ہوم << فلسطین کا مقدمہ لڑنا کیوں ضروری ہے- عزیر احمد

فلسطین کا مقدمہ لڑنا کیوں ضروری ہے- عزیر احمد

میں عالمی مسائل خصوصا فلسطین کے قضیے پر قلم نہیں اٹھانا چاہتا ہوں، اس کی دو بنیادی وجہیں ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ یہ مسئلہ اب ہمارے یہاں مکمل منہجی اور اعتقادی رخ اختیار کر چکا ہے جس کی مخالفت کرنے پر اپنے ہی ہم مسلک افراد کے ہاتھوں ٹرولنگ کا شکار ہونا، اور دوسرا یہ کہ خود ہندوستان کے مسائل کم ہیں کیا کہ عربوں کے مسائل کو ڈسکس کیا جائے، لیکن دقت یہ ہے کہ لوگ اس قدر پروپیگنڈہ کرنے لگتے ہیں، بصیرت اور بصارت کے نام پر ایسی ایسی چیزیں شئیر کرنے لگتے ہیں کہ قلم خود بخود چلنے لگتا ہے، دسیوں ایسے مضامین ہوتے ہیں جنہیں میں لکھ کر تلف کردیتا ہوں، کہ کیوں خواہ مخواہ پرائے پھڈے میں ہاتھ ڈالنا، بہت مشکل سے کوئی ایک مضمون ہوتا ہے جسے میں شئیر کرتا ہوں۔

فلسطین کے تعلق سے مشرق وسطی میں جو لہر ہے اس سے ہم مطمئن نہیں ہیں، بھلے ہی حکومتی سطح پر یہ کہا جائے کہ جب تک دو اسٹیٹ کا حل نہیں نکالا جائے گا، اسرائیل اپنی 1967 کی بنیادوں پر واپس نہیں چلا جائے گا، تعلقات نہیں قائم ہوں گے، لیکن سب کو پتہ ہے کہ یہ سیاسی بیانیہ ہے جسے کسی بھی وقت بدلا جا سکتا ہے، اور ایسا میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ "معاہدہ ابراہیمی" کے بعد خلیجی ممالک میں ایک پوری نسل تیار ہوچکی ہے جو اب کھلے بندوں اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہے، اس کے سیلف ڈیفیس کے حق کو اس کا "فطری حق" باور کراتی ہے. ان میں سر فہرست ضحاک تنویر (جو کہ فی الحال جاسوسی کے جرم میں سعودیہ میں قید ہے)، حسن سجوانی، امجد طہ، لوئی الشریف، مشعل النامی، محمد سعود جیسے تقریبا سینکڑوں نام ہیں جو اسرائیل کے "بائبلکل رائٹس" کی ترویج و اشاعت کر رہے ہیں، اور انہیں غزہ میں "نسلی تطہیر" کا بالکل بھی ذمہ دار نہیں قرار دیتے ہیں. انہیں کسی قسم کا ڈر بھی نہیں ہے کہ کہیں اس سے کسی منہج کی دل آزاری نہ ہوجائے، کہیں کچھ آبگینوں کو ٹھیس نہ پہنچ جائے. یہ لوگ نہ صرف انفرادی طور پر پاورفل ہوچکے ہیں بلکہ انہیں اپنا بیانیہ پھیلانے کے لیے ریجنل طاقتوں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کا بھی ساتھ ملا ہوا ہے. جن ملکوں میں لوگ ٹویٹ کرنے پر گرفتار ہوجاتے ہیں، انھی ملکوں میں ان کے ناک کے نیچے "صہیونیت زدہ" ہونے کا ٹرینڈ چل رہا ہے اور انہیں بھنک تک نہیں لگ رہی ہے؟ 2019 میں فارن پالیسی نے باقاعدہ ایک اسٹوری کی تھی کہ کس طرح کچھ عرب مملکتیں اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے کاؤنٹر ٹیررزم کے نام پر گلوبل اسلاموفوبیا کے پھیلاؤ میں اپنا یوگدان دے رہی ہیں۔

پھر اس کے بعد ٹرمپ جب کہتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب سعودیہ بھی ابراہیمی معاہدہ پر سائن کرے گا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا، تو یہ منظر وچلت کردیتا ہے، انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے، کہ ان ملکوں میں اسلام کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یورپ اور دبئی کی طرح ہر جگہ اسلام یعنی مذہب کو انفرادی معاملہ بنا دیا جائے گا، نیکوکار لوگوں کے لیے مسجدیں ہوں گی اور بدکاروں کے لیے ساحل سمندر کھلے ہوں گے؟ کیا معاشرے میں اسلام کا رول صرف اتنا ہی باقی بچے گا کہ وہ حکومتوں کی شرعیت کے دلائل میں کام آئے؟

امجد طہ کے آپ ٹویٹس پڑھیں، آپ سوچ میں پڑ جائیں گے کہ کیا یہ کسی عرب ملک کا مسلم شہری ہے یا کسی مغربی ملک میں کسی فار رائٹ تنظیم کا سرغنہ، یہی حال سارے لوگوں کا ہے، ایسے لگتا ہے کہ جیسے ان کا بس نہیں چل رہا ورنہ نیتن یاہو کو اپنا امیر تک بنانے سے باز نہ آئیں۔ عربوں کے افکار، ان کے نظریات، ان کا رہن سہن، ان کا پہناوا پوری دنیا کے مسلمانوں پر اثر ڈالتا ہے، سوچیے ذرا اگر وہی لوگ بدل گئے تو باقی دنیا کے مسلمانوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا، یوگا، موسیقی، ناچ گانا، ڈانس، یہ سب آفیشیلی سلیبس میں شامل کیا جارہا ہے، تو سب کچھ جب حکومتی سرپرستی میں ہوگا تو کون اسلام کا نام لے کر مخالفت کرنے کی جرأت کر پائے گا؟

آپ یقین کریں بہت سارے مسائل میں ہندوستانی سنگھی عربوں کے انفتاح کی تعریف کرتے ہیں، جیسے ابھی حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم نے کویت کا دورہ کیا تھا، وہاں کے شیخہ نے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی، شیخہ جس ڈریس میں تھیں اسے ہم کیزول ڈریس سے تعبیر کر سکتے ہیں، بغیر کسی اسلامی شناخت کے، تو یہاں کے ٹرولز نے اسے وائرل کرکے لکھا کہ جن لوگوں نے براہ راست اسلام کو سیکھا ان کا لباس دیکھیں، اور ہندوستانی کنورٹیڈ مسلمانوں کا لباس موازنہ کریں، ساتھ میں ایک ہندوستانی نقاب پوش عورت کی تصویر لگائی، پوچھا کہ کیا یہ لوگ اسلام کو عربوں سے زیادہ سمجھتے ہیں؟ اب بتائیے ہم لوگ یہاں اپنے وجود کا مقدمہ، اپنی شناخت کا مقدمہ کس منہ سے لڑیں؟

ماحول سازگار نہیں ہے اس سے مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اس ماحول کو بتانے بھی جائیں تو ہوی پرست، تحریکی اور پتہ نہیں کیا کیا گھوشت ہوجاتے ہیں، اور پھر لوگ اس طرح سے پیچھے پڑتے ہیں کہ گویا جب تک ہمیں اپنے خیالات سے رجوع نہیں کرا لے جائیں گے تب تک ان کا کھانا ہضم نہیں ہوگا۔
کبھی بیٹھیے، سوچیے، سر پر ہاتھ رکھ کر غور کیجیے کہ ہمارا انبیائی مشن کیا ہے، اور ہم کن چیزوں کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں. اسلام دنیا کو دھوکے کی چیز قرار دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ دنیا سے بے رغبتی کو بھی درست قرار نہیں دیتا ہے، تو ہم اعتدال کہاں باقی رکھ پارہے ہیں؟ ہمیں تو بس دنیا ہی دنیا دکھائی دے رہی ہے. مغرب سے ہمیں ترقی سیکھنی تھی سائنسی علوم میں، ایجادات میں، فیکٹریاں قائم کرنے میں، صنعت و حرفت کا انقلاب برپا کرنے میں، صارف بننے کے بجائے پروڈیوسر بننے میں، تعلیم میں، ریسرچ میں، لیکن ہم لوگ معکوس ترقی کرنے میں لگے پڑے ہیں، حالانکہ ہم بھول چکے ہیں کہ شاخ نازک پر جو آشیانہ بنے گا وہ ناپائیدار ہوگا. جس طرح آج دبئی ہے، کسی زمانے میں اسی طرح دوسرے شہر ہوا کرتے تھے، انسانی نفسیات میں تلون مزاجی ہے، کل دبئی چھوڑ کر اگر ریاض ہو بھی جائے تو کیا گارنٹی ہے کہ لانگ ٹرم میں مفید ہوگا، پرسوں کوئی اور ملک بھی تو اسی آئیڈیا کو کاپی کرکے زائرین کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔

آپ ہندوستان کو دیکھیے، 1947 میں آزاد ہوا، آج وہ کہاں کھڑا ہے. کیا جس طرح مغربی ممالک عرب ممالک کو آنکھ دکھا لے جاتے ہیں، وہ ہندوستان کو بھی اسی طرح دکھا سکتے ہیں؟ آج ہندوستان دنیا کی بڑی سے بڑی کمپنیوں کو سی ای اوز سپلائی کرتا ہے، آئی ٹی کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر کھڑا کردیا ہے، سینکڑوں ہزاروں اسٹارٹ اپ شروع ہوچکے ہیں، اس کی پر کیپٹا انکم بڑھ چکی ہے، جی ڈی پی میں اضافہ ہوچکا ہے، تعلیم کے لیے اس کے پاس شاندار یونیورسٹیاں ہیں جو عالمی اداروں کا مقابلہ کرتی ہیں، اس کے ڈاکٹرز پوری دنیا میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، اور ان سب سے بڑھ کر ایک نیو کلئیر پاور بن چکا ہے، ان کا نظام بے تحاشا مضبوط ہے، حالانکہ اس مقابلے کا مطلب یہ دکھانا نہیں ہے کہ ہندوستان میں سب کچھ اچھا ہے، بلکہ یہ بتلانا ہے کہ انھوں نے آزادی کے بعد سے خود کو "آتم نربھر" بنانے کی کوشش کی، آج وہ بہت حد تک کامیاب ہیں، اس کے بالمقابل مسلم اسٹیٹس تمام تر قدرتی ذخائر کا مالک ہونے کے باوجود کیا ان کے یہاں صنعتی انقلاب آ سکا؟

آج ہندوستان کی حکومت مذہبی ہو کر بھی مضبوطی سے کھڑی ہے، ملک کے وزراء اپنے ہر بیان میں ہندو ثقافت، ریتی رواج اور دھرم کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، اس کے ترجمان دن رات دھرم کا مقدمہ لڑتے ہیں، اپنے مذہب کی عظمت ثابت کرنے کے لیے تاریخ پھر سے لکھی جارہی ہے، اور ایک ہماری قوم ہے کہ اب مذہبی ہونے کو بوجھ سمجھنے لگی ہے، اور اسے جذباتی بیانیہ باور کرانے لگی ہے۔

باتیں تلخ ہیں، بتانے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں ہر محاذ پر قوم کا مقدمہ لڑنا ہے، اور قوم کو فکری یلغار سے بچانا ہے، پھر چاہے وہ ابراہیمی معاہدہ جیسی واہیات ایگریمنٹ ہو، اور صیہونیت زدہ ہوتے ہوئے لوگ ہوں، یا پھر ہندوستان میں ثقافتی طور پر خود کو ہندو باور کرانے والے مسلمان، ہمیں دونوں محاذوں پر خطرہ ہے، اور ان دونوں محاذوں پر لڑنے کی وجہ سے ہمیں جو بھی لقب دیا جائے قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے!