ہوم << علامہ اقبال اور ملّتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ - محمد شفیق اعوان

علامہ اقبال اور ملّتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ - محمد شفیق اعوان

عصرِ حاضر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذکر عام ہے۔ یہاں تک کہ بعض ایسے حضرات نے بھی اس حوالے سے کام شروع کیا ہے، جو اسلامی نظریہ زندگی سے متعلق کم ہی معلومات رکھتے ہیں اور اسلام کے نظامِ حیات سے کم ہی دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ ان کے مقاصد زیادہ تر اسلام میں جدید خیالات کا پیوند لگا کر مسلمانوں کو کسی نام نہاد ترقی کی دوڑ میں لگانا ہے یا پھر دنیا کے سامنے اپنے مسلمان ہونے کا عذر پیش کرنا ہے۔ دوسر ی قسم کے حضرات وہ ہیں جو عصرحاضر کے مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، نیز ان سے آگاہ بھی کم ہی ہیں۔ بس پُرانی باتوں کو ایک ڈھنگ سے جمع کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن نئے زمانے میں ان کا مصرف اور موجودہ حالات پر ان کا انطباق دکھانے کی کوشش نہیں کرتے (پرانی باتوں کو اکٹھا کرنا ضروری ہے، نیز اس علمی سرمایہ کو جمع و تدوین ایسے انداز سے کیا جائے، جس میں موجودہ مسائل کا حل ہو)۔

علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں: ’’کوئی قوم بھی مکمل طور پر ماضی کو نظرانداز نہیں کر سکتی‘‘ (موضوعاتِ خطباتِ اقبال‘ صفحہ ۵)۔ ایک اور موقع پر فرمایا: ’ جب ہم اسلامی آئین کے چار مسلمہ سر چشموں اور اُن سے متعلق عملی بحثوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو فقہی مذاہب کے مفروضہ کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔‘‘ (موضوعاتِ خطباتِ اقبال‘ صفحہ ۵ )

ماضی قریب میں علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم و نثر کے ذریعے تجدید و احیائے دین کا کام کیا ہے اور دیگر علماء حضرات مثلاًعلامہ شبلی نعمانی ؒ، مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒؔ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ، مولانا نعیم صدیقی ؒنے بھی نظم و نثر میں اسلام کے نظریہ و نظام کی بہترین ترجمانی کی ہے۔علامہ نے اسلام کے نظامِ حیات کی وضاحت و ترجمانی کو اپنی دقیقہ سنجی اور نغمہ آفرینی سے دلوں کی دھڑکن بنا دیا، علامہ اقبال مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلاتے ہیں:

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ ِتوحیدسے

اقبال نے ہند و پاک کی حد تک اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام کیا، اس کے انقلابی پہلو کے بنیادی معمار ہیں ان کے کلام نے وہ فضا بنائی جس میں نئی نسلوں کی اسلام پسندی پروان چڑھی، اس فضا کو پھلانے اور بڑھانے کے لیے مستعد صالح ذہنوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اقبال کے کلام کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کے لیے، اس کا عام فہم اور آسان پیرایہ میں تفہیم و تشریع کی جائے۔ یہ کام وہ علم و فضل کے ماہرین کریں، جو قرآن حکیم، احادیث ِ نبویﷺ ، فقہ، اور تاریخ سے واقف ہوں، قول وعمل کے پکے اور سچّے مسلمان ہوں۔

اقبال نوجوان نسل کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے اور وہ چاہتے تھے کہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی کا انتظام ہو جائے تو یہ بڑے سے بڑا کام کر سکتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان میں اُن ہی جوانوں نے ہراول دستے کے طور پر کام کیا، جنہوں نے اقبال کے کلام کو پڑھا اور سُنا، اور اقبال کے قول کو سچا کر دکھایا۔ آج بھی ان کی رہنمائی کی جائے تو:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ مری ، نفس مرا شعلہ بار ہوگا

جو حضرات دین سے بےزار ہیں، غیروں کے ذہنی غلام ہیں، اسلام کے مقابل دیگر نظاموں پر یقین و اعتماد رکھتے ہیں، شب و روز ان کے گیت گاتے ہیں، چند مراعات کے عوض ملّت کو رہن رکھنے پر راضی ہیں، وہ اقبال کی کیسے ترجمانی کر سکتے ہیں؟ انھوں نے اقبال کا نام استعمال کیا، اقبال کی غلط ترجمانی کرکے لادینیت کو پروان چڑھایا، کلامِ اقبال کو سرنامہ بنا کر دینِ اسلام سے بیزار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ چند سکّوں کے عوض پوری ملّت کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، جیسے آزاد روشن خیال، چودھری غلام ا حمد پرویز اور ان جیسے لوگ، اقبا ل فرماتے ہیں۔ قرآن مجید ہی واحد زندہ کتاب ہے جس کی حکمت لازوال اور قدیم ہے ۔اس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے:

آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمتِ اُولا یزال است و قدیم

روشن خیال لوگ قرآن و سنت کے مطابق اپنے آپ کو نہیں ڈھالتے بلکہ مغرب سے جو کچھ ملتا ہے، اس کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے دانشوروں (مستشرقین و مستغربین) کے متعلق علامہ فرماتے ہیں:

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان ِحرم بے توفیق

۔۔۔

فتنۂ ملّتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے

۔۔۔

آزادیٔ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

۔۔۔

ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

علامہ ا قبال چاہتے تھے کہ ایسے افراد کو آگے آنا چاہیے جو موجودہ حالات و واقعات سے آگاہ ہوں، تازہ بہ تازہ موضوعات و مسائل پر اسلامی تعلیمات و معلومات کو بلا خوف و خطر اور بلا رو و رعایت پیش کریں۔ قدیم و جدید کو باہم مربوط کرکے اقدامی انداز سے بات کریں، سب سے بڑھ کر یہ قدیم علوم اور ان کی معلومات کے عظیم الشان خزانے کو جدید اسلوب سے دنیا کے سامنے لا کر دورِحاضر کی ذہنی کم مائیگی اور اس سے ہونے والی کم ظرفی کا علاج کریں تاکہ اکیسویں صدی کا علمی توازن درست ہو۔ جو کم نظر، مرعوب، کم علم مستشرقین و مستغربین کے غرور نفس، فریب کاریوں کے سبب درہم برہم ہو چکا ہے۔ اس کار عظیم کے لیے بہت ہی موزوں مستعد جوانوں کی جماعت ہو، جنھیں کلامِ اقبال میں موجود پیغامِ انقلاب سے آشنا کیا جائے۔ اقبال فرماتے ہیں

کیا عجب! مری نواہائے سحر گاہی سے
زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے

۔۔

عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنید و بسطامی

علامہ اقبال اس فکر کے حامی تھے کہ مقلدانہ طرزِفکر سے ہٹ کر اسلامی روایات سے پختگی کے وابستہ رہ کرنئے موضوعات و مسائل پر تحقیق کی جائے:

اے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی

درحقیقت اسلام کا نظامِ فکر تخلیقی ذہن پیدا کرتا ہے۔ جب تک بابِ اجتہاد بند نہیں ہوا تھا، مسلمان دنیا پرحکمران رہے اور علم و ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ آج بھی ترقی و کامرانی کا دارومدار علم و تحقیق سے وابستہ ہونے میں ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

جوانوں کو مری آہِ سحَر دے
پھر اِن شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے

اقبال پرانے چراغوں کو روشن رکھنے کے مخالف نہیں تھے۔ بلکہ ان کی خواہش تھی کہ پرانے چراغ روشن رکھنے کے ساتھ ساتھ نئے چراغ روشن کیے جائیں، تاکہ لادینیت کی یلغار کو روکا جاسکے، روشن خیالی کی ظلمت کو دُور کیا جا سکے اور شتر بےمہار آزادی کے اندھیرے سے نکالا جا سکے۔ وہ نوجوانوں کو پیغام دیتے ہیں:

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

۔۔۔

کبھی اے نوجواں مُسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار، وہ کردار ، تُو ثابت وہ سیّارہ

اقبال اسلام کے انقلابی پیغام کو دورِحاضر کے مسائل کے حل اور ضرورتوں کے حوالے سے پیش کرنے کے حامی تھے۔ تہذیبی تصادم سے جو مسائل جنم لے رہے ہیں، وہ ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان پر فکروبحث، جستجو و تحقیق اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ کام کرنا چاہتے تھے۔ وہ تمام مسائل کا حل قرآنِ حکیم اور اسوہ حسنہ ﷺکی روشنی میں پیش کرنے کے حامی تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ ایک ایسا ادارہ ہو جس دورِحاضر کے جیّد علماء کرام اور مختلف علوم کے ماہرین مل بیٹھ کر بحث ومباحثہ، معاملات کی جانچ پرکھ کر کے حل پیش کریں۔ اس طرح ایک جدید فقہ تدوین کریں۔ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، برِصغیر کے جیّد علماء کرام سے رابطہ کیا۔ اس کام کی تکمیل کے لیے جن علماء سے رابطہ کیا تھا اُن میں سے مولانا سیّد سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریاآبادی، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور دیگر علماء حضرات تھے۔ اسی دور میں چودھری نیاز علی خان، جو ایک نیک سیرت دردمند مسلمان تھے۔ جنہوں نے اپنی آبائی جائیداد واقع جمال پور پٹھان کوٹ مشرقی پنجاب، کا بڑا حصّہ خدمت ِدین کے لیے وقف کر دیا تھا۔ چودھری صاحب کے علامہ اقبال سے گہرے مراسم تھے۔ چودھری صاحب اور علامہ نے باہمی مشاورت کے بعد، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو پٹھان کوٹ آنے کی دعوت دی، تاکہ جدید فقہ کی تدوین کا کام کر سکیں۔ اس ادارہ کا نام دارالاسلام ٹرسٹ رکھا گیا۔ (تاریخ جماعت ِاسلامی جلد اؤل ،آباد شاہ پوری، خطوطِ مودودی جلد دوم مرتب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اقبال دارالاسلام اور مودودی مرتب ڈاکٹر اسعد گیلانی)

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس دعوت کو قبول کیا، اور پٹھان کوٹ آنے کی تیاری شروع کردی۔ مولانا مودودی حیدر آباد سے دارالاسلام تشریف لے آئے۔ اسی سال علامہ اقبال ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو وفات پا گئے۔ بعد میں مولانا مودودی کی سربراہی میں یہ ادارہ کام کرتارہا۔ تقسیم برِصغیر کے بعد یہ ادارہ جوہرآباد میں میں قائم کیا گیا ہے، اب بھی کام کر رہا ہے۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا جو خواب علامہ نے دیکھا تھا، اس خواب کی تکمیل کا کام اقبال کے شاہین کر سکتے ہیں۔ یہ نوجوان کلامِ اقبال سے روشنی لے کر دنیا میں جاہلیّت اور ظلمت کاخاتمہ کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اپنے آپ کو علم و ہنر سے آراستہ کریں اور علم و عمل اور تعلیم و تحقیق کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ اقبال کے شاہین ہی جہد ِمسلسل سے انقلاب لا سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی صحیح رہنمائی کی جائے۔

اسلام کے معاشی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی روشنی میں انسانی دنیا کی تشکیل نو، حق و انصاف کے غلبے کے لیے علمی و فکری محاذ پر ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جو اسلامی تعلیمات کی صحیح شکل اور بہترین اسلوب سے پیش کرے۔ چنانچہ اقبال نے کسی عقیدت مند کے سوال پر کہ

قیادت و امامت کی حقیقت کیا ہے۔ فرمایا:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئنیے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھاکر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملّتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے

علامہ نے عام فہم انداز سے قیادت و رہنمائی کے لیے شخصیت کے انتخاب کا ہنر بتایا ہے۔ ایک ایسی حقیقت کے دریا کو، جوکائنات پر پھیلی ہوئی ہے۔ اقبال نے کس خوبصورتی اور اجمال کے ساتھ کوزے میں بند کر دیا ہے۔ یہ جواب ان لوگوں کے سوالوں کا، جو انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اقبال پورے اسلام کے داعی تھے۔ وہ مسلکی عصبیت، گروہی مناظرہ بازی سے بیزار تھے۔ وہ اسلام کو بدلتے ہوئے حالات میں، قرآن و حدیث نبوی ﷺ کے بنیادی اصولوں کے کاربند رہتے ہوئے پیش کرتے تھے۔ وہ ملّتِ اسلامیہ کے اتحاد کے علمبردار تھے۔ علامہ فرماتے ہیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِکاشغر
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون ِدریا کچھ نہیں

موجودہ دَور میں اس بات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلام کو اپنی اصلی شکل میں، پورے اخلاص کے ساتھ، قولی و عملی شہادت کے ساتھ پیش کیا جائے۔جس طرح ابتدائی دور میں پیش کیا گیا۔ یہ کام مشکل نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن حکیم، اسوہِ حسنہ ﷺ اور سیرتِ صحابہ کرامؓ ہمارے پاس موجود ہے۔ صرف عمل کی ضرورت ہے۔ علم و تحقیق اور ایمان و تقویٰ کے ہیتھیاروں سے لیس ہو کر، جہدِمسلسل سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو صرف غلامی سے نجات نہیں دلاتا ہے، بلکہ انھیں حکمرانی سے بھی ہمکنار کرتا ہے۔

جب سے یورپ اور امریکہ کی عیسائیوں نے دنیا پر غلبہ، اقوامِ عالم پر سیادت حاصل ہوئی ہے۔ امن وامان ختم ہو گیا ہے۔ ہرطرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے۔ انسانیت کا استحصال ہو رہا ہے، املاکیں تباہ کی جا رہی ہیں، قتلِ انسانی کو کوئی جرم ہی نہیں سمجھتا ہے۔ ایسے حالات میں سلامتی والا دین جو کہ دینِ فطرت ہے، وہ صرف اسلام ہی ہے۔ اب مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ اس دینِ فطرت کو ایک مکمل متوازن نظامِ حیات کے طور پر پیش کریں:

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اُجالا کر دیں
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

عیسائیوں نے مسلمانوں پر غالبہ پانے کے لیے، اپنے اندر اجتماعیت پیدا کی، انقلابی فکر و نظریہ اپنی قوم میں پیدار کیا، تو اپنے دشمنوں پر غالب آ گئے، اسی طرح مسلمان بھی اپنے اندر انقلابی فکر پیدا کرکے اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال مسلمانوں سے مخا طب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب

اسلامی مفکرین دعوۃ اہل لسان و قلم کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل چیز معاصر ذہن و مزاج کے مطابق اسی اسلوب کی تلاش و دریافت ہے۔ اس اسلوب، منہاج اور معیار کے ساتھ ساتھ فکر و دعوت پیش کریں اس کام کے لیے پوری ٹیم تیار کی جائے، لیکن مسلمان محض تماشا بین اور تماشا بنے بیٹھے ہیں، یا چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں! ایک ملّت کا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ علامہ تو ہمیشہ اتحاد و یک جہتی اور تنظیم اور اُمّت کا درس دیتے رہے ہیں۔

یورپ اور امریکہ نے مستشرقین کے ساتھ ساتھ خود اپنائے اسلام پر مشتعمل ایسے مستغربین کے گروہ تیارکرنے میں کامیاب ہو گیا، جو شب و روز اسلامی عقائد و نظریات کی گھات میں لگے ہیں۔ اس کا اندازہ حالیہ برسوں کی مغربی پریس (الیکٹرانک اور پرنٹ) اور کتب سے لگایا جا سکتا ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو اور سیکولر لابی مسلمانوں کو تباہ کرنے، انہیں اپنا غلام بنانے اوران کی دولت لوٹنے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر رہے ہیں۔ اور مسلمان خوابِ غفلت میں پڑے ہیں۔

ایسے دور میں اقبال کے مردِ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ سائنسی، سماجی، مذہبیات، الٰہیات، نفسیات اور مسائل جدیدہ پر غوروفکر کرکے اسلامی نقطہ نظر پیش کرے، اس کام کے لیے اقبال کا کلام بہترین لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔ کلام اقبال اسلامی فکر، مقام کی وضاحت اور عصرِحاضر کی ضرورت، معاصر علمی سطح کی ترجمانی، حریت علم و فکر کا پرچم بلند کیا جائے۔ قرآن و حدیث نبوی ﷺ کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے سے علمی پختگی اور مشاہدہ میں باریکی آنے لگتی ہے۔ اقبال غیر مسلموں کے لیے ایک شاعر اور مسلمانوں کے لیے فکری مُرشد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال جب قرآن حکیم کی تلاوت کرتے تو ان کی آنکھیں اشکبار اور آواز گلوگیرہو جاتی۔ علامہ فرماتے ہیں:
’’۔۔قرآن گردشِ لیل و نہار کو خدا کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار کرتاہے۔اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان آیات الٰہی پر غور و عوض کر کے تسخیر فطرت کے لئے نئے نئے ذرائع معلوم کرے۔‘‘

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

ایک اورجگہ فرماتے ہیں:

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کُشا ہے نہ رازی،نہ صاحبِ کشاف

علامہ نے درج بالا اشعار میں اپنے شاہینوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ قرآن حکیم کو سمجھنا چاہتے ہو تو قرآن اس طرح پڑھو کہ گویا یہ قرآن تم پر نازل ہو رہا ہے۔ بے شک قرآن مجید قیامت تک آنے والوں کی رہنمائی کے لیے اُتارا گیا ہے۔ علامہ اقبال ہمیشہ اسلامی نظامِ حکومت کی جدوجہد کرتے رہے، وہ مصورِ پاکستان اور مفکراسلام ہیں۔ ان کے کلام میں دین و سیاست کو ایک کہا ہے۔ وہ دین و سیاست کو الک الک خانوں میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ اسے سکے کے دو رخ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ دین کو سیاست سے الک کر دیا جائے تو وہ ظلم کانظام بن جاتا ہے۔ اس کا مشاہدہ آج پوری دنیا میں کیا جا سکتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی

علامہ دین اور لادینیت کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

مسلمانوں کو اپنی ملّت کے متعلق بتاتے ہیں:

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال نے جو پیغام دیا ہے۔ اس پیغام کی روشنی میں تحقیق کا منتہی یہ نہیں کہ روایتی طور پر معروف مواقف کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیے جائیں، خواہ دلائل نئے کیوں نہ ہوں،حالات کی تبدیلی کے ساتھ ماحول اور ہدایت الٰہی (قرآن وحدیث نبویﷺ) دونوں کے نئے فہم کی ضرورت پڑتی ہے۔ معاشرت ہو یا سیاست، معاشی معاملات ہوں یا بین الاقوامی تعلقات، سب میں نئے حقائق دریافت کرنے ہوتے ہیں۔تب زندگی کی ایسی تنظیم نو عمل میں آسکتی ہے، جو اسلامی بھی ہو اور ترقی پذیر بھی۔ گزشتہ عرصہ میں حالات میں جوہری تبدیلی نمودار ہوئی ہے۔ جن کا تحقیقی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی آبادیاں جو پہلے نسل، مذہب اور زبان کی بنیاد پر بنے مجموعوں میں الگ الگ جغرافیائی علاقوں میں بسی ہوئی تھیں۔ اب ایک دوسرے میں مدغم ہوتی جارہی ہیں۔ ہر سماج تکثیری سماج بنتا جا رہا ہے۔ ذرائع نقل و حمل اور وسائل ابلاغ میں انقلابی ترقی کے نتیجے میں فاصلے کم ہوئے اور باہم ربط اور افہام و تفہیم آسان ہوا۔ علم بڑھا اور معلومات عام ہوئی ہیں۔ اب اسلام کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے، کیونکہ اسلام پوری دنیا کے انسانوں کے لیے آیا ہے۔ علامہ اقبال نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے کلام میں رہنمائی کی ہے۔ اقبال صرف انیسویں صدی یا بیسویں صدی کے شاعر نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک اسلامی قائد اور منفرد لب و لہجہ کے اسلام پسند شاعر ہیں، اُن کی شاعری آفاقی ہے، یہ زماں و مکاں کی پابند نہیں ہے، اس سے ہر دَور میں رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پُھونک ڈالے یہ زمیں و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

اقبال کا مردِ مؤمن وہ شہبازِ طریقت اور ہمائے غیور ہے۔ جس کے سامنے دنیا پرکاہ کی بھی حثیت نہیں رکھتی:

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہین کے لئے ذلّت ہے کارِ آشیاں بندی

اسلام اپنے ماننے والوں کو جسدِ واحد کہتا ہے، جبکہ اس وقت امّت بےاتفاقی کی وجہ سے دشمن کے لیے تر نوالہ بنی ہوئی ہے۔ اقبال ملّت کو اجتماعیت، اتفاق، اتحاد کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتا رہے، تاکہ ملّت پھر سے سربلندی اور ترقی، حکمرانی حاصل کر سکے۔علامہ فرماتے ہیں:

ملّت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ

ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:
[poetry]منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھیاللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے‘‘ بخاری۔

نیت درست ہوگی تو اعمال درست ہوں گے۔ نیت بنیاد ہے اس پر عمارت، گفتار و کردار میں یکسانیت سے تعمیر ہوگی۔ دنیا میں امن و اماں،اسلامی فلائی مملکت قائم کرنے کے لئے ایک نسخہ علامہ نے بتایا ہے جس پر عمل کر کے ملّت اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ ہو سکتی ہے۔ وہ یہ ہے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا