ہوم << اقبال کا خاندان اور "قادیانیت" - ابوبکر قدوسی

اقبال کا خاندان اور "قادیانیت" - ابوبکر قدوسی

عزیز رشید ودود کچھ جلدی کر گئے ، اور کچھ مکرم محمد دین جوہر کی [ یو پی کے مسلمانوں سے متعلق ] بات کی تلخی نے ان کو بھی تلخ کر دیا، وگرنہ وہ اقبال بارے قادیانیت کی تہمت دھرنے سے پہلے اگر تحقیق کرتے تو ان جیسا صاحب المطالعہ شاید اس سے یکسر مختلف نتیجے پر پہنچتا۔ یہ تسلیم کرنے کی بات ہے کہ یوپی کے مسلمانوں بارے محمد دین جوہر کی بات انتہائی تلخ و مسموم تھی ،لیکن ایسے ہی مقام تو امتحان ہوتے ہیں۔ میں بھی اب کچھ کچھ "مائل بہ رہبانیت" ہوا پڑا ہوں کہ اپنے بارے میں بھی کچھ نا درست پڑھوں تو جواب دینے کے بجائے نظر انداز کرنا پسند کرتا ہوں تو دیگر " قرضے" کیا اتارے جائیں، لیکن بعض قرضوں کو واجب سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ محمد دین جوہر نے یوپی کے مُسلمانوں بارے اور رشید ودود نے اقبال کے تعلق سے جو لکھا ، تو سمجھتا ہوں کہ ضرور ان امور پر لکھنا چاہیے ۔

رشید چونکہ گھر کا بندہ ہے سو پہلے رشید کی بات پر نگاہ کرتے ہیں ۔ رشید کی بات کا خلاصہ یہ نہیں کہ : " اقبال بارے قادیانیت کا شک تھا" ۔ بلکہ انہوں نے تیقن سے یہ " فیصلہ" ہی کر دیا اور بقول ان کے: " اقبال کے والد ، بھائی "قا۔دیانی" اور خود اقبال نے قا۔دیان جا کر مرزا صاحب کی بیعت کی." اور آج ان کی اس حوالے سے اگلی تحریر سے معلوم ہوا کہ ان کا سارا مدار " جاوید اقبال کی کتاب " زندہ رود " پر ہے ۔ افسوس یہ کتاب میری گاڑی سے ایک بار چوری ہوئی اور دوبارہ خرید نہ سکا اور تساہل کا شکار رہا ۔ لیکن بصد احترام کہنا چاہتا ہوں کہ زندہ رود کے جانے کس جملے اور پیراگراف سے رشید نے یہ تاثر لے لیا، وگرنہ اقبال کے والد اور شیخ عطاء کے حوالے سے یہ بات درست نہیں ، اور جاوید اقبال نے بھی یہ نہیں لکھا۔

جاوید اقبال بھلے اقبال کے صلبی بیٹے تھے ، وہ اس تہمت میں [ بطورِ شاہد ] حوالہ نہیں بن سکتے کہ اُنہوں نے اپنے والد کے ساتھ کم وقت بتایا اور ابھی چھوٹے تھے کہ اقبال دنیا سے رخصت ہوئے۔ جب اقبال مسلسل بیمار رہنے لگے تو انہیں احساس ہو گیا تھا کہ چراغِ سحری ہیں اور بجھا چاہتے ہیں۔ ایسے میں انہوں نے چاہا کہ اپنے بچوں کے لیے کوئی سرپرست یعنی قانونی طور پر " گارڈین" مقرر کر دیں ۔ ان کے ، سر سید احمد خان کے پوتے ، سر راس مسعود سے اچھے تعلقات تھے ، سو اقبال نے چاہا کہ ان کو اپنے بچوں یعنی ناصرہ اقبال اور جاوید اقبال کا قانونی سرپرست [ گارڈین ] مقرر کر دیں ، اقبال نے اس حوالے سے ان کو خط بھی لکھا لیکن انہوں نے کہا کہ: " بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے کسی قریبی عزیز کو یہ ذمہ داری تفویض کریں". اس پر ڈاکٹر محمد اقبال نے سر راس مسعود کو اگلا خط لکھا اور کہا کہ : " میں بھی یہی چاہتا تھا کہ میں اپنے کسی قریبی عزیز کو مقرر کرتا لیکن کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا ۔ ایک میرا بھتیجا شیخ اعجاز تھا، لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ وہ "قادیانی" ہو گیا ہے ، اور میں اپنے بچوں پر اس کا سایہ بھی پڑنے نہیں دینا چاہتا." ( مفہوم )

تقدیر کے معاملات عجب ہوتے ہیں ، اقبال کہ جو سر راس مسعود کو اپنے بچوں کا [ گارڈین ] مقرر کرنا چاہتے تھے، وہ اقبال سے پہلے ہی جولائی 1937 میں انتقال کر گئے۔ دوسری جانب اقبال کی صحت مسلسل خراب تھی ، سو اب اقبال نے چوہدری محمد حسین باجوہ ، جو ان کے قریبی دوست تھے ، کو اپنے بچوں کا [گارڈین] مقرر کیا ۔ چوہدری محمد حسین مسلکاً اہل حدیث تھے ۔ اگلے برس اقبال وفات پا گئے اور جس وقت اقبال کی وفات ہوئی، اس وقت جاوید اقبال کی عمر تیرہ برس اور چھے ماہ تھی ۔دوسری طرف چوہدری محمد حسین اقبال کی دی ہوئی اس ذمہ داری کو انتہائی محبت اور شوق سے نبھاتے رہے۔

جبکہ رشید ودود نے لکھا ہے کہ اقبال نے اپنے بچوں کا مربی اور سرپرست اپنے [قادیانی]بھتیجے کو مقرر کیا تھا ، جبکہ اقبال اپنے بچوں کا مربی ایک اہل حدیث دیندار آدمی کو مقرر کر رہے ہیں ، اور اس سے پہلی تجویز بھی سرراس مسعود کی تھی جو بہرحال قادیانی نہ تھے۔ رشید نے شیخ نور محمد (والد اقبال) بارے بھی دعوی کیا کہ وہ قادیانی تھے. بنیادی طور پر یہ غلط فہمی خود قادیانیوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ 1862ء میں جب مرزا غلام محمد عیسائیوں کے ساتھ مناظرے کرتا تھا، اور اہل علم کی آنکھوں کا تارا تھا، اور عام مسلمان بھی اس سے پیار کرتے تھے، تب مرزا سیالکوٹ گئے اور موصوف کا قیام اسی گلی میں تھا جہاں شیخ نور محمد رہتے تھے، سو آتے جاتے ان کے پاس رکنا، اخبار پڑھنا اور گپ شپ کرنا معمول تھا۔ شیخ نور محمد، مولوی حامد علی اور میر حسن یہ تین دوست تھے۔ میر حسن تو معروف ہیں اور سب جانتے ہیں کہ اقبال کے استاد تھے. مولوی حامد علی کے ساتھ بھی شیخ نور محمد کا گہرا تعلق تھا۔ قیام سیالکوٹ میں مرزا سے ان سب کا آپسی تعلق بن گیا تھا، اور ایک اچھی دوستی کی فضا تھی. ایسے میں ایک وقت آیا کہ مولوی حامد علی جو مرزا سے اول اول بطور مسلمان مناظر و عالم دین متاثر تھا، اسی مولوی حامد علی نے مرزا کے دعوی نبوت کے بعد قادیانیت کو اختیار کر لیا ۔ پھر پرانی دوستی کے سبب اسی مولوی حامد علی نے ایک بار مرزا کا پیغام شیخ نور محمد کو بھی دیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ آئیں ، تو شیخ نور محمد نے یہ جواب دیا تھا : " میں آپ کے کام کا بندہ نہیں، میں جس دین میں موجود ہوں، میرے لیے وہی دین بہتر ہے." یہاں پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کوئی وجہ تو تھی کہ شیخ نور محمد کو یوں "پکارا" گیا ، تو یہ وجہ وہی دور اسلام کا پیار تھا ، جب مرزا مسلمان تھے ، اسلام کے داعی تھے اور اسلام کے اس "داعی" کے شیخ نور محمد واقعتاً عقیدت مند تھے.

چلتے چلتے ایک اور دلچسپ قصہ آپ کے سامنے رکھ دوں. شیخ عطا محمد کے بارے میں رشید ودود نے لکھا کہ وہ بھی "قادیانی" تھے ، تو یہ بات بھی درست نہیں ۔ شیخ عطا محمد سنی العقیدہ مسلمان تھے ، بلکہ جب ان کی وفات ہوئی، تو ان کا جنازہ ایک سنی مسلمان نے پڑھایا تھا، اور میرے قریبی عزیز اور دوست اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر وحید الزمان کی ساس صاحبہ میت والے گھر تینوں دن موجود رہی تھیں۔

علامہ اقبال دو بھائی تھے. ایک علامہ خود اور دوسرے شیخ عطاء محمد ۔ انھی شیخ عطا محمد کی بیٹی اکبری کو علامہ نے پالا اور وہ علامہ کے گھر ہی رہتی تھیں۔ اکبری خاتون کی بیٹی [ فہمیدہ ] کے لیے ایک اچھا رشتہ آیا. یہ عرفانی صاحب تھے جو ہمارے ڈاکٹر وحید الزمان کے استاد بھی ہیں۔ ان کے بیٹے [نعیم عرفانی] نے یہ تمام تر قصہ ڈاکٹر وحید الزمان کو سنایا کہ جب یہ رشتہ آیا اور علامہ کی بھتیجی اکبری خاتون نے تجویز علامہ کے سامنے رکھی تو علامہ نے لڑکے کو ملنے کی خواہش کی ۔ جب لڑکا ملنے چلا آیا تو لڑکے کو دیکھ کر علامہ غصے میں آگئے کہ: "اس کو نکالو یہ تو قادیانی ہے"۔

اب عرفانی صاحب راسخ العقیدہ مسلمان تھے. غلط فہمی کا سبب یہ ہوا کہ ایک مولوی الف دین تھے، جن کا علامہ بہت احترام کرتے تھے اور وہ صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ ان کی کچھ اولاد "قادیانی" ہو گئی تھی، اور عرفانی صاحب کے بارے میں بھی علامہ صاحب کو غلط فہمی ہوئی کہ یہ مولوی الف دین کے بچے ہیں ، اور لامحالہ یہ بھی "قادیانی" ہو چکے ہیں، جبکہ ایسا نہیں تھا. عرفانی محض مولوی الف دین کے بھتیجے تھے اور انہوں نے ان کو پالا ضرور تھا لیکن وہ اسلام پر قائم تھے۔ انہوں نے حقائق اقبال کے گوش گزار کیے تو علامہ نے ان کو کہا کہ آپ سیالکوٹ سے مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کا تصدیقی خط لے کر آؤ کہ آپ مسلمان ہیں. چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور یہ رشتہ طے پا گیا ۔ یوں عرفانی صاحب بالواسطہ علامہ کے داماد ہوئے اور یہ ہمارے ڈاکٹر وحید الزمان کے استاد بھی ہیں۔ انھی عرفانی صاحب کے نکاح نامے پر علامہ کے دستخط بھی ہیں، اور علامہ کے خاندان کی آخری بارات تھی جس کا استقبال کیا۔

