ہوم << ججوں کا تبادلہ اور عدلیہ کی آزادی - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ججوں کا تبادلہ اور عدلیہ کی آزادی - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

صدرِ مملکت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ، ہائی کورٹ آف سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کو اسلام آباد کے وکلا کی نمائندہ تنظیمیں’عدلیہ کی آزادی‘ کے خلاف تصور کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے سے موجود ججوں میں 5 کی جانب سے ایک خط بھی منظرِ عام پر آیا ہے جس میں اس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ عمل عدلیہ کی آزادی کے خلاف اور آئین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے؟

آئین کی دفعہ 200، ذیلی دفعہ 1، میں ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کے متعلق طے کیا گیا ہے کہ ایسے تبادلے کا اختیار صدرِ مملکت کے پاس ہے، لیکن اس اختیار کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے: ایک یہ کہ جس جج کا تبادلہ کیا جارہا ہو، وہ اس تبادلے پر راضی ہو؛ دوسری یہ کہ جس ہائی کورٹ سے اس کا تبادلہ کیا جارہا ہو، اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ اس کی مشاورت کی گئی ہو؛ تیسری یہ کہ ایسی ہی مشاورت اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ بھی کی گئی ہو جہاں اس جج کا تبادلہ کیا جارہا ہو؛ اور چوتھی یہ کہ ایسی ہی مشاورت چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ بھی کی گئی ہو۔ کیا عدلیہ کی آزادی کےلیے اتنی شرائط کافی نہیں ہیں؟

دفعہ 200 کی ذیلی دفعہ 2 کے اصل متن میں طے کیا گیا تھا کہ جس جج کا تبادلہ کیا جائے، اسے اس کی تنخواہ کے علاوہ ’تلافی ‘ کےلیے کچھ ادائیگی بھی کی جائے گی۔ بعد میں ’تلافی‘ کا لفظ تو حذف کیا گیا، لیکن الاؤنس کا لفظ الاؤنسز (جمع) کردیا گیا اور ساتھ ہی لفظ ’مراعات‘ کا اضافہ بھی کیا گیا۔ 1985ء سے اب تک اس ذیلی دفعہ کا یہی متن رائج ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود اس جج کا تحفظ ہے جس کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔

اس بات کی وضاحت کےلیے ملاحظہ کیجیے کہ 1976ء میں پانچویں ترمیم کے ذریعے اس ذیلی دفعہ میں ایک ’توضیح‘ کے ذریعے قرار دیا گیا کہ اگر تبادلہ ایک سال کےلیے ہو، تو جج کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔ 1985ء میں ’قانون کی بحالی کے حکمنامے‘ کے ذریعے اس مدت کو دو سال کردیا گیا۔ اسی طرح آئین میں دفعہ 203-سی کی ذیلی دفعہ 5 میں اضافہ کرکے قرار دیا گیا کہ اگر ہائی کورٹ کے کسی جج کا تبادلہ وفاقی شرعی عدالت میں کیا جائے اور وہ وہاں جانے سے انکار کرے، تو یہ فرض کیا جائے گا کہ وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگیا ہے۔ 1996ء میں ’الجہاد ٹرسٹ‘ مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس شق کو عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار دیا اور اس کے بعد اس شق پر عمل نہیں ہوا۔ 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ان شقوں کو آئین سے نکال دیا گیا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آئین نے اصل میں اس جج کے تحفظ کو اہمیت دی ہے جس کا تبادلہ کیا جارہا ہے اور اس وجہ سے اس کی رضامندی کو ضروری قرار دیا ہے۔

’الجہاد ٹرسٹ ‘ مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کےلیے ایک اور اہم اصول یہ طے کیا کہ اس سیاق میں آئین میں مشاورت کا لفظ ’بامعنی مشاورت‘ کا مفہوم رکھتا ہے، یعنی مشاورت صرف بھرتی اور خانہ پری کےلیے نہ ہو، بلکہ افہام و تفہیم اور غور و فکر کےلیے ہو۔ پس جب ہائی کورٹ کے ججوں کا تبادلہ ان کی رضامندی سے ہوا اور جیسا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کورٹ رپورٹروں سے گفتگو میں واضح کیا، اس معاملے میں ان کے ساتھ اور دونوں ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ بامعنی مشاورت بھی ہوئی ہے، تو پھر اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟

ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے۔ ابتدا میں ایسے تبادلے کی بات صرف صدرِ مملکت کی جانب سے شروع ہوتی تھی۔ 1974ء میں پہلی آئینی ترمیم کے ذریعے دفعہ 200 میں ذیلی دفعہ 3 کا اضافہ کرکے طے کیا گیا کہ اگر کسی ہائی کورٹ میں ’عارضی طور پر‘ ججوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہو، تو اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کسی اور ہائی کورٹ کے جج کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی ہائی کورٹ کے بجائے اس ہائی کورٹ میں مقدمات کی ’سماعت میں شرکت کرے‘۔یہاں بھی اس جج کی رضامندی کے علاوہ صدرِ مملکت کی منظوری اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ مشاورت کو ضروری قرار دیا گیا۔
دفعہ 200 کی ذیلی دفعہ 3 کا موازنہ ذیلی دفعہ 1 سے کیا جائے، تو یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ذیلی دفعہ 1 کے تحت تبادلہ مستقل طور پر ہوتا ہے، جبکہ ذیلی دفعہ 3 کے تحت تبادلہ عارضی طور پر ہوتا ہے اور تبادلے کا مقصد پورا ہونے پر جج واپس پرانی ہائی کورٹ میں جائے گا۔

یہ فرق مدِّ نظر رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ جب کسی جج کا تبادلہ مستقل طور پر ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں ہوجائے، تو اس سے اس دوسری ہائی کورٹ میں ججوں کی سینیارٹی پر فرق پڑ سکتا ہے ۔ اگر آئین اس فرق کو کچھ اہمیت دیتا، تو یہاں اس کی تصریح ضروری تھی، لیکن آئین نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یہ فرق اس صورت میں بھی اہم ہوتا جب ہائی کورٹ کے سب سے سے سینیئر جج کی چیف جسٹس کے طور پر تعیناتی لازم ہوتی، لیکن اہم بات یہ ہے کہ آئین نے کہیں بھی یہ لازم نہیں کیا کہ ہائی کورٹ کے سب سے سینیئر جج کو ہی چیف جسٹس بنایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم تک تو چیف جسٹس آف پاکستان کےلیے بھی آئین میں یہ بات صراحت سے نہیں لکھی گئی تھی، لیکن الجہاد ٹرسٹ مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے مختلف شقوں سے چیف جسٹس آف پاکستان کےلیے یہ اصول مستنبط کیا تھا۔ اٹھارویں ترمیم نے پہلی بار چیف جسٹس آف پاکستان کےلیے اس اصول کو صریح الفاظ میں ذکر کیا، لیکن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کےلیے ایسی کوئی بات نہیں کی۔

پچھلے سال چھبیسویں ترمیم نے طے کیا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں سینیئر تین ججوں میں کسی ایک کو چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔ یہ بات اپنی جگہ قابلِ بحث ہے کہ کسی مخصوص جج کے چیف جسٹس نہ بن سکنے سے عدلیہ کی آزادی کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، بالخصوص جبکہ وہ جج ان تین ججوں میں شامل ہوں گے جن کے نام بطورِ چیف جسٹس تعیناتی کےلیے زیرِ غور آئیں گے۔ یاد ہوگا کہ جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں جیوڈیشل کمیشن کی کمیٹی نے ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کےلیے رولز میں یہی ترمیم تجویز کی تھی۔ اسی اصول پر لاہور ہائی کورٹ کے دو سینیئر ججوں کو ’سپرسیڈ‘ کرکے سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس عالیہ نیلم کو متفقہ طور پر چیف جسٹس بنایا گیا۔ اگر یہ بات تب عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں تھی، تو اب کیسے ہوگئی؟

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment