یہ کہانی نہیں ،ایک حقیقت ہے ،اور وہ بھی آج سے تقریباً سترہ سو سال پہلے کے اس دور کی جسے ہم "جاہلیت" کہتے ہیں۔ ابھی اسلام کے اصولِ حیات و معاشرت سے نہ کوئی واقف تھا،نہ ان کی روشنی کی کرن پھوٹی تھی۔البتہ انسانیت ظلمتوں کے گھٹاٹوپ عہد میں جی رہی تھی اور کسی مسیحا،مصلح و راہبر و راہنما کی امید لگائے بیٹھی تھی۔ بلاشبہ ماقبل الہامی و آفاقی ادیان کی تعلیمات و اصول حیات کہیں نا کہیں ضرور محل نظر تھے۔
یہودیوں کا مضبوط ترین قلعہ خیبر، جسے عہد نبوی میں سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم نے فتح کیا ،کا رہائشی ایک یہودی سردار جو شعری فصاحت و بلاغت میں مشہور اور عرب کے بڑے شعراء کی صف اول میں شمار ہوتا،یہیں مقیم تھا۔ وہ شمالی جزیرہ نمائے عرب میں تیماء نامی مقام پر اپنے دوسرے مسکن ،ایک مضبوط ترین قلعے "حصن الأبلق" کی جانب سفر کرتا رہتا اور اکثر وہاں قیام کرتا۔ یہ قلعہ اس کے دادا "عادیاء" نے تعمیر کروایا تھا ۔ یہ یہودی شخص "السموال بن غریض بن عادیاء بن رفاعہ بن حارث ازدی"تھا ۔ وہ پانچویں صدی کے آخر اور چھٹی صدی عیسوی کے آغاز تک زندہ رہا۔
اہل عرب اس کی شاعری کے تو معترف تھے ہی،اس کی فصاحت و بلاغت کے دیوانے بھی اور اس کی سرداری،خاندان اور پرکشش شخصیت کے سامنے سرنگوں بھی،مگر جس وصف نے اسے سرداران عرب میں ممتاز اور امر کردیا ،وہ اس کی بے مثل و بے نظیر وفا،ایفائے عہد اور امانت کا تحفظ تھا ۔ گئے گذرے جہالت،شرک اور کفر کے ساتھ ہر قسم کے بدترین اخلاقی زوال اور معاشرتی انحطاط کے ماحول میں سموئل بن عادیا کا یہ فقط نظری نہیں ،شاندار عملی کردار اس کی ایسی پہچان بن گیا کہ اہل عرب وفا اور ایفائے عہد میں آج بھی اسے ضرب المثل قرار دیتے ہیں۔
آگے بڑھنے اور اس واقعے سے آگاہ ہونے سے پہلے جس نے اسے امر کردیا،یہ بھی جان لیجیئے۔۔کہ۔۔یہی سموئل بن عادیا ۔۔وہ شخص ہے جس کی ایک نواسی سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سرکار رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں اور ام۔المؤمنین قرار پائیں ۔ یہ سموئل کی ایک ہی بیٹی "بَرّہ" کی صاحب زادی تھیں. ان کی شادی تاریخ اسلام میں کشمکشِ حق و باطل کے ایک اہم کردار حُیّی بن أخطب سے ہوئی، جو قبیلہ بنو نضیر کے سردار تھے، جو اُس وقت کے بڑے اور بااثر یہودی قبائل میں سے ایک تھا۔
بَرَّة بِنْت السَمَوْأَل نے مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کی،جو ابھی یثرب ہی تھا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مسعود سے منور نہیں ہوا تھا،اور قبیلہ بنو قریظہ کا حصہ بن گئیں۔ 625ء میں جب بنو نضیر کو مدینہ سے جلاوطن کیا گیا، تو برہ اپنے خاندان کے ساتھ خیبر منتقل ہو گئیں۔ خیبر میں ان کا مقام نمایاں تھا، کیونکہ ان کے شوہر قبیلے کے سربراہ تھے اور ان کے خاندان، بنو أبو الحُقيق، کے پاس قلعہ قموص کی ملکیت تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے قبیلے کے تعلقات کشیدہ رہے اور ان تنازعات کے دوران ان کے کئی قریبی رشتہ داروں کو قتل کیا گیا۔ 627ء میں غزوہ خندق کے بعد، برہ کے شوہر حیی بن أخطب اور بیٹے کو قتل کر دیا گیا، کیونکہ وہ جنگ میں ملوث تھے اور ان کے قبیلے بنو قریظہ کے بیشتر مردوں کا بھی یہی انجام ہوا۔ تاہم ان کے بھائی رفاعہ زندہ بچ گئے کیونکہ انھوں نے ایک مسلمان خاتون کی پناہ لے لی تھی۔ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیگر خواتینِ خاندان کے ساتھ قیدی بنا لیا گیا، لیکن ان کی جنگی قید کا اختتام اس وقت ہوا جب اللہ کے رسول محمد ﷺ نے ان سے نکاح کیا۔ اس طرح، برہ بنت السموأل رسول اللہ ﷺ کی ساس بن گئیں۔
اب آئیے۔۔اِس شاندار اور دلچسپ پس منظر میں سموئل بن عادیا کی وفا کا قصہ سنیے۔
