چینی کمپنی ڈیپ سیک نے اپنے آرٹی فیشل انٹیلی جنس پلیٹ فارم کولانچ کیا تو دنیا زلزلے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔ کہا جانے لگا کہ چینی کمپنی نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس پر امریکی اجارہ داری کو توڑ دیا۔ پہلا جھٹکا تو اسٹاک مارکیٹ میں آیا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی کمپنی OpenAI تو لسٹڈ نہیں ہے لیکن اس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے لئے چپ بنانے والی کمپنی Nvidia اور اوپن اے آئی کے مل کر نئی چِپ بنانے والی کمپنی Broadcom کے حصص کو شدید گراوٹ کا سامنا ہوا ۔
کسی بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم کے دو حصے سافٹ وئیر اوراسے چلانے کے لیے طاقتور پروسیسر چپ جو دنیا بھر میں اس وقت واحد کمپنی Nvidia ہی بناتی ہے، درکار ہوتے ہیں۔ سافٹ وئیر کی بات تو بڑی حدتک واضح ہے کہ OpenAI نے اپنا اے آئی سافٹ وئیر ڈیولپرز کے لیے کھلا رکھا ہوا تھا تاکہ کوئی بھی (مفت یا تھوڑی سی فیس دے کر) ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرلے۔
ڈیپ سیک نے یہ نہیں بتایا کہ اُنہوں نے اپنے R1 ماڈل بنانے کے لیے ڈیٹا کہاں سے حاصل کیا لیکن ایسے اشارے موجود ہیں کہ انھوں نے اوپن سورس ہی کے سسٹم کو ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے ماڈل کی تربیتی صلاحیت اگلے درجے پر پہنچائی ہے۔ ڈیپ سیک کا یہ ماڈل اتنا کارگر ہے کہ اسے اپنے مدمقابل میٹا کے Llama 3.1 کے مقابلے میں صرف دس فیصد کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت پڑتی ہے۔
ڈیپ سیک پر ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام
”ہم اس بات سے واقف ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز سے معلومات کشید (چوری) کئے ہیں ، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جوں جوں تفصیلات سامنے آئیں گی فوری طور پر (عوام و میڈیا کو) آگاہ کریں گے، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔“ (اوپن اے آئی کا اعلامیہ)
دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈیپ سیک کے یہ سب کچھ Nvidia کی چِپ حاصل کیے بغیر حاصل کیا ہے؟
یہ بات پہلے ہی ریکارڈ پر ہے کہ کہ 2022 میں امریکی حکومت نے چینی AI کمپنیوں کو جدید ترین Nvidia کی چپ فروخت پر پابندی لگادی تھی ، لیکن ڈیپ سیک پابندیاں لگنے سے پہلے ہی Nvidia کی H100 چپ 10,000 عدد خرید چُکی تھی، جو ان کی ضرورت کے لئے ناکافی تھی۔ اس معاملے میں اس وقت پوری دنیا کے بڑے تجارتی ممالک بشمول سنگاپور میں اس بات کی تحقیقات ہورہی ہے کہ کیا چین نے Nvidia کی چپ وہاں سے حاصل کی ہے۔
میری زندگی کا بڑا حصہ سنگاپور کے الیکٹرونکس پرزہ جات کی ہول سیل مارکیٹ میں گذرا ہے ۔ جہاں میرا تو اس قسم کی چپ سے واسطہ نہیں پڑا لیکن اس قسم کی وارداتیں عام ہیں ۔ عموما ڈسٹربیوٹر اپنے منافعے کے لیے اکثر جان بوجھ کر کسی پابندیوں سے مبرا ملک یا ادارے کے نام پر یہ سامان جاری کرایا جاتا ہے۔ اس کے لئے کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے جعلی کاغذات و کوائف فراہم کئے جاتے ہیں۔ لیکن سامان کسی اور ملک یا ادارے کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔جب تک کوئی بڑی شکایت سامنے نہ آئے یہ معاملہ خاموشی کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔
عموما پرزہ جات و کسی قسم کے آلات کا ڈسٹربیوٹر کے گودام سے نکلنے کے بعد اگر ممنوعہ جگہ و ممالک میں پہنچ جانے کے بعد کہیں پکڑے جانے کی صورت میں اس کی فراہمی کے ذریعے کا درست سراغ لگانا بڑی حدتک ناممکن ہوتا ہے، لیکن حسا س پرزہ جات اور تقریبا تمام الیکٹرونک آلات کا فیکڑی سے لیکر ڈسٹری بیوٹر تک فروخت کا ریکارڈ اس کے سیریل نمبر کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ سیریل نمبر پرزے یا مشیب پر چھپے ہوئے ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل پروسیس کے ذریعے مشین کے پروسیسر میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں مٹا کر شناخت ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔
کوئی حساس پرزہ یا مشین کسی بھی “غلط” جگہ پائے جانے کی صورت میں مینوفیکچرر فوری طور پر اپنے ڈسٹری بیوٹر، اور ڈسٹری بیوٹر اپنے گاہک کی شناخت کر سکتا ہے۔ اس طرح تفصیلی تحقیقات کی صورت میں ذمہ دار کی شناخت ناممکن نہیں ہوتی ۔ بات کھلنے پر جو بھی اس قسم کی حرکت میں ملوث ہوتا ہے اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ 2012 میں سنگاپور کی ایک کمپنی نے وہاں کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی سنگاپور ٹیلی کام کے جعلی آرڈر کے ذریعے امریکہ سے کچھ پرزہ جات منگوا کر ایران بھیجے تھے۔ بات کھُلنے کے بعد اس کمپنی کا ایرانی مالک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا پر وہاں کام کرنے والے تین افراد مقامی کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کردیا گیا جہاں انہیں قید کی سزا دی گئی۔
امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کا واقعہ یاد آتا ہے ۔ جب پاکستان و دیگر چند ممالک کے نام سے فروخت کردہ لیپ ٹاپ و پرنٹر ایران میں پائے گئے ۔ اس وقت کسی کےخلاف قانونی کاروائی تو نہیں ہوئی پر اس کمپنی کے کئی ملازمین برطرف کردئیے گئے اور متعلقہ ڈسٹری بیوٹر کو بھی اپنی ڈسٹریبیوٹر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے منسلک ایک اور دلچسپ قصہ بھی ہے مشھور امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کے بعض پاکستانی ڈسٹری بیوٹر پاکستان کے نام پر سامان لیکر دوسرے ممالک میں فروخت کرنے کے لئے سنگاپور میں اپنا نمائندہ دفتر کھول پاکستان کے نام پر سامان وہاں وصول پر کرنے کے بعد دیگر ممالک بالخصوص دوبئی میں فروخت کرتے تھے (دوبئی سے ایران و دیگر ممالک پہنچنا آسان تھا)۔ ڈسڑی بیوٹرشپ کے معاہدے کے خلاف ورزی ہوتی ہے پھر بھی اکثر متعلقہ لوگ جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جو کچھ سامان پاکستان جاتا بھی تھا تو اس کی قیمتیں ٹیکس بچانے کے لئے انوائس میں کم قیمتیں یعنی انڈر انوایسنگ کرکے بھیجا جاتا تھا۔۔Hp جیسی بین الاقوامی کمپنیاں کبھی خود کو براہ راست انڈر انوائسنگ یا کسی غیر قانونی حرکت میں ملوث نہیں کرتیں اس لیے (یہ حرکت ان کے ڈسٹری بیوٹر یا ان کے نمائندہ دفتر ہی کرتا ہے)۔ اس زمانے میں Hp کا پاکستان میں دفتر بھی ہوتا تھا پاکستانی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے Hp سے کئی سالوں کے پاکستان کے نام پر جاری ہونے والے سامان کی اصلی انوائس طلب کیں۔۔ چونکہ ساری ڈیلیوری و شپمنٹ Hp کے سنگاپور کے دفتر سے جاری ہوتے تھے اس لیے زیادہ امکان یہی تھا کہ یہاں پر اس کا مکمل ریکارڈ نہیں تھا اس لئے Hp پاکستان نے معذرت کرلی ۔ چونکہ اس وقت Hp پاکستان کے سربراہ پاکستانی اگر غیر ملکی ہوتا تو شاید ہچکچاتے، اس لئے انہوں نے اسے غالبا غیر رسمی طور پر گرفتار کرکے شرط عائد کردی کہ جب تک Hp سنگاپور انہیں پاکستان کے لئے جاری ہونے والے تمام سامان کی اصلی انوائس ان کے حوالے نہیں کریں گے اسوقت تک انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ مجبوراً Hp سنگاپور نے ساری تفاصیل ان کے حوالے کے کر اپنا آدمی چھڑا لیا اور پاکستان میں اپنا دفتر بند کردیا ۔
عموما امپورٹر کسٹم ڈیوٹی کی چوری کے دو طریقے سے کرتے ہیں پہلا اصل قیمت سے کم قیمت کی انوائس ظاہر کرکے دوسرا آنے والے سامان کی تعداد کو کم ظاہر دوسری طرف چونکہ اب کسٹم یا ایف بی آر کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے انہوں نے متعلقہ ڈسٹری بیوٹرز کے ریکارڈ سے تقابل کیا تو قیمتوں کا فرق تو درست طریقے سے پکڑ میں آگیا ۔۔ لیکن تعداد کا معاملہ تھوڑا مشکل تھا کہ زیادہ تر سامان پاکستان کےنام پر وصول ضرور کیا گیا تھا لیکن درحقیقت وہ سامان کہیں اور بھیجا گیا تھا (اس لحاظ سے اس پر پاکستانی کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیں ہوتی لیکن) کسٹم نے ان کی اس عرصے میں نہ صرف انڈر انویسنگ کے فرق کا ٹیکس طلب کیا، بلکہ جو اضافی سامان درحقیقت پاکستان نہیں آیا تھا لیکن چونکہ Hp کے کاغذات میں پاکستان کا لکھا ہوا تھا اس کی بنیاد پر اُن کے اوپر بھی کسٹم ڈیوٹی و یگر ٹیکس کی ادائیگی کا حُکم جاری کردیا۔چند سالوں قبل کی آخری اطلاعات کے مطابق معاملہ عدالت میں تھا۔ موجودہ صورتحال کا علم نہیں ۔
اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا چین نے درحقیقت امریکی چپ استعمال کی ہیں ۔۔اگر ایسا ہوا ہے تب بھی چین کا یہ کارنامہ بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستان نے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا و مقابلہ کرتے ہوئے ایٹم بم بنایا تھا۔ اس صورتحال میں اپنی ضرورت کے لیے ٹیکنالوجی ، آلات و پززہ جات حاصل کرنا چوری نہیں کارنامہ کہلاتا ہے۔۔دنیا بھر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رُکتا ۔۔ اگر کوئی علم چھپائے تو ملکی قومی مفاد میں اس علم کو چُرانا بھی فرض ہوتا ہے۔ ( یہ الگ بات ہے کہ ان معاملات میں کسی کا مجرم کسی کا ہیرو ہوتا ہے)۔
چین نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔۔ یقیناً چپ کی فراہمی میں پابندیوں کی وجہ سے اس کے مکمل فوائد حاصل کرنے میں ان کی محدودات آڑے آئیں گی۔ چین میں سیمی کنڈکٹر چپ مینو فیکچرنگ کی فیکٹریاں موجود ہیں چاہے وہ ٹیکنا لوجی میں کتنے بھی پیچھے ہوں لیکن آگے بڑھنے کی بنیاد ان کے پاس موجود ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں جلد یا بدیر چین بھی یہ چپ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ Nvidia کا چیف ایگزیکٹو آفسر بھی تائیوانی نژاد چینی النسل جینسن ہوانگ ہے۔۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے جوہر قابل امریکہ میں حساس مقامات پر موجود ہیں ۔۔ کیا پتہ وہاں سے چین کو بھی کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان مل جائے جو پہلے سے موجود بنیاد کو نئی بلندیوں تک پہنچا دے۔
اس حمام میں سب ننگے ہیں
بیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ صنعتی انقلاب کی ابتدا ہی برطانوی و یورپی ٹیکنالوجی کی چوری سے ہوئی تھی ۔ حالیہ دور میں تیز رفتاری سے ترقی پذیر معیشت چین بھی اسی مرحلے سے گُذر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت، چین، روس، جنوبی کوریا اور جاپان یہ تمام ممالک ہی اپنی صنعتی ترقی کے ابتدائی دور میں ٹیکنالوجی کی چوری کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی بھی بہت کچھ امریکہ سے چُرایا ہوا مال و مصالحہ شامل ہے لیکن اسکا آفیشیل ریکارڈ اس لحاظ سے ممکن نہیں ہے اپنے اس لاڈلے بچے کی شرارتوں پر محلے میں شور نہیں مچایا جاتا۔ امریکی حکومت کے اکاؤنٹ ایبلٹی آفس کی 1983 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ٹیکنالوجییکل مصنوعات میں امریکی ٹیکنالوجی و پرزہ جات کا حصہ 35 فیصد ہے اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً اسرائیل پر ایٹم بم کے لئے یورینیم چُرانے سے لیکر ٹیکنالوجی و دیگر راز چرانے تک کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ امریکیوں کا عشق اسرائیل اس درجے کا ہے کہ اسے سات نہیں 43 خون بھی معاف ہیں ، 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی ائیر فورس نے امریکئ بحریہ کے کمیونیشن مانیٹرنگ جہاز USS Liberty پر اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کرکے 43 امریکی ہلاک اور 171 کو زخمی کردیا پھر بھی اسرائیلی کی معذرت اور غلط فہمی کے بہانے کو قبول کرلیا گیا۔ یہاں بھی امریکی انٹیلی جنس کے ادارے امریکہ میں اسرایئلی جاسوسوں کے ٹیکنالوجی و یگر راز چُرانے کی حرکتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باجود سوائے اسرائیلی سفارتخانے میں متعین اپنے ہم منصب کو خاموشی سے تنبیہ کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ کہ اس پیار بھری شکایت پر بھی FBI کو امریکی کانگریس و سینٹ کے اسرائیلی حامی ممبران کی جانب سے تنبیہی فون کالیں آجاتی ہیں اور سارا معاملہ غتربود ہو جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے