ہوم << الفا گو کی سینتیسویں چال اور مصنوعی ذہانت پر دسترس کی جنگ - اسماعیل صدیقی

الفا گو کی سینتیسویں چال اور مصنوعی ذہانت پر دسترس کی جنگ - اسماعیل صدیقی

وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ کچھ اسی قسم کے جذبات لوگوں میں چین کے تازہ ترین مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم ڈیپ سیک DeepSeek کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔ ڈیپ سیک چین کی ایک چھوٹی سی اسٹارٹ اپ کمپنی کی پروڈکٹ ہے، جس کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے۔ ڈیپ سیک نے آتے ہی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ایک لرزہ طاری کردیا ہے اور فقط ایک دن میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اسٹاک مارکیٹ میں امریکی کمپنیوں کو اٹھانا پڑا، جس میں سر فہرست مصنوعی ذہانت کے لیے استعمال ہونے والی چپس بنانے والی کمپنی اینویڈیا nvidia ہے۔ چینی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ کام فقط چھپن لاکھ ڈالر میں کردکھایا ہے، جبکہ امریکی کمپنیاں اس کام پر بلینز ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

آج سے کچھ مہینے قبل جب اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کے ماڈل ’’او۔ ون‘‘ o1 کا اجرا کیا تھا تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس کی ایک دھوم مچ گئی تھی کیوں کہ چیٹ جی پی ٹی کے سابقہ ماڈلز کے برعکس،جس میں اگلے ٹوکن کی پیش گوئی کی بیناد پر ماڈل جواب دیتا ہے ، یہ ماڈل کسی بھی سائنسی یا ریاضی کی گتھی کو سلجھانے کے لیے جس تکنیک کا استعمال کرتا ہے اس میں ماڈل سوال کو کو حل کرتا ہے اور ہر مرحلے میں منطق reasoning کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس تکنیک کو chain-of-thought یا مختصراً CoT کہا جاتا ہے۔ اوپن اے آئی اس ماڈل کے استعمال کے لیے اپنے ہر صارف سے دو سو ڈالر فی مہینہ فیس وصول کرتا ہے۔ جبکہ ڈیپ سیک نے CoT کی بنیاد پر کام کرنے والے اپنے ماڈل R1 کو مکمل طور پر عوام کو مفت فراہم کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اوپن اے آئی کے برعکس (جس کو کلوزڈ اے آئی کہنا زیادہ مناسب ہے) ڈیپ سیک اوپن سورس ہے، یعنی کوئی بھی ان کے الگارتھم کو دیکھ سکتا ہے اور اس کو اپنے استعمال کے مطابق تبدیل کرسکتا ہے۔

اس پورے قضیے کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اب سستے اور کم توانائی استعمال کرنے والی چپس پر چلنے کی وجہ سے مصنوعی ذہانت صرف بلین ڈالرز رکھنے والی کمپنیوں کی میراث نہیں رہے گی، بلکہ امید یہ کی جاتی ہے کہ کم وسائل رکھنے والے ممالک اور کمپنیوں کی دسترس میں بھی آسکے گی۔ دوسری طرف اس سارے معاملے کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ اے آئی سیفٹی جس کو پہلے ہی نظر انداز کردیا گیا تھا ، اب اس نئی دوڑ میں اس پر شاید بات کرنے والا اور اس کا دفاع کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ بابائے مصنوعی ذہانت نوبل انعام یافتہ جیفری ہنٹن نے ڈیپ سیک کے لانچ کے بعد اپنے تازہ ترین انٹریو میں اپنے اس خوف کا ایک دفعہ پھر اعادہ کیا ہے کہ اے آئی بہت جلد انسانی کی مجموعی ذہانت سے ہزاروں گنا آگے بڑھ جائے گی، اور آرٹیفیشل سپر انٹیلی جنس ASI بہت جلد دنیا پر اپنا تسلط جمالے گی ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ کم ذہانت رکھنے والے کسی گروہ نے اپنے سے کئی گنا ذہانت رکھنے والے گروہ پر کنٹرول کیا ہو یا اپنی بات منوائی ہو۔ اگر ایسی مثال ملتی ہے تو وہ صرف ماں اور اولاد کے رشتے میں ملتی ہے مگر اے آئی ماں کے جذبات سے خالی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت پہلے ہی conscious ہوچکی ہے ۔

