ہوم << دنیا: ایک سخت گیر مگر دانا استاذ - سعید مسعود

دنیا: ایک سخت گیر مگر دانا استاذ - سعید مسعود

حضرت والد صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں، یہ دنیا ایک استاذ ہے، اس سے سبق سیکھتے رہنا۔ کبھی طبیعت کے موافق سبق دے گا تو کبھی پچھاڑ کر رکھ دے گا۔ لیکن ظالم، اس استاذ کا سبق ہی اتنا مشکل ہوتا ہے کہ اسے پڑھتے ہی ماتھے پر بل در بل آجاتے ہیں۔ میٹھے گھونٹ کڑوے میں تو سہولت دقت میں بدل جاتی ہے، فراوانی تنگ دستی میں تو اپنے پرائے میں بدل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ سبق سمجھنے کا ہر ایک متحمل نہیں ہوسکتا۔ فی الوقت سمجھنے والا اگرچہ کوئی نہ ہو، بعد میں اس دنیا کے مشکل ترین سبق کو ازبر یاد کرنے والا نہ صرف تجربات میں متبحر ہوتا ہے بلکہ اس کی ہر بات حکیمانہ محسوس ہوتی ہے۔

تو کیا خیال ہے، یہ پیچیدگیوں سے بھرپور چیپٹر ہمارے لیے مفید نہیں؟ کیوں نہیں، بالکل ہے، لیکن کڑواہٹ برداشت کرنے کے بعد۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں، مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے ہماری تربیت ہوتی ہے، ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے، تربیت ہو رہی ہے تو دھچکے تو لگیں گے نا۔ ان غیر معمولی حالات میں، جب دل و دماغ پر غصہ طاری ہوتا ہے، بندہ کسی بھی فیصلے سے آنے والے حالات کو اپنے موافق یا مخالف کرجاتا ہے۔ یہیں سے مستقبل کے الٹے سیدھے فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔ بعد میں اگرچہ افسردگی ہوتی ہے، لیکن یہ افسردگی اس مکے کی مانند ہے جو مقابلے کے بعد یاد آئے۔

اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ حالات پوچھ کر بھی نہیں آتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمانہ اپنے اسباق میں صعوبتوں کا بھی اضافہ کرجاتا ہے، لیکن اس میں مجھے اور آپ کو کچھ نہ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ہر ایرے غیرے کی باتوں میں آنے سے بچ جاتا ہے۔ تب اس کے دو کانوں میں سے ایک سننے کے لیے تو دوسرا نکال دینے کے لیے بن جاتا ہے۔

تو جناب، چھوڑیں اب آئیں بائیں شائیں اور دنیا کے اس کڑوے اور ناموافق سبق کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔ پھر دیکھیں کیسے آپ کے چار طبق روشن ہوتے ہیں۔