ایک حکایت سنی تھی کہ ایک شخص نے کسی دانشمند سے پوچھا کہ زندگی کو کیسے گذارا جائے؟ اس دانا نے سوالی کو ایک دودھ سے بھرا پیالہ دیا اور ساتھ ایک غلام روانہ کیا اور اس سے کہا کہ یہ پیالہ پکڑ کر بازار کا ایک چکر لگا کر آؤ مگر خیال رہے کہ دودھ چھلکنے نہ پائے ورنہ یہ غلا م تمہارا سر تن سے جدا کر دے گا.
سوالی پیالہ پکڑ کر چل پڑا اور پوری احتیاط کے ساتھ بازار کا چکر لگا کر واپس لوٹا. اب اس دانا نے سوال کیا کہ بتاؤ کہ بازار میں کیا دیکھا. تو اس شخص نے جواب دیا کہ حضور میں بھلا کیا دیکھتا، میرا تو سارا دھیان اس پیالہ کی طرف تھا کہ دودھ گرنے نہ پائے. اب اس دانشمند نے کہا کہ زندگی کو بھی اسی طرح گزارنا ہے۔ اگر میرے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہو تو مجھے بہت آہستہ چلنا پڑے گا، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے ہوں گے ورنہ دودھ چھلک جائے گا۔
یہ تیز رفتاری ،یہ بھاگ دوڑ جو دن رات ہم کر رہے ہیں، یہ ہمارے نفس کے پیالہ کو چھلکا دیتی ہے تو کیا نفس کو روح کے پیالہ میں رکھنے کے لیے آہستہ چلنا ضروری نہیں؟ مگر ہم سب تو بہت تیزی میں رہتے ہیں اور مزید تیز بھاگنے کی کوشش ہے تاکہ دوسروں سے آگے نکل سکیں تو کیا ہمارا طرزعمل درست ہے؟ اگر دودھ کو گرنے سے بچانا ہے تو آس پاس سے نظریں ہٹانا ہوں گی، صرف اپنے پیالہ پر دھیان دینا ہوگا. ہمیں خود سے زیادہ دوسروں کی فکر رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا نیکی کا پیالہ خالی ہوتا جا رہا ہے اور اسے بھرا ہوا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آس پاس سے نظریں ہٹا لی جائیں اور آہستہ، چھوٹے اور مظبوط قدم اٹھائے جائیں نہ کہ بھاگنے کی کوشش کی جائے تاکہ جب منزل پر پہنچیں تو ہمارا پیالہ بھرا ہوا ہو، خالی نہ ہو. ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا پیالہ خوشیوں سے بھرا ہوا ہو مگر اس تیز رفتاری میں ہمارے پیالہ سے خوشیاں پھسلتی جا رہی ہیں اور ہم نے اپنے دل پر، خواہش پر اور خوشی پر سے نظریں ہٹائی ہوئی ہیں، صرف منزل پر پہنچنے کی جلدی ہے مگر اگر منزل پر پہنچے اور پیالہ خالی ملا تو کیا منزل حاصل ہوگی؟ خوشی کا پیالہ تو خالی ہو چکا ہوگا، پھر منزل پر پہنچ کر کیا حاصل کریں گے؟ ضروری ہے کہ تیزی کے بجائے آہستہ اور مناسب رفتار سے آگے بڑھا جائے تاکہ منزل بھی ملے اور خوشی بھی۔
تبصرہ لکھیے