چین، ایک نیا جہاں
یہ 2013 کی بات ہے، جب نہ ہر جیب میں سمارٹ فون ہوتا تھا، نہ ہی سوشل میڈیا نے دنیا کو اتنا قریب کر دیا تھا جتنا آج ہے۔ ان دنوں بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کا خواب ہر پاکستانی نوجوان کی آنکھوں میں ہوتا تھا، مگر ان خوابوں کا رُخ زیادہ تر یورپ، امریکہ یا انگلینڈ کی طرف ہوتا تھا۔ چین کا نام سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں زبان، انوکھے کھانے اور ایک مختلف ثقافت کا تصور اُبھر آتا تھا۔
کیونکہ ہم انگریزوں کی کالونی رہے ہیں تو ہمیں انگریزی بولنے والے ملکوں میں جانا اور رہنا آسان لگتا ہے، یہ خیال کرنا کہ کوئی چین جا کر تعلیم حاصل کرے گا، ایسا ہی تھا جیسے کوئی دور دراز کے کسی گاؤں میں جا کر پڑھنے کا ارادہ کرے۔ اس وقت چین میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان خاص طور پر میڈیکل کے شعبے تک محدود تھا، لیکن میرے بارے میں یہ مشہور تھا کہ میں ہمیشہ ہجوم سے ہٹ کر راستہ چُنتا ہوں۔
جہاں میرے دوست یورپ، امریکہ یا انگلینڈ کے خواب دیکھ رہے تھے، میں نے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ میری فطرت کے عین مطابق تھا۔ دوستوں کا ردعمل دلچسپ تھا۔ کچھ نے حیرانی سے پوچھا، ’’چین؟ بھائی، وہاں جا کے کیا کرو گے؟ وہاں تو زبان بھی نہیں آتی، کھانے بھی عجیب ہوں گے، اور کلچر تو بالکل مختلف ہے!‘‘ کچھ نے مذاق میں کہا، ’’چینی لوگ تو کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں، تم کیسے گزارہ کرو گے؟‘‘ لیکن میں نے ان سب باتوں کو مسکرا کر نظرانداز کر دیا۔ میرے دل میں ایک عجیب سا جوش تھا، جیسے میں کسی نئی دنیا کی تلاش میں نکل رہا ہوں، جہاں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع ہوں گے بلکہ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔
اُس وقت میں جہلم کے ایک نجی کالج میں کیمسٹری پڑھاتا تھا۔ بی ایس کیمسٹری کے آخری سال میں تھا اور تدریس کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ میرے اور طلبہ کے درمیان رشتہ صرف استاد اور شاگرد کا نہیں تھا، بلکہ میں انہیں اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح سمجھتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ صرف نصابی کتابوں کے فارمولے اور اصول رٹوانا کافی نہیں، بلکہ زندگی کے تجربات اور سیکھے گئے سبق بھی بانٹنے ضروری ہیں۔ میں اپنی یونیورسٹی لائف کے تجربات اور اپنے اساتذہ سے سیکھے گئے قیمتی اسباق ان طلبہ کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ میرے طلبہ مجھ سے کھل کر بات کرتے، اپنے مسائل بیان کرتے اور مشورے لیتے۔ ایک دن ایک طالب علم نے مجھ سے کہا، ’’سر، میں ڈینٹسٹری کرنا چاہتا ہوں، مگر پاکستان میں میرٹ نہیں بن رہا۔ کیا آپ کے جاننے والوں میں کوئی ایسا ہے جو چین یا روس میں داخلے کا بندوبست کرا سکے؟‘‘ یہ سوال میرے لیے ایک نئے دروازے کے کھلنے کی مانند تھا۔ میں نے فوراً اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا، جو چین میں ایم بی بی ایس کر رہا تھا۔ اس کے مشورے سے میرے طلبہ کے چین جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
جب میرا بی ایس کیمسٹری مکمل ہوا، تو میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی چین سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کروں اور ساتھ ساتھ طالب علموں کی رہنمائی کو ایک پیشے کے طور پر اپناؤں۔ یہ فیصلہ زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ یوں میری تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کا سفر چین کی طرف رواں دواں ہوا۔
جب میں نے چین جانے کا ارادہ کیا تو دل میں کئی سوالات تھے۔ زبان کا مسئلہ سب سے بڑا چیلنج تھا۔ چینی زبان دنیا کی مشکل ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے، اور اس وقت میرے پاس اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ زبان ایک رکاوٹ نہیں، بلکہ ایک موقع ہے۔ ایک نئی زبان سیکھنے کا مطلب ایک نئی ثقافت، نئے لوگوں، اور نئی دنیا کو سمجھنے کا دروازہ کھولنا ہے۔
تیاریوں کا مرحلہ دلچسپ تھا۔ ویزے کی درخواست، داخلہ کے کاغذات، اور دیگر رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد جب میں نے چین کے لیے روانگی کی تاریخ طے کی، تو دل میں عجب سا جوش اور تھوڑا خوف بھی تھا۔ خاندان اور دوستوں نے الوداعی ملاقاتیں کیں، نصیحتیں دیں، اور مستقبل کے لیے دعا کی۔
جب جہاز نے اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اُڑان بھری، تو میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ سفر صرف جغرافیائی نہیں، بلکہ میری شخصیت اور زندگی میں بھی ایک انقلاب لانے جا رہا ہے۔ چین پہنچنے پر پہلی چیز جو محسوس ہوئی، وہ زبان کا مسئلہ تھا۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی چینی زبان کے بورڈز، اعلانات، اور لوگوں کی گفتگو میرے لیے بالکل اجنبی تھی۔ گوگل ٹرانسلیٹ یا دیگر سہولیات اُس وقت اتنی عام نہیں تھیں اور چین میں ان پر پابندی تھی اور اب بھی ہے، اس لیے ہر بات سمجھنا ایک چیلنج تھا۔ لیکن یہی چیلنج میرے سفر کا سب سے دلچسپ حصہ بننے والا تھا۔
یونیورسٹی پہنچنے پر، جہاں میں نے ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا تھا، پہلا دن یادگار تھا۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے طلبہ، جن کی زبانیں، ثقافتیں، اور خیالات مختلف تھے، ایک جگہ جمع تھے۔ یہاں میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی تجربہ ہے۔ کلاس روم میں چینی اساتذہ کی تدریس کا انداز، ان کی محنت، اور طلبہ کی لگن دیکھ کر میں متاثر ہوا۔
چین میں رہتے ہوئے سب سے بڑا چیلنج کھانے پینے کا تھا۔ چینی کھانے پاکستانی ذائقوں سے بالکل مختلف تھے۔ شروع میں تو مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کھاؤں اور کیا چھوڑ دوں۔ لیکن وقت کے ساتھ میں نے نئی چیزوں کو آزمانا شروع کیا۔ کچھ کھانے پسند آئے، کچھ عجیب لگے، لیکن یہ سب تجربات میری زندگی کا حصہ بن گئے۔
زبان سیکھنے کا سفر بھی دلچسپ تھا۔ شروع میں تو ہر چینی لفظ مجھے ایک پیچیدہ معمہ لگتا، لیکن وقت کے ساتھ جب میں نے زبان کی باریکیاں سمجھنا شروع کیں، تو مجھے محسوس ہوا کہ زبان کا حسن اس کی پیچیدگی میں ہی ہے۔ چینی زبان سیکھنے سے نہ صرف میری تعلیمی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ میں نے مقامی لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات بھی قائم کیے۔
چین میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں نے دیکھا کہ وہاں کا تعلیمی نظام پاکستانی نظام سے خاصا مختلف ہے۔ چینی اساتذہ طلبہ کو تحقیق کی طرف زیادہ راغب کرتے ہیں اور عملی کام پر زور دیتے ہیں۔ یہ تجربہ میرے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہوا۔ میں نے سیکھا کہ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں، بلکہ علم کو عملی زندگی میں استعمال کرنا ہے۔
چین میں گزارے گئے دنوں نے مجھے نہ صرف تعلیمی میدان میں ترقی دی بلکہ میری سوچ اور شخصیت کو بھی نکھارا۔ میں نے سیکھا کہ مشکلات سے گھبرانے کے بجائے انہیں قبول کر کے ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ چین کے تجربات نے مجھے خود اعتمادی دی، اور آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفر میری زندگی کا بہترین فیصلہ تھا۔
اس سفرنامے کا نام "چین - جیسا میں نے دیکھا" اس لیے رکھا ہے کیونکہ چین بہت بڑا ملک ہے، جہاں مختلف قومیتیں، زبانیں، اور ثقافتیں پائی جاتی ہیں۔ ہر شخص کا تجربہ منفرد ہوتا ہے۔ میرے مشاہدات اور تجربات نہ صرف میرے ذاتی ہیں بلکہ میرے بہن بھائیوں اور قریبی دوستوں کی روداد پر بھی مشتمل ہیں۔ یہ سفرنامہ ان کہانیوں، مشاہدات، اور تجربات کا ایک مجموعہ ہے جو چین کے رنگوں اور زاویوں کو میری نظر سے پیش کرتا ہے۔
تبصرہ لکھیے