کافی سوچ بچار، گہرے غور و خوض اور کسی حد تک قوموں کے عروج و زوال سے متعلق قوانین الٰہی کے مطالعے کے بعد ہماری دو ٹوک رائے ہے کہ مسلمان اپنا عروج دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کی دو شرائط ہیں:
1۔ مسلمان اپنے ایمان، خاص طور پر توحید کی طاقت بحال کریں۔
مسلمان اپنے ایمان کی طاقت کیسے بحال کر سکتے ہیں؟
اس کے لیے مسلمانوں کو کلام الہٰی سے اپنا ناتا اور تعلق جوڑنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید کی صورت میں نازل شدہ آخری ہدایت نامہ سمجھ کر پڑھنا ہو گا، اس کی روح میں اترنا ہو گا اور اس کو اپنی روح میں اتارنا ہو گا۔ مجموعی لحاظ سے ذیلی، ضمنی اور فروعی اختلافات سے ذرا بلند ہو کر وسعت ظرفی کے ساتھ سوچنا اور بڑھنا ہو گا۔
2۔ مسلمان موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق عسکری طاقت حاصل کریں۔
مسلمان عسکری طاقت کیسے حاصل کریں؟
اس کے لیے انھیں جدید علوم کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا، سائنسی علوم حاصل کرنا ہوں گے، نت نئی ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنا اور کرنا ہو گا۔ عصری تعلیمی اداروں کو اپنے بلند تر اہداف متعین کرنا ہوں گے۔ ان اداروں کو صرف نوکری پیشہ افراد کی تیاری جیسے ادنیٰ مقاصد کی بجائے تسخیر کائنات کے اعلیٰ اور عالی مقاصد مقرر کرنا ہوں گے۔ دفاعی سائنس، اسلحہ سازی اور جدید ترین میزائل سسٹم کے میدان میں ہمیں اور ہماری یونیورسٹیوں کو نئے زاویوں اور جدید خطوط پر کام کرنا ہو گا۔
دوسری طرف اگر آپ مغرب کو دیکھیں تو ان کے پاس مذکورہ بالا دو قسم کی طاقتوں میں سے صرف ایک ہی طاقت (عسکری) ہے، مگر اس کے باوجود اس وقت دنیا پر ان کی حکومت ہے۔ اسی (عسکری) طاقت کی بہ دولت اہل مغرب کا فیصلہ ہی اس وقت دنیا کی سیاست کا رخ متعین کرتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، کے اصول کے تحت جس کے ہاتھ میں طاقت ہے، اسی کی دنیا ہے۔
آج امت مسلمہ مجبور اور مقہور ہے، تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ یہ عسکری طور پر کمزور ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو تلخ اور کڑوی ضرور ہے، لیکن اس کا انکار ممکن نہیں۔ مسلمانوں کے بعض علاقوں اور ملکوں میں ہمیں بہ راہ راست اہل مغرب کی حکم رانی نظر نہیں آتی، مگر وہاں بھی اپنے کاسہ لیس حکم رانوں اور نمائندوں کے ذریعے مسلمان مملکتوں پر اہل مغرب ہی حکومت کر رہے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایمان و یقین کی مضبوطی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت، یہ دونوں چیزیں مل کر مسلمان قوم کو دنیا کا امام بنا سکتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے