سوچا کہ مٹھو میاں کو اپنے جیسا بدتمیز بناؤں گا. کچی کچی گالیاں سکھاؤں گا لیکن مرشد نے کہا کہ ابے اسے مولوی بنا ڈال. 34 ویں کانفرنس منعقد ہونے میں ابھی سمے باقی ہے. تب تک اسے ٹرینڈ کر، میں نے کہا کہ یعنی اسے بھی ایک تقریر رٹوا دوں. مرشد کہنے لگے، ہاں بے! مولوی بھی تو رٹا مار کر ہی آتے ہیں، کون سا وہ وہ فی البدیہہ گل افشانئی گفتار کرتے ہیں، میں نے کہا ایسا کیا؟
مرشد کہنے لگے کہ برخوردار! ابھی تم نے جانا ہی کیا ہے؟ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ جو مولوی دو چار تقریریں رٹ لیتے ہیں، وہ خود کو تیس مار خاں سے کم نہیں سمجھتے- مرشد نے کہا کہ ابے اسے موضوع دے دے کہ باہو بلی نے کٹپا کو کیوں مارا، میں نے کہا کہ مرشد! منتظمین کانفرنس یہ موضوع مجھے پہلے ہی دے چکے ہیں. ایسا کرتا ہوں کہ اسے علما کا اخلاق، کے موضوع پر تقریر لکھ کر دے دیتا ہوں. مرشد نے کہا کہ چل ٹھیک ہے، تب تک میں اس کیلئے شیروانی کا آرڈر دے دیتا ہوں. رام پور سے تو تب تک اس کیلئے دو پلی ٹوپی منگوا لے، کرتا پاجامہ علی گڑھ ہی میں سل جائے گا-
اب فرض کیجئے کہ دہلی میں 34 ویں کانفرنس منعقد ہو چکی ہے، ہمارے یار طرح دار اختر جاوید Akhtar Javed نظامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں. جاوید بھائی نے اپنے مخصوص انداز میں طوطے صاحب کو کچھ یوں دعوت سخن دی- دیویو اور سجنو! آپ کے سَمکَچَھ اپنا بھاشن پَرَستُت کرنے کیلئے پَدھار رہے ہیں. فضیلۃ الشیخ طوطا مہاراج، المعروف بہ مٹھو میاں، یہ جس موضوع پر اپنا چونچ کھولتے ہیں. اس کا حق ادا کر دیتے ہیں، آپ سے سَوِی نَے نِوِیدَن ہے کہ کان کھول کر کے ان کا بھاشن سنیں، وگر نا یہ آپ کی طبیعت صاف کر کے رکھ دیں گے-طوطا صاحب شیروانی کے بٹن ڈھیلی کرتے ہوئے اور اپنے لٹکتے ہوئے ازار بند کو پاجامے کے اندر گھسیڑتے ہوئے ترشیف لائے اور کچھ یوں مخاطب ہوئے-
نا محترم صدر! ربر اسٹامپ ناظم صاحب اور لمبے تڑنگے بھاری بھرکم امیر صاحب! سیالکوٹ کے ایک شاعر نے کبھی کہا تھا کہ
اثر کرے نہ کرے سن تو مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ پرندہء غلام
اس پَنکتی میں اگر آپ کو عروض کی تروٹِی نظر آئے تو چھما چاہتا ہوں، اس لئے کہ میں نے جس سے عروض پڑھا تھا، آج کل وہ سنگھیوں کی مدح کر رہے ہیں- حَجرات! آپ لوگ میرے اُچَّارَڑ پہ زیر لب مسکرائیں نہیں، اس لئے کہ میرا تلفظ غلط نہیں ہے، پتھر ہی تو ہیں آپ لوگ کہ کوئی بھی چابک آپ لوگوں پر اثر نہیں کرتا، یہ کانفرنس اس لحاظ سے 'تاریخی، ہے کہ اس میں ایک طوطے کو بھی لب کشائی کا موقعہ دیا جا رہا ہے، یہ موقعہ میں نے موقعہ پرستی دکھا کر نہیں حاصل کیا ہے، نہ ہی یہاں تک پہنچنے کیلئے کسی کی چاپلوسی کی ہے، میں نے منتظمین کانفرنس کو چندہ دیا ہے چندہ، یہ چندے ہی کا کمال ہے کہ آج میں آپ لوگوں کا قیمتی وقت ضائع کر رہا ہوں-
میرے بارے میں پروپیگنڈہ کر کے لوگوں کو بَھرمِت کیا جاتا ہے کہ میں اینٹی مولوی ہوں، مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی بات نہیں کہ ہاں میں ایسا ہی ہوں. ڈنکے کی چوٹ پر میں کہتا ہوں کہ ہاں میں اینٹی مولوی ہی ہوں لیکن میں ان مولویوں کا مخالف ہوں، جنہیں مجدد الف ثانی نے علمائے سو کہا تھا، مولانا آزاد نے جن کا رونا رویا تھا، عبید اللہ سندھی جن سے تنگ تھے، جن مولویوں نے امام مالک کو درے لگوائے تھے.جن کی سازشوں کی وجہ سے امام احمد بن حنبل کو کوڑے کھانے پڑے تھے، جنہوں نے امام نسائی کو حرم میں شہید کروا دیا تھا، جن کی حرکتوں کی وجہ سے امام ابن تیمیہ کا جنازہ جیل سے نکلا تھا، جنہوں نے امام بخاری کو خرتنگ میں جلاوطن کروا دیا تھا.
