دو ہفتے قبل بیرون ملک مقیم اک سہیلی نے جناب حاشر بن رشاد کی میری کرسمس کہنے سے متعلق پوسٹ بھیجی۔ پڑھ لی مگر اس پر ردعمل دینے کی کوئی نیت نہ تھی۔ بہت سے نقطہ ہاے نظر آتے ہی رہتے ہیں۔ مگر آج یونیورسٹی میں دو معزز ساتھی اساتذہ کو ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے سنا تو تحریک ہوئی کہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کے نتیجے میں کچھ باتیں عرض کر دی جائیں۔ مثبت مکالمہ کی ترویج ہونی چاہیے۔
ہر مرتبہ 25 دسمبر کے آس پاس کرسمس منانے ، نہ منانے ، مسلمانوں کی جانب سے عیسائیوں کو مبارکباد دینے اور ان کی تقریبات میں شرکت کے جواز اور عدم جواز کی بحث چھیڑنا معمول کی بات ہے. جس میں ایک طرف سے مذہبی رواداری کی تبلیغ اور دوسری طرف سے کفر کے فتووں کے سوا کوئی نئی بات سامنے نہیں آتی۔ ہلکی پھلکی چاند ماری سے شروع ہو کے دو طرفہ شیلنگ تک کچھ عرصہ سوشل میڈیا میں گرما گرمی بپا رہتی ہے۔ البتہ کچھ باتیں جنہیں دانستہ نادانستہ ٹیپ کے مصرع کے طور پر دہرایا جاتا ہے، ان میں سر فہرست یہ ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے جہنم ہے جس کی ذمہ داری ضیاء الحق سے لے کر کے ہر اس شخص پر عاید ہوتی ہے جو اپنی مسلمان دینی شناخت کو اہم جانتا ہے۔ عموما جو دلائل دیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ
1- پاکستان میں مسیحی انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں وہ معاشی اور سماجی طور پر معاشرے کا پسماندہ طبقہ ہیں ۔
2- اس کا سبب مسلمان اکثریت کا اپنے مذہب پر عمل کرنے پر اصرار ہے ۔
3- اس لیے مسیحیوں کی دلجوئی ہونی چاہیے اور "میری کرسمس" کہنا چاہیے۔
سماجی مطالعوں کا پہلا اصول ہے کہ یہاں لیبارٹریوں والی سائنس روبہ عمل نہیں ہوتی۔ جب ہیومن سبجکٹ کی سٹڈی ہوتی ہے تو وہ پیچیدہ اور مختلف پہلوؤں پر مبنی ہوتی ہے۔ اس میں ہمیشہ دو جمع دو چار نہیں ہوتے۔ بہت سے معاملات کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اور کسی ایک کی قیمت پر دوسرے کی نفی نہیں ہوتی۔ hasty generalization سے پاپولر صحافت بکتی ہے۔ جبکہ علمی دنیا میں اس کی کوئی قیمت ہوتی ہے نہ معاشرے کے سدھار میں اس کا کوئی فایدہ۔ سنجیدہ پالیسیاں یوں نہیں بنا کرتیں۔ اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ اقلیتوں کی دلجوئی ہونی چاہیے۔ اور اکثریت کو آگے بڑھ کے ان کو احساس دلانا چاہیے کہ وہ ہمارے لیے برابر ، محترم، معزز شہری ہیں۔