کچھ مہینے پہلے جب اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین ہندوستان گئے تھے تو ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہندوستان کی کوئی چھوٹی کمپنی تقریباً دس ملین ڈالر خرچ کرکے مصنوعی ذہانت کے ماڈل کو ٹریننگ دے کر اوپن اے آئی کے مقابلے میں آسکے، تو سیم آلٹمین نے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ آپ کوشش کرکے دیکھ لیں مگر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ہندوستان کے ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو یہ جواب برا لگا تھا اور انہوں نے اس کا چیلنج قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، وہ تو کچھ نہ کرسکے مگر چین نے وہ کام عملاً کر دکھایا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کا راستہ روکنے کے لیے امریکا نے اینویڈیا کی مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی طاقتور اور مہنگی ترین چپس A-100 اور H-100 کی چین میں برآمد پر پابندی لگادی تھی۔ یہی پابندی چین کے حق میں ایک رحمت ثابت ہوئی اور اس نے اینویڈیا کی مہنگی ترین چپس پر انحصار کرنے کے بجائے ایسا طریقہ ایجاد کیا، جس میں کم توانائی والی اور سستی چپس سے ہی کام چل جائے۔ امریکا میں ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد چین کے اس دعوے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ چین نے شاید اس کام میں ممنوع چپس کا بھی استعمال کیا ہے، مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نسبتاً بہت کم چپس سے انھوں نے یہ کام لیا ہے۔ بہرحال لاگت جتنی بھی ہو ، امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اس وقت panic mode میں جاچکی ہیں۔ ڈیپ سیک کا اثر زائل کرنے کے لیے اب اوپن اے آئی نے بھی اپنا نیا o3-mini ماڈل جو reasoing کی بنیاد پر کام کرتا ہے ، عوام کو مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

چین کی مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ میں دیر سے داخل ہونے اور اتنی جلدی اتنا آگے بڑھنے کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر دیکھنے میں بہت معمولی مگر نتائج کے لحاظ سے بہت دور رس ہوتے ہیں اور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی تاریخ میں ایسا ہی ایک لمحہ تب آیا، جب گوگل ڈیپ مائنڈ پروجیکٹ کے کمپیوٹر الفا گو Alpha Go نے ’’گو‘‘ بورڈ گیم کے اٹھارہ دفعہ کے عالمی چمپئن کوریا کے لی سیڈول کو گو کے کھیل میں شکست دے دی۔ اگرچہ باقی دنیا میں وہ مقابلہ درخور اعتنا نہ سمجھا گیا مگر چین کے اٹھائیس کروڑ باشندے انہماک اور اضطراب کے ساتھ یہ مقابلہ براہ راست دیکھ رہے تھے۔ ان کے لیے یہ مقابلہ صرف ایک مشین اور انسان کا مقابلہ نہیں تھا بلکہ ہزاروں سالہ مشرقی حکمت و دانائی کی مغربی مشینی ذہانت سے جنگ تھی۔" گو" بنی نوع انسان کا ایجاد کردہ سب سے پیچیدہ بورڈ گیم ہے۔ گو کا کھیل چین کے باشندوں کے لیے صرف ایک کھیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہاں باقاعدہ کئی اسکول صرف اس کھیل میں مہارت سکھاتے ہیں، جن میں بارہ بارہ گھنٹے تعلیم دی جاتی ہے۔ چینی باشندے یہ کھیل گزشتہ ڈھائی ہزار سال سے کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کو جنگی حکمت عملی کی تعلیم کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔

پانچ میچوں کی سیریز کے دوسرے میچ میں مقابلہ جاری تھا کہ الفا گو نے اپنی سینتیسویں چال چلی۔ اس چال میں مغربی مشین کی مصنوعی ذہانت نے مشرق کی ڈھائی ہزار سالہ حکمت عملی کو مات دے دی۔ چال ہر لحاظ سے غیر روایتی اور بظاہر غلط تھی، اور گو بورڈ کے یورپی چمپئن جو کمپیوٹر کی کھیلی گئی چالوں کو اپنے ہاتھ سے بورڈ پرچل رہے تھے، ایک لمحے کے لیے وہ چال چلنے کے لیے تیار نہ ہوئے، کیوں کہ ان کے خیال میں شاید آپریٹر سے بتانے میں کوئی غلطی ہوئی تھی۔ تقریباً پچاس مزید چالوں کے بعد یہ پتا چلا کہ الفا گو کی یہ سینتیسویں چال انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ اس میچ میں شکست پر چین میں بے بسی کی ایک کیفیت پھیل گئی اور بقول سلیم احمد کے وہ شاید یہ سوچنے لگے کہ: ’’قبلہ خان تم ہار گئے ہو، اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکو پولو جیت گیا ہے‘‘۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمپیوٹر اس سے پہلے بھی انسانوں سے جیتتا رہا ہے تو اس میں کون سی خاص بات ہے۔ اس میچ سے برسوں پہلے آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمی چمپئن گیری کیسپروف کو شکست دے دی تھی۔ بات دراصل یہ ہے شطرنج، گو کے مقابلے میں بہت سادہ کھیل ہے۔ گو کی ممکنہ چالیں اس کائنات میں پائے جانے والے ایٹم کے ذرات سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو نے گیری کیسپروف کو جس تکنیک پر شکست دی تھی اس کو کمپیوٹر کی زبان میں بروٹ فورس brute force کہتے ہیں۔ یعنی کمپیوٹر تخمینے کی بنیاد پر تمام ممکنہ چالوں کا جائزہ لے کر کھیلتا گیا اور تخمینے کی بات آئے تو انسان کا کمپیوٹر سے جیتنا نا ممکن ہے۔ مگر گو کے کھیل ممکنہ چالوں کے حجم کے باعث میں بروٹ فورس کا استعمال ممکن نہ تھا۔ یہ کھیل کمپیوٹر نے مشین لرننگ کی بنیاد پر کھیلا تھا۔ یعنی کمپیوٹر ماضی میں کھیلے جانے والے کھیلوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر اپنی غلطیوں سے سیکھتا رہا اور اس کام میں الفا گو کو فقط تین ہفتے لگے۔ الفا گو کی سینتیسوں چال تخمینے کی بنیاد پر ایک چال نہ تھی بلکہ یہ چال خالصتاً چھٹی حس یا intuition کی بنیاد پر کھیلی گئی ایک چال تھی۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کرنے والی کمیونٹی کے لیے یہ خبر اس لیے بڑی تھی کہ ان کے اندازے کے مطابق اس لمحے کو دس سال بعد آنا تھا۔

الفا گو کی اس فتح نے ممکنات کے کئی دروازے وا کردیے۔ اب یہ واضح تھا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس ہر شعبہ ہائے زندگی میں چاہے وہ طب ہو، معیشت ہو یا زراعت، انسانوں کے متبادل اور ان سے بے انتہا موثر طریقے پر کام انجام دے سکے گی۔ آنے والے برسوں میں آرٹیفشل انٹیلی جنس پر دسترس ہی طاقت کا توازن طے کرے گی۔ الفا گو نے دو ہزار سترہ میں چین کے نمبر ایک کھلاڑی اور اس سال کے عالمی چمپئن کے جی کو تین صفر سے شکست دے دی۔ اس شکست پر چین میں لوگ جذباتی ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الفا گو سے اس شکست کے بعد بددلی پھیلنے کے بجائے چین میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کے علم کے حصول کا جیسے بخار سا چڑھ گیا۔ یہ چین کے لیے ایک اسپتنک لمحہ تھا یعنی جس طرح روس نے تاریخ کی پہلی سٹیلائٹ خلا میں لانچ کرکے امریکا کو خلائی میدان میں ایسا دھکیلا کہ وہ خلا بازی میں روس سے کہیں آگے نکل گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چھے سات برس کے قلیل سے عرصے میں چین آرٹیفشل انٹیلی جنس کی ایک سپر پاور کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا ہے اور اب اس فیلڈ میں امریکا اور یورپ کو پیچھے چھوڑتا نظر آرہا ہے۔

Comments

اسماعیل صدیقی

اسماعیل صدیقی نیویارک میں مقیم ہیں، بچوں کے معروف مصنف ہیں اور “بن یامین” کے قلمی نام سے بچوں کےلیے کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں کئی ایوارڈز جیت چکی ہیں، جن میں یونیسف کے اعزازات بھی شامل ہیں۔ ان کی مقبول کہانی ”طلسم ہوش رُبا“ بچوں کے لیے اردو کی پہلی مصنوعی ذہانت پر مبنی ناول کی شکل میں مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ زمانہ طالب علمی میں بچوں کے ماہانہ رسالہ ”ساتھی“ کی مجلسِ ادارت کا حصہ رہ چکے ہیں۔

Click here to post a comment