ہوم << موسیٰ الخوارزمی کے نام ایک خط ! علی عبداللہ

موسیٰ الخوارزمی کے نام ایک خط ! علی عبداللہ

تمہیں مخاطب کرتے ہوئے مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں وقت کے ایک روشن دریچے سے جھانک کر بغداد کے ان علمی مراکز کو دیکھ رہا ہوں جہاں تمہارے قلم کی روشنائی نے تاریخ کے صفحات پر ایسے نقوش چھوڑے، جنہیں صدیوں کی گرد بھی مٹا نہ سکی۔ تم نے بغداد کی دانش گاہوں میں بیٹھ کر جو علم ترتیب دیا، اس کی بازگشت نہ صرف عرب کے ریگزاروں میں سنائی دی، بلکہ اندلس کے کتب خانوں میں، یورپ کے گرجا گھروں میں، اور آنے والے زمانوں کے سائنسی عجائب گھروں میں بھی گونجی۔ تمہارا نام نہ صرف الجبرا کی بنیاد بنا، بلکہ تمہارے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دنیا نے الگورتھم کو دریافت کیا- یعنی وہ اصول جس پر آج کی ڈیجیٹل دنیا کھڑی ہے۔

اے خوارزم کے فرزند! تم نے صرف الجبرہ کو ترتیب نہیں دیا، بلکہ تم نے انسانی فکر کو وہ بنیاد فراہم کی، جس پر آج جدید سائنس کھڑی ہے۔ تمہاری کتاب "کتابُ المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ" صرف ایک ریاضیاتی متن نہیں، بلکہ ایک فکری انقلاب تھا۔ تم نے ہمیں سکھایا کہ مسائل کو کس طرح مجرد (Abstract) کیا جائے، ان کا تجزیہ کیسے کیا جائے، اور پھر انہیں منطقی طریقے سے حل کرنے کے لیے کیسے ترتیب دیا جائے۔ آج دنیا تمہارے نام کو Algebra کے ساتھ جوڑتی ہے، مگر یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

اے علم و حکمت کے معمار! آج دنیا ایک اور نام سے بھی تمہیں یاد کرتی ہے، وہ ہے الگورتھم۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہ لفظ تمہارے نام کی بازگشت ہے؟ تم نے وہ اصول وضع کیے جو آج کی ڈیجیٹل دنیا کا دھڑکتا ہوا دل ہیں۔ آج کمپیوٹر اسی الگورتھم کے سہارے فیصلہ کرتے ہیں، پیچیدہ مسائل کو چُٹکیوں میں حل کرتے ہیں، اور انسانی ذہن کی جگہ خود سوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اے خوارزمی! تمہارے الگورتھمز آج کے ڈیٹا سائنسدانوں، انجینئروں اور ماہرینِ کمپیوٹر کے ہاتھوں میں ہیں۔ جب کوئی گوگل پر کوئی سوال لکھتا ہے، جب کوئی مشین لاکھوں ڈیٹا پوائنٹس میں سے صحیح جواب نکالتی ہے، جب کوئی روبوٹ خود بخود حرکت کرتا ہے، تو پسِ پردہ تمہارے اصول کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا تم سوچ سکتے تھے کہ تمہارے نظریات ایک دن پوری دنیا کو ایک Connected Digital Brain میں بدل دیں گے؟

لیکن اے خوارزمی، تمہارا سب سے بڑا معجزہ صفر کی دریافت تھی! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا یہ ایک نظریہ وقت کے سینے میں دھڑکن کی مانند سما گیا؟ پہلے دنیا کے حساب میں خلا تھا، ایک ایسا خلا جو عددی ترتیب میں رکاوٹ ڈالتا تھا، مگر تم نے ایک ایسا ہندسہ متعارف کرایا جو بظاہر کچھ نہیں تھا، مگر اس کے بغیر سب کچھ ادھورا تھا۔

یہ صفر—جو بظاہر عدم تھا—تمام اعداد کی قوت بنا۔ تم نے دنیا کو سکھایا کہ "کچھ نہ ہونا" بھی ایک طاقت رکھتا ہے، کہ عدم کی موجودگی بھی ایک معنی رکھتی ہے۔ یہی صفر آج بائنری کوڈ میں بدل چکا ہے، اور ساری کمپیوٹر سائنس تمہارے اسی اصول پر کھڑی ہے۔ آج جو کمپیوٹر مشینیں حساب لگاتی ہیں، جو مصنوعی ذہانت ہمارے لیے فیصلے کرتی ہے، وہ اسی صفر اور ایک (0,1) کے نظام پر کام کر رہی ہیں- یہ سب تمہارے ذہن کی ایجاد ہی تو ہے-

میں حیران ہوں کہ تمہاری متعارف کردہ ہندو-عربی عددی ترتیب نے دنیا کی گنتی اور حساب کو کس طرح ہمیشہ کے لیے بدل دیا؟ تمہاری تحقیق سے پہلے رومی ہندسوں کا غلبہ تھا، مگر وہ بے ڈھنگے، بھاری بھرکم، اور سست رفتار تھے- وہ تقسیم، تفریق اور پیچیدہ حسابی عمل کے لیے موزوں ہی نہ تھے- رومی ہندسے اپنی فطرت میں جامد تھے، ان میں وہ لچک نہ تھی جو جدید حساب کا تقاضا کرتی۔ نہ ہی ان میں صفر کی نعمت موجود تھی، جو تمہاری تعلیمات کی سب سے بڑی دین تھی۔

میں ایک چھوٹی سی مثال لیتا ہوں- 144 کو 12 پر تقسیم کرنا ہو تو رومی ہندسوں میں کچھ یوں لکھما پڑتا: CXLIV یعنی 144، اور XII یعنی 12- اس طرح تقسیم کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ رومی ہندسوں میں کوئی باقاعدہ طریقہ ہی نہیں تھا- لیکن تمہاری ایجاد کردہ ہندسوں کی ترتیب سے میں یہ تقسیم کا معاملہ بالکل سادہ طریقے سے حل کر سکتا ہوں، یعنی 144 ÷ 12 = 12- چناچہ رومی ہندسے طاقت کا نشان تھے، مگر وہ ذہنی آزادی فراہم نہ کر سکے۔ تمہارا عددی نظام عقل کا معجزہ تھا، جو وقت کی حدود سے آزاد ہو گیا۔ یہی فرق ہے تمہاری تعلیمات اور پچھلی دنیا کے درمیان, اور یہی وجہ ہے کہ تمہارا نام آج بھی زندہ ہے، جبکہ رومی ہندسے صرف عمارتوں اور گھڑیالوں پر سجے رہ گئے ہیں-

اے استادِ وقت! تم نے تو علم کو روشنی کی راہ دکھائی تھی، مگر کیا تم جانتے ہو کہ آج تمہاری ہی پیش کی گئی منطق انسان کو ایک نئی آزمائش میں ڈال چکی ہے؟ آج الگورتھمز صرف مسائل حل نہیں کرتے، بلکہ ہمارے خیالات، ہمارے رجحانات، ہماری معلومات اور حتیٰ کہ ہمارے فیصلوں کو بھی قابو کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز، مصنوعی ذہانت، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ، سب کچھ تمہارے ہی دیے گئے اصولوں کی شکلیں ہیں، مگر اب یہ علم آزاد نہیں رہا، بلکہ طاقتور قوتوں کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار بن چکا ہے۔

لیکن اے استادِ حکمت، اگر تم آج ہوتے، تو شاید حیران ہوتے کہ کیا علم کی یہ ترقی انسان کے فائدے میں جا رہی ہے یا نقصان میں؟ کیا الگورتھمز انسان کی زندگی کو آسان بنا رہے ہیں، یا اس سے اس کی آزاد مرضی چھین رہے ہیں؟ کیا ہم علم کو روشنی کی طرف لے جا رہے ہیں، یا مشینوں کی تاریکی میں گم ہو رہے ہیں؟ تمہارا علم تو آج بھی زندہ ہے، مگر اس کے اثرات پر سوال بھی ہیں، اور حیرت بھی۔ کاش تم ایک لمحے کے لیے لوٹ آتے، اور دیکھتے کہ تمہارے دیے گئے اصول کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ کیا تم ہمیں کوئی نئی روشنی دے سکتے ہو؟ کیا تم ہمیں بتا سکتے ہو کہ علم کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور حکمت کہاں سے شروع ہوتی ہے؟

یہ سوال باقی ہیں، اور شاید ہمیشہ رہیں گے۔ مگر ایک حقیقت طے ہے: تمہارا نام کبھی مٹ نہیں سکتا۔ تمہاری تحریریں وقت کے طوفانوں سے محفوظ رہیں، تمہارے اصول ہزار سال بعد بھی انسانی ترقی کی بنیاد ہیں، اور تمہاری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی—یہ کہانی ابھی جاری ہے-

آخر پہ میں اور میرا دوست تمہاری روح سے گزارش کرتے ہیں کہ تم ہمیں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے میدانِ علم و ہنر میں سرخروئی کی دعا دو-
خدا تمہیں بخشے!

تمہاری دانائی کی روشنی کا طالب
عبداللہ

Comments

علی عبداللہ

علی عبداللہ پیشے کے لحاظ سے آئی ٹی ٹرینر ہیں۔ دو دریاؤں کی سرزمین جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتب بینی اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے۔ ادب، تاریخ، مذہب اور ٹیکنالوجی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں. مختلف ویب سائٹس اور قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔

Click here to post a comment