لیکن اس بات سے قطعی اتفاق نہیں ہے کہ ان پر ترس کھا کے انہیں یہ احساس دلایا جاے کہ لو بھئی تم ہمارا گند صاف کرتے ہو یہ رہی بخشیش ، "میری کرسمس" ۔ ( حاشر صاحب کی تحریر کے ابتدائی پیراگراف کچھ ایسا ہی تاثر پیش کر رہے ہیں ) ۔ کرسمس کی مبارکباد پر ہمارا موقف واضح ہے۔ جس کسی کے اردگرد کوئی مسیحی موجود ہی نہ ہو اس کو کیوں پابند کیا جاے کہ وہ مذہبی فریضے کے طور پر کرسمس کی مبارکباد جاری کرے ؟ پاکستان میں مذہبی جبر پر آنسو بہانے والے ذرا دل کو ٹٹولیں۔ کہیں ان کی میری کرسمس کہنے کے ساتھ دوسروں کو اس کی تبلیغ کرنے کے پیچھے ، دنیا بھر میں چھایے ہوے کارپوریٹ کلچر پر ایمان تو نہیں ہے جسے مذہب اور جناب یسوع مسیح سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ کلچرل فیسٹیول کے فروغ کے ذریعے اپنی منڈی کو چڑھانا ہے۔
اسی طرح ہم اس موقف کو بھی غلط سمجھتے ہیں جسے قرآن مجید میں تالیف قلب ، موعظہ حسنہ، کلمہ سواء اور دعوتی حکمت کی آیات نظر نہیں آتیں اور ہمسایے ، ہم کار ، یا اپنے ارد گرد موجود مسیحیوں کو عید مبارک کہتے ہی ان کا ایمان بھرشٹ ہو جاتا ہے۔ وہ فقہ اسلامی کے ان ابواب سے صرف نظر کرتے ہیں جہاں ذمیوں کے حقوق ، اور الولا و البرا کے اصول بتاتے ہوے بر سر پیکار دشمن ، معاھد اور اسلامی سلطنت کی غیر مسلم رعایا کے ساتھ الگ الگ معاملے کی مفصل ہدایات درج ہیں۔
اس طویل مسلم تاریخی روایت سے شاید وہ واقف نہیں ہیں جہاں ایشیا ، افریقہ اور یورپ میں مسلمان معاشروں میں غیر مسلم ان کے ساتھ دیگر معاصر دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر حالات میں رہا کرتے تھے۔ اس معاملے میں ہمارا اپنا عمل درمیان میں ہے۔ جب ہمارے دروازے پر آواز لگائی جاتی ہے، ہم میری کرسمس کہے بغیر ، عیدی ان کے حوالے کرتے ہیں۔ ہم دسمبر کے شروع سے لے کے نئے سال کے آغاز تک ان کے ساتھ عید کی تیاری اور اس کے مختلف مراحل میں شریک ہوتے ہیں لیکن چرچ جا کے کیرل نہیں گاتے۔
جب وہ ہمیں اپنی تقریب میں خطبہ کے لیے سٹیج دیتے ہیں تو ہم سورہ مریم سناتے ہیں ۔ اپنے اور ان کے درمیان موجود مسیح ابن مریم کی مشترکہ محبت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ہم انہیں تحفے بھی پیش کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اب اس کے بعد دیگر دو مقدمات یعنی مسیحیوں کی سماجی و معاشی حیثیت، پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال اور وجوہات پر کچھ معروضات پیش ہیں :
1- پاکستان بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایک متنوع آبادی اور ثقافت رکھنے والا ملک ہے۔ مردم شماری کی کئی ایجنسیاں ہیں جن میں پاکستان میں مذہبی اعتبار سے آبادی کی کل تعداد کا جزوی اختلاف موجود ہے۔ پاکستان میں 96.35 فیصد مسلمان ہیں۔ جن میں سنی مسلک 85 سے 90 فیصد کا ہے۔ شیعہ ابادی 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہے۔ دیگر بڑے مذاہب میں ہندو مت اور مسیحیت ہیں جو کبھی ایک دوسرے کے برابر شمار ہوتے ہیں اور کسی سروے میں مختلف تناسب ظاہر ہوتا ہے ۔
تازہ شماریات کے مطابق ہندو آبادی 2.2 % ،مسیحی 1.4% اور دیگر مذاہب ( سکھ ، پارسی ، بدھ ، کیلاش ، پہاڑوں میں رہنے والے ، بڑے مذاہب کے غیر تسلیم شدہ شاخیں / فرقے وغیرہ) صفر اعشاریہ ایک فیصد ہیں۔ مذاہب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی کل آبادی شمار کرنے میں کیا مسائل ہیں۔ ایک مثال : پاکستانی ہندوؤں کی تعداد برطانوی دور سے ہندو جاتی اور شیڈولڈ کاسٹ کے طور پر گنی جاتی ہے۔
جبکہ اس تقسیم میں خود ہندو مذہب میں شدید بے اطمینانی اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں موجود ایک بڑی تعداد جن کو ہندو گنا جاتا ہے وہ خود کو ہندو کہلانے کی بجاے اپنی برادری یا اپنے قدیم اصل نام سے پہچانا جانا پسند کرتے ہیں۔ جس کا فی الحال ہمارے نیشنل ڈیٹابیس یا بین الاقوامی ایجنسیوں کی شماریات میں لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔
2- کسی کو پسند ہو یا نہ ہو ، اسلامی جمہوریہ پاکستان اب ایک ستتر سالہ حقیقت ہے۔ جس نے اپنی قومیت کی تشکیل کا ایک کٹھن اور اہم سفر کیا ہے۔ اس کی قومیت کے عناصر کو اس کا دستور اجاگر کرتا ہے جو کسی ایک شخص یا جماعت کی خواہشات کا مظہر نہیں ہے۔ بھانت بھانت کے دانشوروں کے تیار کردہ کاک ٹیل کے علی الرغم اس دستور پر پاکستان کی اکثریتی آبادی بشمول مذہبی اقلیتیں اتفاق موجود ہے۔
اس دستور میں مسلمان کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ اور اقلیتی شناخت بھی موجود ہے۔ رہنما اصولوں میں ریاست کو جن حقوق و فرائض کی انجام دہی کا پابند کیا گیا ہے وہ مذہبی لحاظ سے متوازن اور روشن خیال تصور پر مبنی ہیں۔
3- جدید ریاستی بندوبست میں جمہوریت کا مطلب اکثریت کی راے کے مطابق فیصلہ سازی ہے۔ جہاں اقلیت کے بنیادی حقوق کا تحفظ دستور اور قانون کے ساتھ ساتھ سماجی اقدار اور قوم کی اخلاقیات کرتی ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے مسائل پوری دنیا میں پاے جاتے ہیں۔ ایک ملک میں موجود اقلیت کسی دوسرے ملک میں اکثریت ہے۔ ایک جگہ کا مظلوم کسی دوسرے خطے میں غاصب ہے۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ مظلومیت اور جبر کے خود ساختہ معیارات کی بجاے ہر ملک کے حالات اور وہاں موجود دستوری و قانونی گارنٹی کے ساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد کی صورتحال جانچی جائے ؟
کیا جدید دنیا میں یہ مسلمہ طے کر دیا گیا ہے کہ امریکا ، برطانیہ ،چین ، روس یا سویڈن کا مذہبی آزادی کا تصور پاکستان میں نافذ ہوتا ہے ؟ اقوام متحدہ کے تحت ریاستوں کو بہت سے مشترک متصورات کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر UNDHR کی حیثیت محض ان سفارشات کی ہے جن کو کسی ملک میں روبہ عمل لانے کے لیے اس ملک ہی کی دستوریہ کو قانون سازی کرنی ہوتی ہے۔ پاکستان کے دستور میں کم وبیش وہ سب حقوق گارنٹی کیے گئے ہیں جو پاکستان کی جدا گانہ شناخت برقرار رکھنے کے اہتمام کے ساتھ اقلیتوں کے لیے مساوی مواقع کے طور پر موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے بندوبست کو دنیا میں چند مخصوص تصورات اور ریاستوں کی دادا گیری کے لیے جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے سردست میں اس کو زیر بحث نہیں لا رہی۔ ورنہ ایک رکن ریاست کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ کیا جا رہا ہے ، اس پر اقوام عالم کی ٹک ٹک دیدم کیفیت کے بعد کسی کو اختیار نہیں رہ جاتا کہ کسی دوسرے رکن ملک پر "مذہبی آزادی " اور "مذہبی جبر" کی بنا پر پابندیاں لگانے کی بات کرے۔
البتہ یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ بے سر و پا سروے گردش کرانے اور پاکستان کے بارے میں مذہبی جبر کی کہانیاں بنانے میں ایک بڑا کردار بذات خود اس استحصالی بندوبست کا ہے جو کبھی ایمنسٹی واچ ، کبھی رپورٹ براے مذہبی اقلیتیں ،کبھی ایف اے ٹی ایف ، بلیک لسٹ ، گرے سٹیٹس ، تجارتی پابندیاں وغیرہ جیسے جابرانہ اقدامات کے ذریعے سامنے آتا ہے۔
4- دستوری تحفظات کے باوجود موجودہ مذہبی قوانین کے بارے میں اختلاف راے اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان پر بات چیت اور ان میں ترمیم یا نئی قانون سازی کے لیے پارلیمان موجود ہے۔ مختلف بحثیں یقینا قانون سازی کا محرک بنتی ہیں یا اس میں مفید ہوتی ہیں۔ لیکن کیا مذہبی اقلیت کے ہر مسئلے کی جڑ پاکستانی اکثریت کا اپنے مذہب پر عمل کرنے کی خواہش ہے ؟ یہ ایک فضول اور preconceived متعصبانہ بات ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والا پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل سے حقیقی واقفیت نہیں رکھتا۔
مثلا پاکستانی ہندوؤں کا بڑ ا مطالبہ ہندو میرج ایکٹ کے لیے قانون سازی ہے ۔ جنہیں شیڈولڈ کاسٹ کہا جاتا ہے ان کو اپنی شناخت درکار ہے۔ جب وہ اپنی الگ پہچان کی یا اپنے ہی برہمنوں سے الگ اپنے لیے پارلیمان کی سیٹوں کی بات کرتے ہیں تو اس intra-religious جھگڑے کو اچکنے کے لیے بڑے بڑے فنڈ لیے عالمی ہمدرد چلے آتے ہیں۔ اور اسے مسلمانوں کے مذہبی جبر کی داستان بنا ڈالتے ہیں۔ اسی طرح تبدیلی مذہب کا مسئلہ۔ غیرمسلموں کو تبلیغ کی اجازت نہیں لیکن کیا مذہب بدلنے کی بھی اجازت نہیں ہے ؟
کیا دنیا بھر میں تبدیلی مذہب کو فرد کا ایک اختیار تسلیم نہیں کیا گیا ؟ مشہور کیا گیا کہ پاکستان میں ہر سال ہزار لڑکیاں مسلمان ہو رہی ہیں۔ جب پوچھیں وہ کون ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ تو کوئی جواب نہیں۔ پچھلے سولہ برسوں سے ایک ہی غلط رپورٹ من و عن ان عالمی جباروں کی دستاویزات میں کاپی پیسٹ ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کسی غیر مسلم کا مسلمان ہونا زیادہ مشکل ہے بنسبت عیسائی ، قادیانی یا ہندو ہونے کے ۔
پولیس ، عدالت ، مولوی سمیت عام پاکستانی شہری اس عالمی جبر سے خوف محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھائے یا اس کے قبول اسلام کے ارادے کے بعد اسے کسی قسم کی سپورٹ دے۔ جو گنے چنے معاشی و سماجی طور پر مضبوط مسلمان اس تحفظ کا بیڑا اٹھاتے ہیں ، وہ اس وقت دنیا بھر میں مطعون ہیں۔
ہم مسائل کا انکار نہیں کرتے لیکن ہم ان کے حل کی سنجیدہ کوشش چاہتے ہیں۔ مثلاََ اس تبدیلی مذہب کے مسئلے کا تعلق پسند کی شادی سے ہے اور اس بارے میں ہندو اور عیسائی میرج کا قانون واضح نہیں ہے۔ ( کس عمر کی شادی قانونی مانی جاے گی ؟ اور اگر شادی قانونی ہے تو لڑکی / لڑکے کا اپنی رضا و رغبت سے یہ کہنا کہ وہ مسلمان ہے کیوں نہیں مانا جاے گا ؟ جبکہ تبدیلی مذہب اسلام سے زیادہ نیچ ذات کے ہندوؤں سے عیسائیت کی طرف ہو رہا ہے ۔ ایک فرقے سے دوسرے فرقے میں ہو رہا ہے۔ یہ کس کا جبر ہے ؟ میرج ایکٹ اور شادی کی عمر کے لیے قانون سازی کی کوششوں میں مذہبی و غیر مذہبی ہر جماعت کی تائید اقلیتوں کو حاصل ہے اگر ان کے اپنے نمائندے کسی ایک قانون پر متفق ہو جائیں )۔
ایک اور بڑا مسئلہ توہین مذہب کے قوانین ہیں۔ معاشرے میں امن قائم رکھنے اور فساد روکنے کے لیے ان قوانین کی موجودگی کو ہم ضروری جانتے ہیں۔ لیکن ان میں موجود مسائل کی اصلاح اور قانون میں ترمیم اضافے کی ضرورت بھی تسلیم کرتے ہیں جسے دستوری طریقے سے پارلیمان کے ذریعے منظور کیا جاے۔ یہاں شاید یہ غیر متعلق نہ ہو کہ پاکستانی مسیحی بھی اتنے ہی مذہبی ہیں جتنے مسلمان۔ ضیاء الحق صاحب کی مہربانی کہیے یا پاکستان کی مذہبی شناخت کی برکت۔ انہیں اپنے لیے انبیا و فرشتے و مقدس ہستیوں کی توہین کے قانون میں توہین مسیح پر سزا کا الگ قانون چاہیے۔
کیونکہ ان کے مطابق قادیانیوں کی جانب سے مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود قرار دینا ان کے مذہبی حق میں مداخلت ہے اور موجب توہین مسیح ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر بیٹھ کے چار حرف لکھ کے سمجھیں کہ یوں پاکستانی اقلیتوں کی دادرسی ہوگی تو بھیا ! اقلیتیں بھی سیکولر نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مدارس دینیہ کی اصلاحات اور گرانٹس میں اسلامی مدرسے ہی کیوں ؟ ان کی سیمنریز میں دی جانے والی تعلیم اور سند کو بھی وزارت تعلیم کی ریکگنیشن اور ریگولیشن چاہیے۔
5- قانون سازی کے ساتھ برابر کا اہم معاملہ قانون پر عمل کی صورتحال اور ہمارے معاشرتی رویوں اور اخلاقیات کا ہے۔ اس میدان میں بحیثیت قوم ہماری کمزوری اصلاح کی محتاج ہے۔ قانون کا نفاذ ، اس پر عمل درامد ، لا اینڈ آرڈر سے وابستہ ہمارے ادارے ، ان کی قوت نافذہ سب کے مسائل موجود ہیں۔ ہماری اخلاقی تربیت اور ہمیں شہری ذمہ داری سکھانے کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے۔ سچائی ، انصاف ، امانت ، دیانت ، مساوات ، صبر ، برداشت ، رواداری۔ تحفظ اور انصاف کی فراہمی یکساں ہے ؟
نہیں۔ اس میں کیا اقلیت ، کیا اکثریت سب برابر ہیں۔ بہت سے مسائل اور خرابیوں کی اصل وجہ یہی ہے۔ مثلا مسیحی گھروں میں آگ لگانے کا واقعہ ، پارا چنار کے فسادات ، توہین کے نام پر استادوں کا قتل ، کہاں زمینوں کے جھگڑے ہیں، کہاں جائداد ہتھیانے کا قصہ ہے ، کہاں پروموشن کے خلاف حسد اور دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے مذہب کی آڑ ہے ۔۔ یہ سب باتیں شفاف اور غیر جانبدار تحقیق میں سامنے آتی ہیں۔ میڈیا کا منفی کردار بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جڑانوالہ میں اگر ایک مذہبی جتھے نے مسیحیوں کے گھر ، عبادت گاہ اور کاروبار تباہ کیے تو اسی مذہب کے پیرو کاروں نے ان کو اپنے گھر وں میں پناہ دی۔ اپنے کمیونٹی ہالز ان کی عبادت کے واسطے کھولے۔ ان کی دلجوئی اور دادرسی کی کوشش کی۔
یہ دونوں پہلو برابر ہائی لائٹ کیوں نہیں ہوئے ؟ اگر نیوزی لینڈ میں مسجد میں قتل عام کو ریاست کے خلاف استعمال نہیں کیا جاتا تو ایسے سانحات کو پوری پاکستانی قوم اور ریاست کی طرف کیوں منسوب کیا جاتا ہے ؟ پوری دنیا میں سیکولر اور نیم سیکولر ریاستوں میں مذہبی شدت پسندی کے واقعات ہوتے ہیں۔ کیا اسے ریاست کا جرم سمجھا جاتا ہے ، پورے معاشرے کا یا چند مجرم ذہنیت افراد کا ؟ اس دو عملی کے ساتھ ہمارے لیے اقلیتوں کے ہمدردوں کا اخلاص تسلیم کرنا مشکل ہے۔
6- اب رہی بات پاکستانی مسیحیوں کی۔ کیا آپ برصغیر کی تاریخ سے واقف ہیں ؟ معلوم ہونا چاہیے کہ برصغیر میں مسیحیت کی قدیم زمانے سے موجودگی کے دعووں کے باوجود موجودہ مسیحی آبادی نوآبادیاتی دور میں ہونے والی تبلیغی کوششوں کے نتیجے میں مشرف بعیسائیت ہوئی ( وہی استعماری دور جسے کبھی کبھی ڈی کولونیل فیشن میں کوسا جاتا ہے اور وہی تبلیغی مساعی ،جنہیں پابند کیا جاے تو غصہ آتا ہے ) ۔ ہم یہاں ان فیکٹرز کی بات نہیں کرتے جو قبول مسیحیت کی وجہ بنے کیونکہ وہ کم وبیش ہر مذہب میں یکساں ہیں۔
لیکن ایک چیز کی طرف ضرور توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ برطانوی دور میں وسطی پنجاب میں ہونے والی mass conversion ایک خاص طبقے میں ہوئی تھی۔ جس کا تعلق برصغیر کے سماج کے پسماندہ اور اچھوت سمجھے جانے والے طبقے سے تھا۔ جن کا پیشہ سب سے کم تر سمجھا جاتا تھا۔ ان کا معاشرتی سٹیٹس اور معاشی حیثیت صدیوں سے پسماندہ تھی۔ ان کی برادری شودر اور ہریجن تھی۔ تبدیلی مذہب پر کئی تحقیقات کے مطالعے اور مقالہ جات کی نگرانی کے بعد میں یہ کہ سکتی ہوں کہ مذہب کا معاملہ بہت پرسنل ہونے کے ساتھ سوشل بھی ہے۔
