ہوم << جھوٹ سے بہتری، سچ سے فساد؟ وقاربھٹی

جھوٹ سے بہتری، سچ سے فساد؟ وقاربھٹی

پاکستان شاید ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں اجتماعی معاملات میں بہتری کے لیے جھوٹ کو لازم سمجھا جاتا ہے، جبکہ سچ بولنا فساد کی جڑ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سوچ صرف عام افراد تک محدود نہیں بلکہ کئی نامور مصلحین، جن میں مبلغین، طبیب، سرمایہ دار، اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، بھی اسی طرزِ عمل کے قائل نظر آتے ہیں۔ یہی لوگ اپنی محافل اور تقاریر میں سچائی، دیانت داری اور اخلاقیات کا درس دیتے ہیں، مگر جب اپنے شعبے، مفادات، یا ادارے کا معاملہ آتا ہے تو وہی سچ، جس کا پرچار وہ دوسروں کے لیے کرتے ہیں، ان کے لیے ناقابلِ قبول بن جاتا ہے۔

جھوٹ کے سہارے نظام چلانے کی کوشش
چند روز قبل ایک اہم ریگولیٹری ادارے کی میٹنگ تھی، جس میں کئی صحافی بھی مدعو تھے۔ موضوعِ بحث صحت کے شعبے میں ہونے والی وہ بے ضابطگیاں تھیں جن کا تعلق ڈاکٹروں کے فارماسیوٹیکل کمپنیوں اور ڈائیگنوسٹک لیبارٹریوں کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات سے تھا—یہی وہ گٹھ جوڑ ہے جو مریضوں کو مالی اور ذہنی اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔
میٹنگ میں کسی بات کو چھپایا نہیں گیا، سب کچھ کھل کر زیرِ بحث آیا، لیکن جب اس حوالے سے پریس ریلیز جاری ہوئی تو اس کا مفہوم کچھ یوں تھا:
"آپ بہت اچھے ہیں اور اچھا کام کر رہے ہیں"
جس کے جواب میں شریک افراد نے بھی کہا:
"آپ بھی بہت اچھے ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں"
یعنی اصل معاملات کو نظر انداز کرکے محض خوشنما الفاظ میں ایک رسمی بیان جاری کردیا گیا۔
جب میں نے متعلقہ حکام سے استفسار کیا کہ میٹنگ میں تو غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں پر کھل کر بات ہوئی تھی، تو مجھے سختی سے کہا گیا کہ وہ سب کچھ رپورٹ نہ کروں۔ یعنی صحافی کو "حکم نما مشورہ" دے دیا گیا کہ وہ سچ لکھنے سے گریز کریں۔

سچ بولنے کی قیمت
اکثر صحافی پریس ریلیز فائل کر کے بری الزمہ ہو جاتے ہیں لیکن میں نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو وہاں زیرِ بحث آیا تھا، کیونکہ صحافی کا کام حقیقت کو عوام کے سامنے لانا ہے، نہ کہ اداروں کی خوشنودی حاصل کرنا۔ اس کا نتیجہ؟ اب وہی لوگ جنہیں میں نے آئینہ دکھایا، مجھ سے خفا بیٹھے ہیں، جیسے میں نے کوئی گناہ کردیا ہو۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب تک جھوٹ بولا جاتا رہے، سب خوش رہتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی سچ لکھ دے، اس پر تنقید، مخالفت اور حتیٰ کہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

معاشرتی منافقت اور اس کے نتائج
یہ منافقت صرف ایک ادارے یا شعبے تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے پورے سماجی ڈھانچے میں سرایت کر چکی ہے۔ سیاست، معیشت، مذہب، تعلیم، صحت—ہر جگہ جھوٹ کو "چالاکی" اور "مصلحت" کا نام دے کر اپنایا جا رہا ہے، اور سچ بولنے والے کو "فساد" کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی قوم یا معاشرے کی ترقی جھوٹ کے سہارے ممکن ہے؟ کیا کسی بھی نظام کو مصنوعی بیانات، خوشنما دعووں، اور حقیقت سے نظریں چرانے سے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ یا پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اصل بہتری صرف اور صرف سچائی کو قبول کرنے اور اس کی روشنی میں اصلاحی اقدامات کرنے میں ہے؟ جواب شاید سب کو معلوم ہے، مگر بولنے کی ہمت کم لوگوں میں ہے۔