مرزا بشیر الدین محمود نے شیخ عطاء محمد کے بارے میں یہ لکھا بھی ہے کہ ان کا جنازہ سنیوں نے پڑھایا تھا۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ خاندان میں کوئی ایک آدھ شخص گمراہ ہو جائے تو پورے خاندان پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اقبال کے خاندان پر سوالیہ نشان کی وجہ شیخ عطا کا بیٹا شیخ اعجاز بنا کہ جس نے اس گمراہ مذہب کو بطور دین اختیار کر لیا، اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس واقعے کو اس خاندان نے بطور "حادثہ" لیا تھا ۔ خاندان بھر میں صدمے کی کیفیت تھی۔ انھی شیخ اعجاز کے بھانجے یعنی کہ شیخ عطا محمد کے نواسے نظیر احمد صوفی بیان کرتے ہیں: " شیخ عطاء بازار میں کھڑے تھے کہ کسی نے اخبار ان کے ہاتھ میں تھما دیا ، جس میں شیخ اعجاز کے ارتداد کی خبر تھی، اور مرزا بشیر کا بیان کہ جس میں انہوں نے علامہ اقبال کو مشورہ دیا تھا کہ: "اپنے بھتیجے کی پاکیزہ جوانی سے سبق حاصل کرنا چاہیے."

شیخ عطا کا رد عمل انتہائی شدید تھا ۔ نظیر احمد کہتے ہیں کہ: "انھوں نے مرزا غلام احمد ، مرزا بشیر الدین اپنے بڑے بیٹے اور قادیانی جماعت کی شان میں خوب خوب زہر افشانی فرمائی اور اپنے بڑے صاحبزادے شیخ اعجاز کو ناخلف کہا ، اس وقت ان کا چہرہ شدت جذبات اور غم کے زیر اثر بالکل زرد پڑ گیا تھا." اب بتائیے اگر ایک شخص خود قادیانی ہے تو اس کو اپنے بیٹے کے "قادیانیت" قبول کرنے کی خوشی ہوگی، یا اس کا غم سے چہرہ زرد پڑ جائے گا ؟

شیخ عطاء کے انھی نواسے کی اہلیہ اپنی پھوپھی زینب کے حوالے سے روایت کرتی ہیں ..یعنی بقول پھوپھی : " اعجاز کے قادیانی مذہب اختیار کرنے سے دونوں بھائی صاحبان یعنی شیخ عطاء(اعجاز کے والد) اور علامہ اقبال کو ناقابلِ برداشت صدمہ ہوا تھا ، خاص طور پر اقبال بھائی نے تو اس کو دل پر لگا لیا ۔ میرے خیال میں ان کی بیماری میں بھی اس کی وجہ سے خاصہ اضافہ ہوا ، میں سمجھتی ہوں کہ سردار بھابی (اہلیہ اقبال ) کی وفات کے بعد اعجاز کا یہ فعل ان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف کا باعث بنا تھا ، میرے سامنے انھوں نے کئی بار اس پر دکھ اور رنج کا اظہار کیا. " اس حوالے سے ایک بار علامہ اقبال نے اپنے بڑے بھائی شیخ عطاء کو خط لکھا اور بقول انھی خاتون کے ،علامہ نے لکھا : "اس سلسلے میں ہم دونوں ہی جواب دہ ہوں گے کہ یقیناً ہم سے ہی اعجاز کی تربیت میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے کہ اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ اب ہم سب کے لیے روز حساب باعث ندامت ثابت ہوگا." یہی اقبال خاندان کی خاتون ، زینب بیان کرتی ہیں کہ : " ایک روز میں نے دونوں بھائی صاحبان کو دیکھا کہ اقبال منزل میں شیخ عطاء کے کمرے میں بیٹھے زار و قطار روتے چلے جا رہے ہیں. جب قریب جا کر بیٹھی تو پتہ چلا اعجاز احمد کا "قادیانی" ہونا زیر بحث تھا . ایک بات ہمیشہ سے خاص طور پر دیکھی کہ جب (پاس سے بھی)رسول مقبول کا نام نامی کسی کی زبان پر آ جاتا تو ان کی حالت غیر ہو جاتی ۔ اعجاز کے مرتد ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں سے ساون باندھوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی."

احباب یہ تھا اقبال کے خاندان کا قادیانیت کے حوالے سے مختصر سا تذکرہ۔ اب خود اقبال کے حوالے سے ایسی غلط فہمی کیوں پیدا ہوئی؟ اور خود اقبال کے نظریات کیا تھے؟ اس حوالے سے مضمون کے دوسرے حصے میں بات کرتے ہیں. ان شاءاللہ تعالی