عربی جاہلی شاعری سے دلچسپی رکھنے والے ایک انتہائی بڑے جاہلی شاعر "امرؤالقیس" سے یقیناً آگاہ ہوں گے۔یہ عربی شعراء کا امام وامیر کہلایا۔۔"امیر الشعراء" کے لقب سے تاریخ کے صفحات پر براجمان ہوا۔اس کا "مُعَلّقہ" عربی جاہلی شاعری کے سات انتہائی بلند پایہ قصائد میں سر فہرست ہے۔ وہ وصف خیل (گھوڑا) اور وصف لیل( رات) اور کئی دیگر اصناف شعر میں ممتاز ہے ۔
ہوا یوں کہ امرؤ القیس کے والد قبائلی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے اور قتل کردیے گئے۔۔امروالقیس گرچہ اپنے قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا،جو شہزادوں کی سی زندگی بسر کرتا،اوارگی اور اخلاق باختگی کا عادی ہوا اور گھر سے بے گھر بھی۔مگر جب والد کا قتل ہوا تو اس کے سارے نشے ہرن ہوگئے اور اس نے سنجیدگی سے قتل والد کا انتقام اور بدلہ لینے کا مصمم ارادہ کیا،مگر قاتل قبیلہ اس سے کچھ تکڑا تھا،لہذا اس نے ملک شام۔کے حکمرانوں سے مدد طلب کرنے کے لیئے سفر کا ارادہ کیا، اس کے پاس کچھ قیمتی اسلحہ موجود تھا ،جن میں پانچ زرہیں بہت گراں مایہ تھیں جنہیں وہ سفر میں لیئے لیئے نہیں پھر سکتا تھا ۔
سوچ بچار ہوا کہ یہ امانت کہاں محفوظ کی جائے اور کس پر ان کی حفاظت اور عند الطلب واپسی کے لیئے اعتماد کیا جائے۔اس حوالے سے سارے عرب میں ایک ہی نام معروف اور قابل اعتماد تھا۔۔سموئل بن عادیا۔۔۔ امراؤ القیس بھی اس پر متفق ہوگیا اور سموئل سے ملنے کا ارادہ کیا۔ساتھ میں یہ قیمتی زرہیں اور اپنی جوان بیٹی بھی ساتھ لےگیا کہ اسے اب اپنے قبیلے واغپر بھی کوئی بھروسی نہ تھا۔۔ ملاقات میں سموئل نے امرؤالقیسٹ کی خوب آؤ بھگت کی اور زرہوں کے علاوہ بیٹی کی حفاظت کا یقین بھی دلایا۔۔
بیچارہ شاعر مزاج شہزادہ امرؤ القیس مدد کی خاطر مارا مارا پھرا۔ایک تو اس کے حاسد بھی زیادہ تھے اور مخالف بھی کم نہ تھے۔۔ دوست کے روپ میں چھپے کسی مخالف نے اسے زہر میں ڈوبی ہوئی قبا تحفے میں دی ،جس سے اس کے جسم پر بڑے بڑے ابلے ابلے نکل ائے اور زہریلے مواد کے پھٹنے سے پھیل گئے،اور بالاخر یہی زہریلی قبا مسافرت میں اس کی موت کا باعث بن گئی ۔ناز و نعم میں پلا ہوا،شعر و سخن میں ڈھلا ہوا،شراب و شباب و کباب میں بسا ہوا۔یہ عربی شہزادہ اپنے باپ کا انتقام لیتے لیتے دوست نما دشمن کا نشانہ بن گیا۔ جب اس کے دشمنوں کو اس کی موت کی خبر ملی تو بھاگے سموئل کے پاس اور خود کو اس کا وارث جتلاتے ہوئے وہ قیمتی اسلحہ جو امانت کے طور پر سموئل کے پاس رکھوایا گیا تھا،حواگی کا مطالبہ کیا۔ سموئل نے تو صاف انکار کردیا کہ تم اس کے حقیقی وارث ہرگز نہیں اور وہ یہ اما نت امرؤالقیس کے حقیقی وارثوں کے علاوہ کسی بھی صورت کسی دوسرے کو نہیں دے گا،خواہ اس کے لیے اسے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
یہ جھوٹے وارث ایک مسلح جتھے کے ساتھ تھے،جنہوں نے قلعے کا محاصرہ کر لیا ۔اتفاقا اس وقت سموئل کا بیٹا قلعے سے باہر تھا،دشمن نے اسے قابو کرلیا،اور سموئل کو پیغام دیا کہ اسلحہ ہمارے حوالے کردو ورنہ تمہارے بیٹے کو قلعے کے صدر دروازے پر قتل کرکے پھینک دیا جائے گا۔ سموئل نے اس دھمکی پر پریشان ہونے کی بجائے واضح الفاظ میں امانت میں خیانت اور عہد و وفا سے روگردانی کرکے تاابد بدنام اور قابل مذمت رہنے سے یکسر انکار کردیا۔کچھ وقت کے بعد مایوس ہوکر دشمن نے سموئل کے بیٹے کو قتل کردیا. سموئل نے بیٹے کو تو خون میں نہایا قبول کرلیا، مگر اپنی وفا،امانت،اور وعدے کی پاسداری کا قتل نہ ہونے دے کر خود کواور اپنی وفا کو زندہ جاوید کرلیا۔
عربی شاعر ۔۔المتنبی۔۔نے کیا خوب کہا ہے۔۔
عَلى قَدرِ أَهلِ العَزمِ تَأتي العَزائِمُ
وَتَأتي عَلى قَدرِ الكِرامِ المَكارِمُ
اہل عزیمت اپنی ہمتوں کے مطابق ہی عزیمت کی راہوں پر چلائے جاتے ہیں اور ان کی عظمتوں اور مکارم کے مطابق ہی بلندیوں اور کرامتوں کے مناصب پر فائز کیے جاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے