ہوم << خواب جس کے سرہانے دھرے تھے- ثمینہ سید

خواب جس کے سرہانے دھرے تھے- ثمینہ سید

کتاب: خواب زندہ رہتے ہیں
شاعر : عرفان صادق
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
ہوگئے خاک، انتہا یہ ہے

میر تقی میر ایسا فرما گئے ہیں۔ انہوں نے عشق کی آنچ کو دھیما نہیں ہونے دیا تھا۔ خود کو دانستہ اس میں جلا کر خود اذیتی کا لطف لیتے رہے شعر کہتے رہے۔یہ خود اذیتی شاید شاعر کے خمیر میں شامل ہے۔یوں جیسے شعر میں طبیعت رواں رہنے کے لیے یہ ضروری امر ہو۔شاعر کو حقیقت سے فرار ہی اچھا لگتا ہے وہ اپنی طبیعت کی روانی کے لیے کہتا ہے کہ " خواب زندہ رہتے ہیں " اور کبھی خواب سرہانے رکھ کر سو جاتا ہے۔وہ اسی میں طمانیت محسوس کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو اس کے الفاظ جو اس کے خوابوں کی فہرستیں ہیں وہ انسان کے بعد بھی امر رہتے ہیں اسے زندہ رکھتے ہیں تو یوں اس کے خواب زندہ رہتے ہیں۔

عرفان صادق کا شمار عہد حاضر کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے ان کی غزل میں ٹھہراؤ ہے اورتسلسل بھی ہے۔ ان کے موضوعات جدت و ندرت کاامتزاج ہیں۔ ایک دور تھا جب غزل کو ہی شاعری سمجھا جاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ غزل میں بہت سے تجربات ہونے لگے تاکہ جمود پیدا نہ ہو جائے۔ غزل اصل میں تو جذبات کا اظہار ہے،محبوب کی مدح سرائی ہے۔ اپنی شدتوں کو سلیقے کے پیرہن پہنا کر شعروں میں ڈھالنا ہے۔ اب یہاں تہذیب وتمدن، سماجی بندشیں اور جس عہد میں شاعر جی رہا ہے اس سے ہم آہنگ بھی ہو۔ تو سونے پہ سہاگہ ہے۔ مذکورہ کتاب عرفان صادق کا پانچواں اردو شعری مجموعہ ہے۔پنجابی میں بھی شعر کہتے ہیں ایک کتاب " لوں لوں اچ اڈیک" منظرِ عام پر آ چکی ہے۔اور " ابد آباد "شائع ہو چکی ہے۔

وہ حافظ آباد کے قریب قلعہ بلونت سنگھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ ایم اے اردو لاہور یعنی پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ وہ کم عمری سے ہی شعر کہنے لگے تھے۔ مطالعہ کی عادت نے شعر کہنے کے پیمانے اور سلیقے دونوں کی خوب تربیت کی۔ لاہور آنے کے بعد مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ حلقہ ءاحباب بڑھتا چلا گیا۔ ایک ادبی تنظیم سیوا آرٹس سوسائٹی کے نام سے بنائی اور کتابیں بھی چھاپنے لگے یوں سیوا آرٹس سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے اب تک سینکڑوں کتابیں چھپ چکی ہیں اور تقریبات جن میں زیادہ تر مشاعرے شامل ہیں تسلسل سے معیاری سطح پر ہوتی رہتی ہیں۔ کہتے ہیں

اگر یہ شعر کی دیوی نہ مہربان ہوتی
تو آتی جاتی ہر اک سانس رائیگاں ہوتی

اسی سے ہم شاعری کے ساتھ ان کی جڑت اور کمٹ منٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زدِ عام ہیں۔ وہ ایک مضبوط ادبی ساکھ بنا چکے ہیں۔ اس کتاب کا پیش لفظ ایک نظم" کہوں کیا" کی صورت میں لکھتے ہیں۔ جس میں شاعر اور اس کے لفظوں کی حرمت کا ذکر ہے، پیڑ، پودوں اور پرندوں کے ہونے سے رونقوں کی بات ہے۔ وہ اس کائنات کے ہزارہا دکھ اس ایک نظم میں رقم کر چکے ہیں۔ کہ یہ وہ دنیا نہیں رہی جس کی ربِ تعالیٰ نے انسان کو بشارت دی تھی۔ کہتے ہیں

بہت خوبصورت سا منظر تھا ان لوریوں میں
عجب جھیل سی نیلگوں نیند تھی
ریشمی خواب اپنے سرہانے دھرے تھے
ہوا خوشبوؤں کو اڑائے لیے جا رہی تھی
انہی دلربا منظروں کو تخیل میں باندھے
سماعت میں ان چہچہوں کو سمیٹے
جو عمرِرواں کی ندی میں بہا تو کھلا راز مجھ پر
کہ میں جس جہاں کو تخیل میں باندھے چلا جا رہا تھا
یہ وہ تو نہیں ہے

غزل اپنے الفاظ ، جذبات اور رجحانات کو فنی سانچوں میں ڈھالنے کا نام ہے۔ شاعر ہئیت اور تخیل کی بنیاد پر اپنا اسلوب طے کرتا ہے۔شعر کہتا رہتا ہے موضوعات میں تنوع آتا جاتا ہے۔ لیکن پیمانوں میں مہارت سے الفاظ جڑنا ہی شاعری نہیں ہے۔بلکہ جذبات کو، اپنے گردوپیش کو، ذاتی اور کائناتی وارداتوں کو کلاسیکیت اور جدت کو بیان کرنے کا سلیقہ بھی ازبر ہو۔ تبھی شاعر کے تخیل کا کینوس وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔کچھ مختلف کیفیات کے اشعار دیکھیے۔

شاخوں پہ در بدر ہوئی پھرتی ہیں تتلیاں
پھولوں سے کون لے گیا خوشبو نچوڑ کے

جیسے میں مبتلا ہوں تذبذب میں اس گھڑی
ڈر ہے کہ اس غزل کی زمیں آخری نہ ہو

پنچھی شجر کی شاخ سے جو کررہے ہیں کوچ
شاید سمجھ چکے ہیں اشارے زمین کے

دن کہاں، شام کہاں ہوتی ہے، معلوم نہیں
ہر سمے ایک ہی دھن ہے تری دلداری کی

جو اک ننھا سا پودا تھا، تناور ہوگیا ہے
مرا بیٹا مرے قد کے برابر ہوگیا ہے

میں بند آنکھوں سے پڑھ سکتا ہوں احساسات اس کے
ترا چہرہ مجھے کچھ اتنا ازبر ہوگیا ہے

عرفان صادق کی شاعری میں محبت، فطری ماحول، سماجی منظر اور پس منظر اپنی پوری شفاف اور حساس صورت میں نظر آتے ہیں۔وہ چراغ جلا کر منڈیر پہ رکھ دینے کے قائل ہیں۔انہیں یقین ہے روشنی دریچوں سے دروں تک پھیلتی چلی جائے گی، کائنات میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو روشنی کا راستہ روک سکے۔

پاؤں پکڑ لیے تھے مرے، ڈھلتی شام نے
سورج کھڑا تھا جس گھڑی آنکھوں کے سامنے

تیرگی تیز ہو اور ستاروں کا ہجوم
تو بھی ایسے میں کہیں ہو تو دیے جلتے ہیں

ان کے کلام میں زندگی توازن سے گزارنے کی خواہش نظر آتی ہے۔ وہ جذبات و احساسات کو تہذیب کے دائرے میں رکھ کر روایات کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں۔انا اور خودداری پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے۔ شاعر ہونے کے باوجود طبیعت میں وقار انکساری کی نسبت زیادہ ہے۔ جھکتے جھکتے سنبھل جاتے ہیں۔ جو ان کی فطرت کے عملی اور حقیقت پسند ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ شاید انہیں اپنی ذات پر، اپنی صلاحیت پر یا پھر محبت پر کچھ زیادہ ہی یقین ہے۔

انا کی اونچی حویلی اسار لی میں نے
جو جنگ جیتی تھی وہ خود ہی ہار لی میں نے

میں جانتا ہوں، انا بھی عزیز ہے اس کو
میں مانتا ہوں، محبت کا اس کو پاس بھی ہے

میں اس کی جھیل سی آنکھوں میں دیکھ بیٹھا ہوں
سبب بھی خوب ہے، مجھ کو غضب کی پیاس بھی ہے

عشق میں کیسے چراغوں کی طرح جلتا ہے دل
جو نہیں کرتا یقیں، وہ دیکھ لے بےشک مجھے

عرفان صادق تخلیق کے تمام تر تقاضوں سے شناسا ہیں۔وہ شاعری کے اسرار و رموز کو خوب جانتے ہیں۔اسی لیے شاعری میں طرح طرح کے تجربات کرتے رہتے ہیں۔کبھی بحروں میں،کبھی نئی اور تروتازہ زمینوں کے، کبھی زبان و بیان کے،مختصر یہ کہ وہ شاعری میں تازہ کاری کے قائل نظر آتے ہیں۔انوکھی تراکیب اور استعارے لاتے ہیں۔

جس طرح رات اگل دیتی ہے خورشید نیا
اس کی باتوں پہ مجھے اتنا یقیں ہوتا ہے

روشنی اوڑھے وہ جب خواب میں آ جاتا ہے
عکس خورشید کا ماہتاب میں آ جاتا ہے

ہم نے ساون کے مہینے کو منانے کے لیے
اپنی آنکھوں کی منڈیروں پہ اتارا ترا غم

گھلنے لگی لہو میں شفق رنگ روشنی
بیٹھے بٹھائے جس گھڑی آیا ترا خیال

وہ اضطراب پر ضبط کرنا جانتے ہیں۔حقیقت کو خواب بنا کر سرہانے رکھ لیتے ہیں۔ آئینے میں انہیں اپنا چہرہ روشن نظر آتا ہے تو وہ اعتماد سے اپنے چیلنجز سیٹ کر لیتے ہیں، چراغ کو ہوا میں رکھنے سے بھی نہیں ڈرتے۔تتلی کے بدن سے خوشبو کشید کر کے شعر میں روح پھونکنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اضطرابی کیفیات کو جمالیات کے رنگوں میں رنگ کر خوش رنگ غزل کہتے ہیں۔ ان کے ہاں تصوف کے نمایاں رنگ ہیں۔وہ اپنے گاؤں کی سرسبز و شاداب ہواؤں میں سانس لیتے ہوئے پر لطف پنجابی اشعار اور بولیاں کہتے ہیں۔ جن میں روایت کے روپہلے رنگ جھلکتے ہیں۔ ماحول سے محبت اور جڑت نظر آتی ہے۔

لوگوں کا اک ہجوم فلک تک پہنچ گیا
اک آرزوئے خام میں بیٹھا ہوا ہوں میں

تو امرت کا سندیسہ
تیری تو ہے ذات خمار
اس کو کیا تجسیم کروں
سانسیں، پوریں،ہات، خمار

تاریخ کا بیان، سیاست کے اثرات، معاشی بدحالی، اقدار کے عروج وزوال اور جنگوں کے نتیجے میں ہونے والی شکست و ریخت جیسے پختہ موضوعات بھی ان کے شعروں میں ملتے ہیں۔

تو مجھ کو مار یا مر، کنارہ کش ہو جا
مرے حریف مجھے التجا پسند نہیں

شرط اتنی ہے کہ باتوں سے محبت پھوٹے
منصب و خلعت و دستار نہیں دیکھتا میں

ایسے لگتا ہے کہ سب اجسام مٹی ہوگئے
اب صدا آتی نہیں اس قریہ سفاک سے

اداسی، ہجرو فراق اور جدائی کی نوحہ گری بھی ان کی شاعری میں اشکباری کرتے نظر آتے ہیں۔

تری یادیں ہمارے چارسو ہیں
ہمیں یہ چاردیواری بہت ہے

جو اعتبار بنا ہے، گھٹائیں کیا اس کو
طلب شدید ہے لیکن بتائیں کیا اس کو

شاعر جمالیات کا ترجمان ہے وہ زندگی کی تلخیوں میں بھی گداز ڈھونڈ لیتا ہے۔عرفان صادق کی شاعری زخموں کی بخیہ گیری کرتی ہے۔ ان کی کچھ غزلیں غنائیت سے بھرپور ہیں۔ سادہ الفاظ میں کیفیات خود بخود گنگنانے لگتی ہیں۔اشعار آنکھوں کے سامنے مناظر بناتے چلے جاتے ہیں۔ شجر جو بے زبان نظر آتے ہیں وہ ان کے جذبات و احساسات کو بھی شعروں میں ڈھالتے ہیں توکبھی نظم کرتے ہیں۔ شعر دیکھیے

میں تھا اداس، پیڑ تھے اور سوگوار شام
پنچھی جو جا رہے تھے مرا گاؤں چھوڑ کر

آنگن سے پیڑ جو کٹا تقسیم کے لیے
مت پوچھ کتنا چڑیوں نے صدمہ اٹھایا ہے

پیڑوں کو اس طرح سے نہ کاٹو، ذرا رکو
لوگو! یہ آخری ہیں سہارے زمین کے

مری باتوں کی پرندے بھی گواہی دیں گے
کتنی بے دردی سے اشجار کا خوں ہوتا ہے

ان اشعار میں جو احساسات ہیں وہ عرفان صادق کے گاؤں سے ان کے خالص ماحول سے انہیں ملے ہیں،بچپن سے ہی ان کے خون میں رچ بس گئے ہیں۔ شاید وہ کان لگا کر پیڑوں کے دکھ سکھ سنتے تھے۔اور جس عمر میں نوجوان صرف اپنی ذات سے منسلک خواب دیکھتے تھے تب بھی وہ اشجار، مٹی ہواؤں، چراغ اور گندم کی بالیوں کی خوشبو اپنے اندر اتارتے تھے۔ اداسی بھی شاید اسی ماحول سے مستعار لی ہے جو ان کے اشعار میں مسلسل جاگزیں ہے۔ وہ ظلم و جور اور اسیری کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کے ہاں بہت سے مزاحمتی اشعار ہیں۔ جو ظالم کے خلاف احتجاج ہیں۔

اب گریباں کی خیر مانگتا ہوں
ایک وحشت ہے چار سو میرے

اک خوف ہے جو دامنِ دل چھوڑتا نہیں
اک خوف ہے جو لپٹا ہوا ہے یقیں کے ساتھ

مجھے یہ ڈر ہے مرے خواب نہ بکھر جائیں
اگر یہ رات سکوں سے گزار لی میں نے

وہ بے وفا سہی لیکن وفا شناس بھی ہے
اسی لیے تو یہ دل خوش بھی ہے اداس بھی ہے

ضبط کے سارے قرینوں سے شناسا ہوں مگر
اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے رو پڑتا ہوں

اداس رنگوں سے ساری فضا نہائی ہوئی
عجیب کرب سے اس بار آشنائی ہوئی

اک تحیر ہے میرے چاروں طرف
نقش در نقش آئینہ ہوں میں

چلے ہو سامنے لیکن یہ احتیاط رہے
یہ آئینہ ہے یہ چہرہ اچھال دیتا ہے

اک رنگ کے اک نور کے دھارے سے بندھے ہیں
ہم تو تری آنکھوں کے اشارے سے بندھے ہیں

وصل کے خواب سمیٹے یونہی دھیرے دھیرے
سلسلہ آنکھ کا برسات سے جا ملتا ہے

اے مری آنکھ کے پانی میں نہائے ہوئے شخص
تجھ کو معلوم نہیں ضبط کہاں ٹوٹتا ہے

ان کے اردو شعری مجموعے
۱.چاند کی شال میں لپٹے وعدے
۲.رتجگوں کی بارش
۳.میں آنکھیں بھول آیا ہوں
۴.یہی لمحہ محبت ہے
۵. خواب زندہ رہتے ہیں
اور ابد آباد شاعری کے شجر پہ یونہی شادابیاں رہیں۔ آمین

Comments

Avatar photo

ثمینہ سید

ثمینہ سید کا تعلق بابا فرید الدین گنج شکر کی نگری پاکپتن سے ہے۔ شاعرہ، کہانی کار، صداکار اور افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں پر مشتمل تین کتب ردائے محبت، کہانی سفر میں اور زن زندگی، اور دو شعری مجموعے ہجر کے بہاؤ میں، سامنے مات ہے کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ رات نوں ڈکو کے عنوان سے پنجابی کہانیوں کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ مضامین کی کتاب اور ناول زیر طبع ہیں۔ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ریڈیو کےلیے ڈرامہ لکھتی، اور شاعری و افسانے ریکارڈ کرواتی ہیں

Click here to post a comment