ہوم << "بڑوں کو جینے دو" - رقیہ اکبر چوہدری

"بڑوں کو جینے دو" - رقیہ اکبر چوہدری

جب سے یہ نگوڑا سوشل میڈیا کا دور آیا ہے، ہر طرف سے ایک ہی دہائی سنائی دیتی ہے
بچوں کو جینے دو
بچوں کا حق
ان کے ہاتھ پہ رکھ
ہر طرف نفسیات کے نام پر یہ ہاہاکار مچی ہوئی ہے.
ہاں بھیا بات تو ٹھیک ہے جینے دو انہیں۔
ان کی مرضی کی زندگی گزارنے دو۔
ان کی من مرضی و دلچسپی کے مطابق پیشہ چننے دو.
ان کی مرضی کے مطابق ہمسفر چننے دو
مرضی ہے تو گھومنے گھامنے بھی دو

مرضی ہے تو کسی سے نہ ملیں، آپ زبردستی مت کریں، نفسیات خراب ہوتی ہے.
آپ جائیں۔۔جا کر ملیں اپنے بہن بھائیوں سے ۔۔اب تو بھیا بچہ انٹروورٹ اور ایکسٹروورٹ کے خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے.
ہوا ہوئے وہ دن جب اماں ابا رشتہ داروں سے زبردستی ملواتے، ان کی خدمتیں کرواتے تھے، تعلقات بنے رہتے تھے، رشتہ داریاں نبھائی جاتی تھیں.
اب تو جی۔۔ہمارا بچہ انٹروورٹ ہے کہہ کر اس کےلیے یہ موئی "پرسنل سپیس" کا ڈنڈا برسا دیا ہے۔۔

بچے ہیں تو کیا ان کو جینے کا حق نہیں ۔۔
اور اس جینے کے حق میں یہ حق بھی شامل ہے کہ "نئے زمانے کا یہ ہوشیار بچہ" اماں ابا کے سامنے چچی تائی مامی کو جو بھی بول دے ، کوئی مضائقہ ہی نہیں۔
قصور یقینا یہاں بھی مامی ،چچی ،تائی ،پھپھی ،خالہ کا ہی ہو گا۔۔۔وہ بڑے تھے انہیں ہی لحاظ،مروت کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات کا خیال رکھنا تھا جی۔۔
رہیں مامی ،چچی ،تائی، پھپھی تو جی ان کی بھلا کیسی عزت نفس۔۔
کونسی نفسیات
کیسی تکریم، احترام ،ادب
آئے ہائے
بڑے ہیں تو کیا ہوا۔۔۔
کوئی مقدس گائے تھوڑی ہیں، جو کچھ کہا نہیں جا سکتا انھیں۔۔
پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔

ہاں۔۔ رہے بچے!
تو سرکار ان کی نفسیات کا بھی خیال رکھنا ہے اور جذبات کا بھی.
حقوق کا پاس بھی لازم اور سیلف ریسپیکٹ ۔۔۔۔وہ تو جزو لاینفک ہے بھئی۔۔
البتہ یہ سارے حقوق و لوازمات ہرگز بڑوں کےلیے لازم نہیں۔
بچے انھیں جو چاہے کہیں مگر انھیں یہ حق کیونکر دیا جا سکتا ہے کہ وہ بچوں کو (جن کے "جدید حقوق اور نوی نکور سیلف ریسپیکٹ" شاید کسی ان دیکھی زمین سے اُگ آئی ہے ) کوئی حق سچ بات کہہ دیں ۔۔
ہماری سرائیکی میں بولیں تو
"کوئی سدھی ڈِنگی سکھاون دی کوشش کرن دا"
قطعی کوئی حق نہیں۔۔
ہو بھی کیوں ۔۔اماں ابا کے سوا یہ حق بھلا کسی اور کو کیوں دے دیا جائے کہ بچے کو کچھ بھی کہہ دیویں (ویسے حق تو اماں ابا کا بھی نہیں مانتے بچے)

چلو ٹھیک ہے جی مانے لیتے ہیں۔۔
آخر کو جدید نفسیات کے تقاضے ہیں
مگر بھیا کوئی ہمیں یہ بھی تو بتلائے کہ
یہ موئی نفسیات بس بچوں کی ہی ہووے ہے کیا؟
یہ اپنی من مرضی سے جینے کی اکھشا پہ اماں باوا کا بڑوں کا بھی کوئی ادھیکار مانے ہے کہ نہیں؟

ٹھیک ہے جی مان لیا آپ انٹروورٹ ہیں تو کیا یہ موئی بیماری اماں کو ناہی لگ سکے ہے؟
یہ جو "اپنے سنگ بیتے لمحوں" کا لطف ہے کیا
اماں ابا اس سے لطف کشید کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے؟
یہ جو آپ کی "پرسنل سپیس" ہے
کیا اماں ابا کو نہیں چاہیے ؟
یہ جو آپ کو "می ٹائم" درکار ہے جس میں آپ اور آپ کے ساتھ بھی بس آپ ہوں
کوئی آپ کی تنہائی میں مخل نہ ہو
تو ہم بڑوں کو یہ "می ٹائم" کاٹتا ہے کیا؟

ہمیں بھی اپنے لیے "پرسنل سپیس" چاہیے
ہمیں بھی اپنے لیے اب یہ " می ٹائم" چاہیے ۔۔
اس لیے کہ بھلے ہم پرانے زمانے کے ہیں مگر جی تو ہم بھی اسی "نئے زمانے" میں رہے ہیں۔۔
تو آج سے ہمارا بھی یہ مطالبہ ہے
ساڈا حق اتھے رکھ
بڑوں کو جینے دو