یہ وہ علمائے سو تھے، جن کی حیلہ سازیاں مشہور تھیں، یہ ایسے دولت کے حریص تھے کہ جب یہ مرے ہیں تو ان کے گھروں سے خزانوں کے دفینے نکلے ہیں. یہ علمائے سو تکفیر میں اس قدر جلد باز تھے کہ ان کی تیغ زبان سے نہ کوئی اپنا بچا ہے، نہ کوئی پرایا، یہ وہ لوگ ہیں، جن کی وجہ سے پورا تالاب گندہ ہو چکا ہے لیکن سناٹا ایسا ہے کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں آتی، ایسا لگتا ہے کہ سب کے منہ میں بلی نے بچہ دے دیا ہے- محترم علمائے کرام! آج آپ کی صفوں میں کچھ ایسے رانگ نمبر گھس آئے ہیں، جو آپ لوگوں کی بے عزتی کا سبب بن رہے ہیں، آپ انہیں چھتر چھایا نہ فراہم کیجئے، بلکہ دھکا دے کر بھگایئے انہیں، ان کی وجہ سے آپ کی پوری کمیونٹی کی ساکھ کو بٹہ لگ رہا ہے، آخر کیا ہو گیا ہے آپ کی بصیرت کو، کہاں چلی گئی ہے آپ کی مشہور زمانہ فراست؟
آپ لوگ تو وہ ہیں کہ جو فتنے کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اس کی گردن مروڑ کر کے رکھ دیا کرتے تھے، آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آپ میں سے کچھ بیڈ علما ہیں لیکن مصلحت نے آپ کا منہ بند کر رکھا ہے- آخر کو وہ آپ ہی لوگ تھے کہ جو دار پر جھول گئے، کوڑے کھائے، جلاوطن ہوئے، اسیر زنداں ہوئے، استعمار سے ٹکرا گئے، بچوں کو قربان کر دیا، جائداد قرق کروا دی، قلم تک چھین لیا گیا آپ سے لیکن آپ غلط کو آپ غلط کہتے رہے، باطل سے نہ ڈرے، نہ دبے تو آج کیوں نہیں آپ منہ کھول رہے ہیں کہ ہاں ہم میں سے کچھ لوگ غلط ہیں، جن سے غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں- ایک دور وہ تھا کہ جب آپ کی شرکت کے بنا کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوتی تھی، لوگ جھک مار کر کے آپ کو منصب امامت پر دھکیلتے تھے، آپ لوگوں کے خلوص کی ایک دنیا قائل تھی لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ
اگر خلوص کی دولت کے گوشوارے بنیں
تو شہر بھر میں کوئی صاحب نصاب نہ ہو
ایسا نہیں ہے کہ آپ سب لوگ برے ہیں. سب نہیں، صرف چند برے ہیں لیکن ان چند بروں نے آپ کی جماعت کو کڈنیپ کر رکھا ہے، یہ لوگ اپنی مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں، انہیں لوگوں کی طوفان بدتمیزی سے گھبرا کر آپ ہی کا ایک امام جب دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو بیساختہ اس کے لبوں سے یہ الفاظ برآمد ہوتے ہیں کہ خدایا! علما کو بھی ہدایت دے، بار الہا! یہ تیرے سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں، میرے معبود! تو انہیں اپنے سیدھے راستے پر چلا، میرے مالک! تو رحم کر ان پر، ان پر اپنا دست شفقت رکھ، نہیں تو یہ ہلاک و برباد ہو جایئں گے- ایک جیالا تھا، آپ لوگوں کا ایسا عاشق زار تھا کہ بڑے بڑوں سے ٹکرا جاتا تھا، خلیفہ عبدالحکیم نے جب 'اقبال اور ملا، لکھا تو یہ بے چین ہو گیا، نظم لکھی 'ملا کو گالی نہ دو، لیکن اسی جیالے کی کلیات کا جب سرسری مطالعہ ہی کیا جائے تو یہ حقیقت آشکارہ ہو جاتی ہے کہ یہ جیالا بھی علمائے سو سے کم تنگ نہیں تھا، اس جیالے کا صرف ایک شعر پڑھئیے اور سر دھنیئے
حرم فروش فقیہوں کے حوض کوثر سے
مغنیہ کے لبوں کی شراب بہتر ہے
(نامعقول طوطے کی تقریر سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں.... جاری ہے)
تبصرہ لکھیے