کسی بھی مذہب کی تبدیلی میں بڑے فیکٹر صرف روحانی پیاس بجھانا اور اخروی نجات وغیرہ نہیں ہوتے۔ بلکہ غالب اور زورآور طبقے میں شمولیت اور ان فوائد کو حاصل کرنا ہوتا ہے جو اس طبقے کو اپنی سیاسی قوت ، معاشی حیثیت یا عددی اکثریت کی بنا پر حاصل ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں عیسائیت قبول کرنے کی یہ ایک بڑی وجہ تھی ( آج آپ اسے جبر فرماتے ہیں !! ) ۔ ہمارے برطانوی آقاؤں کا برابری و انصاف کا معاملہ بہت واضح تھا۔ انہوں نے بپتسمے کے بعد مذہبی طور پر سب مومنوں کے پروانہ نجات حاصل کرنے کے یکساں استحقاق کو ضرور تسلیم کیا۔
مگر باوجود اس کے اپنے گرجوں ، بستیوں ، سکولوں ، ذرائع معاش میں ہر طبقے کو اسی جگہ پر رکھا جہاں رکھنا استعماری اقتدار کی ضرورت تھی۔ ا۔ اعلی درجے کے عیسائی جو نجیب الذات نسلی گورے تھے۔ ب۔ درمیانہ درجہ والے دوغلی نسل کے اینگلو انڈین ۔ ج۔ نیچ درجے کے گہری رنگت والے دیسی نو مسیحی۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی انگریزی اقتدار سے فیض یافتہ شہر کے صدر ، مال روڈ ، کینٹونمنٹ کے سکولوں اور گرجوں کی زیارت کر لیں۔ وہاں موجود میڈیم آف کمیونیکیشن اور وے آف ٹریٹمنٹ کا مشاہدہ کر لیں۔
تقسیم ہند کے ساتھ ہی یہ تقسیم پاکستان کو ورثے میں ملی۔ پہلے درجے والے عیسائیوں کے ساتھ مسلمان اکثریت کا معاملہ فدویانہ اور مرعوبیت کا تھا۔ اب بھی ہے۔ گورے آقا تو چلے گئے مگر رویہ وہی ہے جس کی جانب طنزیہ اشارہ حاشر صاحب کی تحریر میں ہے۔ دوسرے درجے والے جو معدودے چند یہاں رہ گئے ان کے ساتھ برابری یا مفادات کا معاملہ ہے۔ جیسے دو تجارتی پارٹنر۔ ان کی جانب سے دہائیاں سننے میں نہیں آتیں۔ بلکہ وہ تعلیم ، تجارت ، سیاست میں نمایاں کردار رکھتے ہیں ۔ تیسرے والے جن کی تعداد زیادہ ہے، بیشتر مسائل کا تعلق ان کے ساتھ ہیں۔
کم آمدنی کے پیشے ، تعلیم کی کمی ، غربت ، نشہ ، مار پیٹ ، بد نظمی ، لیڈرشپ نہ ہونا، رہائش کی اچھی سہولتیں نہ ہونا، عورتوں کا استحصال ، جاگیردارانہ نظام کا طبقاتی استحصال، موثر نمائندگی کی کمی وغیرہ۔ ہمیں ان مسائل کا ادراک بھی ہے اور ان پر بات بھی کرتے ہیں۔ لیکن آپ بھی انصاف کیجئے اور کہیے کہ یہ مسائل اس لیے ہیں کہ وہ عیسائی ہیں ؟ یا اس لیے ہیں کہ ان کا تعلق ایک خاص سوشو اکنامک گروپ سے ہے ؟ اس پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان کیا ایسی ہی صورتحال سے دوچار نہیں ہوتے ؟ پھر یک رخے تجزیے دیکھ کے ہمیں یہی لگتا ہے کہ آپ کو مسیحیوں کی ہمدردی سے زیادہ مسلمانوں پر غصہ ہے ۔ خاطر جمع رکھیے ۔
ہم ان مسیحیوں کے ساتھ بہت قریبی رابطے میں کام کرتے ہیں جو ریاستی اور غیر ریاستی سطح پر اپنے ہم مذہبوں کی بحیثیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہونے ، تعلیم ، ترقی اور خوشحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ چلیے! اپنا اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے