گذشتہ سے پیوستہ
آپ نے اپنے خلفاء کے کافی اصرار پر قرآن کے ترجمہ کا وعدہ فرما لیا اورکافی تصنیفی مشغولیات کے باعث آپ نے اپنے ایک خلیفہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی (م1368ھ/ 1948ء) سے گذارش کی کہ آپ میرے پاس کاغذ و قلم لے کر آ جایا کریں ، جب جب وقت ملے گا وہ قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھوا دیں گے، چنانچہ اس عظیم کام کی ابتداء جمادی الاول 1329ھ میں ہوئی اور چند نشستوں میں وقفے وقفے سے یہ کام ہوتا رہا۔ مخطوطہ کے آخر میں جو تاریخ درج ہے وہ شب 28جمادی الآخر 1330ھ ہے جہاں امام احمد رضا خاں کے دستخط بھی ہیں ۔ اس طرح 13 ماہ میں چند نشستوں میں یہ کام مکمل ہوا۔ سارا مخطوطہ علامہ مولانا امجد علی اعظمی رحمہ اللہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جس کے آخر میں امام احمد رضا رحمہ اللہ کے دستخط موجود ہیں۔ اس مخطوطہ کی فوٹوکاپی ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ ترجمۂ قرآن کیونکہ 1330ھ میں مکمل ہوا لہٰذا علمِ الاعداد کی بنیاد پر امام احمد رضا نے مندرجہ ذیل نام تجویز کیا:’’کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘یہ ترجمہ قرآن مولانا احمد رضا کی حیات ہی میں شائع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد مراد آباد سے یہ ترجمۂ قرآن مولانا نعیم الدین مراد آبادی (م1367ھ/ 1948ء) کے حاشیہ ’’خزائن العرفان‘‘ کے ساتھ شائع ہوا اور مسلسل 100 سال سے شائع ہو رہا ہے۔
مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے علاوہ کئی تفسیری حاشیہ اور تفاسیر اس ترجمہ کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں ۔ مثلاً
1۔ امداد الدیان فی تفسیر القرآن مولانا حشمت علی خاں قادری پیلی بھیتی (م1380ھ)
2۔ احسن البیان لتفسیر القرآن مولانا عبد المصطفیٰ الازھری، کراچی (م1989ء)
3۔ نور العرفان فی حاشیۃ القرآن مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی، گجرات (م 1391ھ/ 1971ء)
4۔ تفسیر الحسنات مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری، لاہور (م1980ء)
5۔ خلاصۃ التفاسیرمولانا مفتی خلیل احمد میاں برکاتی، حیدر آباد، سندھ (م 1984ء)
6۔ فیوض الرحمن ترجمہ روح البیان مترجم اردو: مولانا محمد فیض احمد اویسی
امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے ترجمۂ قرآن پر سینکڑوں اہلِ قلم کی مثبت رائے موجود ہیں۔
امام احمد رضاخان بطور محدث:
امام احمد رضا قدس سرہ کا علم حدیث میں مقام و مرتبہ کیا تھا اسکی جھلک قارئین ملاحظہ کریں ورنہ تفصیل کے لئےبہت وقت درکار ہے۔ اس مختصر میں مجھے اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہے کہ بلا شبہ آپ علم حدیث میں ہر حیثیت سے اپنی مثال آپ ہیں ۔حافظ بخاری حضرت علامہ شاہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ سے محدث اعظم کچھوچھوی نے معلوم کیا کہ حدیث میں امام احمد رضا کا کیا مرتبہ ہے ؟فر مایا:۔وہ اس وقت امیرالمو منین فی الحدیث ہیں ، پھر فرمایا: صاحبزادے ! اس کا مطلب سمجھا؟ یعنی اگر اس فن میں عمر بھر ان کی شاگردگی اختیار کروں تو بھی انکے مرتبے کو نہ پہنچ سکوں، آپ نے کہا: سچ ہے۔خود محدث اعظم کچھوچھوی فرماتے ہیں: ۔علم الحدیث کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں ہر وقت پیش نظر، اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاہر زد پڑتی ہے ، اسکی روایت ودرایت کی خامیاں ہر وقت ازبر۔ علم حدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے۔ اعلی حضرت کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرما دیتے، اٹھا کر دیکھا جاتا تو تقریب و تہذیب اور تذہیب میں وہی لفظ مل جاتا ، اسکو کہتے ہیں علم راسخ اور علم سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت ۔
۱۳۰۳ھ میں مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت کے تاسیسی جلسہ میں علمائے سہارنپور، لاہور، کانپور، جونپور، رامپور، بدایوں کی موجود گی میں حضرت محدث سورتی کی خواہش پر حضرت فاضل بریلوی نے علم حدیث پر متواتر تین گھنٹوں تک پرمغز اور مدلل کلام فرمایا ۔جلسہ میں موجود سارے علمائے کرام نے حیرت واستعجاب کے ساتھ سنا اور کافی تحسین کی ۔ مولانا خلیل الرحمن بن مولانا احمد علی محدث سہارنپوری نے تقریر ختم ہونے پر بے ساختہ اٹھ کر حضرت فاضل بریلوی کی دست بوسی کی اور فرمایا :کہ اگر اس وقت والد ماجد ہوتے تو وہ علم حدیث میں آپ کے تبحر علمی کی دل کھول کر داد دیتے اور انہی کو اس کا حق بھی تھا ۔محدث سورتی اور مولانا محمد علی مونگیری (بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ )نے بھی اس کی پر زور تائید کی ۔حضرت مولانا یسن اختر صاحب مصباحی لکھتے ہیں: ۔محض اپنے حافظے کی قوت سے احادث کا اتنا ذخیرہ جمع کر لینا ۔بس آپ کے لئے انعام الہی تھا ۔جس کے لئے زبان ودل دونوں بیک وقت پکار اٹھتے ہیں ، ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ایک سوال کے جواب میں سجدہ تعظیمی کی حرمت ثابت کرنے کیلئے ’’ الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ‘‘ (۱۳۳۷ھ) کے نام سے ایک وقیع کتاب آپ نے لکھی جس میں آپ کے تبحر علمی کا جو ہر اتنا نمایاں ہے کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کو بھی اعتراف کرنا پڑا ۔وہی رسالۃ[arabic] جامعۃ تدل علی غزارۃ علمہ وقوۃ استدلالہ ۔یہ ایک جامع رسالہ ہے جو ان کے وفور علم اور قوت استدلال کی دلیل ہے ۔مزید لکھتے ہیں :۔متعدد آیات کریمہ اور ڈیڑھ سو نصوص فقہیہ کے علاوہ آپ نے اس کی تحریم کے ثبوت میں چالیس احادیث بھی پیش کی ہیں : ۔محدث بریلوی قدس سرہ کا علم حدیث میں مطالعہ بہت وسیع تھا۔ آپ نے جن کتب کا بطور حوالہ تذکرہ فرمایا ہے، وہ کتب بھی کوئی معمولی ضخامت کی حامل نہیں بلکہ بعض کتب دس،بیس ، اور پچیس جلدوں پر بھی مشتمل ہیں:۔ مثلا٭ السنن الکبری للبیہقی۔ دس جلدیں٭ المعجم کبیر للطبرانی۔ ۲۵ جلدیں. اس عظیم ذخیرۂ حدیث کا استقصاء و احاطہ اور پھر استحضار یہ سب آپ ہی کا حصہ تھا۔ متعدد مقامات پر ایک وقت میں ایک حدیث کے حوالے میں دس، بیس اور پچیس پچیس کتابوں کا تذکرہ اس بات کی غماز ی کر رہا ہے کہ بیک وقت آپ کے پیش نظر وہ تمام کتابیں رہتی تھیں بلکہ گویا ان سب کو حفظ کر لیا گیا تھا. امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ العزیز سے کسی مسئلہ میں سوال ہوا تو آپ نے قرآن کریم سے استدلال کے بعد احادیث سے استدلال فرمایا اور موضوع سے متعلق احادیث کا وافر ذخیرہ جمع کر دیا۔مثلا ایک بار سوال لایا گیاکہ ایک شخص نےحضور سید المرسلین ﷺکے افضل المرسلین ہونے کا انکار کیاہے اور کہتے ہیں قرآن وحدیث سے دلیل لاؤ۔اس کے جواب میں اعلی حضرت فرماتے ہیں:۔حضور پر نور سید المرسلین ﷺ کا افضل المرسلین سیدالاولین والآخرین ہونا قطعی ایمانی یقینی ایقانی مسئلہ ہے ، جس میں خلاف نہ کرے گا، پھر ایک مبسوط کتاب’’ تجلی الیقین‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی اور ایک سو احادیث سے اس مسئلہ کو واضح فرماکر تحقیق انیق کے دریا بہادیے ۔
جمعہ کے دن اذان ثانی کے موضوع پر امام احمد رضا محدث بریلوی نے ایک کتاب ’’شمائم العنبر ‘‘ نامی عربی زبان میں تحریر فرمائی جس میں ۴۵؍احادیث سے کتاب کو مزین فرمایا ۔در حقیقت امام احمد رضا کی تصانیف احادیث کریمہ کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر ہیں جس موضوع پر اشہب قلم کو مہمیز لگائی اس میں ظفر وکامیابی نے آپ کے قدم چومے ۔امام احمد رضا محدث بریلوی جب کوئی حدیث نقل فرماتے ہیں تو ان کی نظر اتنی وسیع وعمیق ہوتی ہے کہ بسا اوقات وہ کسی ایک کتاب پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ پانچ ، دس اور بیس بیس کتابوں کے حوالے دیتے جاتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ تمام کتابیں اس موضوع پر ان کے سامنے کھلی رکھی ہیں مثلا فتاوی رضویہ نہم رسالہ ’’ عطایا القدیر ‘‘ میں صفحہ ۴۷ حصہ دوم پر ایک حدیث نقل فرمائی ۔لاتد خل الملائکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ ۔رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جس میں کتا یا تصویر ہو ۔٭ رواہ الائمۃ احمد والسنۃ والطحاوی عن ابی طلحہ ۔٭ والبخاری والطحاوی عن ابن عمر و عن ابن عباس ۔٭ ومسلم وابودائود والنسائی والطحاوی عن ام المومنین میمونہ ۔٭ ومسلم وابن ماجہ والطحاوی عن ام المومنین الصدیقہ ۔٭ واحمد ومسلم والنسائی والطحاوی وابن حبان عن ابی ہریرہ ۔٭ والامام احمد والدارمی وسعید بن منصور وابودائود والنسائی وابن ماجہ ابن خزیمہ وابو یعلی والطحاوی وابن حبان والضیاء والشاشی وابونعیم فی الحلیۃ عن امیر المومنین علی ۔٭ والاما م مالک فی الموطا والترمذی والطحاوی عن ابی سعید الخدری ۔٭ واحمد والطحاوی والطبرانی فی الکبیر عن اسامہ بن یزید ۔٭ والطحاوی والحاوی عن ابی ایوب الانصاری ،رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ۔ یہ دس صحابہ کرام کی روایت ۴۳؍ کتابوں سے نقل فرمائی ۔یہ صرف ایک مثال ہے۔اعلی حضرت نے ایک رسالہ ’’ منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین ‘‘ تصنیف فرمایا جس میں حضور پر نور ، شافع یوم النشور ﷺ کے نام اقدس کو سنکر انگو ٹھے چومنے کا جواز واستحباب ثابت فرمایاآپ کے فن حدیث میں کارھائے نمایاں بہت شاندار بلکہ سنہری قلم سے لکھنے کے قابل ہیں۔اعلی حضرت نے جرح وتعدیل اور تحقیق وتنقیح کا عظیم کارھائے نمایاں سر انجام دیےہیں مختلف روایا ت میں تطبیق کرنے میں ماہر تھے.
احمد رضا خان بریلوی کی نعت گوئی
امام احمد رضا خان نامور محدث، فقیہہ اور عالم با عمل تھے ۔ قدرت نے انہیں دوسری علمی و روحانی صفات کے ساتھ عشق مصطفی ﷺ کی دولت بے بہا سے بھی نواز ا۔ یہی عشق مصطفی ﷺطبع موزوں کی بدولت صفت و ثنائے نبیﷺ کے نغمات میں ڈھلتا رہا ۔ آپ تمام اصناف سخن پر یک گونہ مہارت رکھتے تھے ۔ نعت کہتے ہوئے علوم شریعت کو مدنظر رکھتے۔شاعری میں ان کے پیشِ نظر مداح رسول ( ﷺ) سیدنا حسان بن ثابت رضی ا لله تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی مشعلِ راہ تھی۔اپنے دور کے شعرا میں علامہ کفایت علی کافی کی نعت گوئی سے متاثر تھےنعت گوئی کے بارے آپ کا عقیدہ ان الفاظ سے عیاں ہوتا ہے" ”حقیقتاً نعت شریف کہنا بڑا مشکل کام ہے جس کو لوگوں نے آسان سمجھ لیا ہے اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں صاف راستہ ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمد میں اصلاً حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب حد بندی ہے۔“
دیوان
آپ کادیوان حدائق بخشش کے نام سے شائع ہوا
مشہور کلام
نعتیہ کلاموں کی مقبولیت کے حوالے جو پذیرائی اعلی حضرت کی نعتوں کو ملی وہ شاید ہی کسی کو ملی ہو ۔ آپ کی ساری نعتیں بے مثل و بے مثال ہیں تاہم رسم پوری کرنے کے لیے کچھ نعتوں کا ذکر کیا جارہا ہے ۔ بقیہ کے لیے دیوان ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ مصطفٰے جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام، سب سے اَولٰی و اعلٰی ہمارا نبی، صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑ انور کا ۔ قصیدہ نور، واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا، ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں، حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو، لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا، نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا، زمین و زماں تمہارے لیے، مکین و مکاں تمہارے لیے، زہے عزت و اعتلائے محمد، وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں، مصطفی ذات یکتا آپ ہیں، یا الہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
صنعات ِ شعر کا استعمال
علامہ عبدالستار ہمدانی مصروف نے امام احمد رضا خان بریلوی پر لکھی ہوئی کتاب فن شاعری حسان الہند میں حدائق بخشش کی دوسری بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس میں استعمال کی ہوئی تقریبا 31 صنعات ِ شعر کا ذکر کیا ہے ۔
جاری ہے
تبصرہ لکھیے