یہ جتنے دانشوروں کو ہر تھوڑے عرصے بعد غلامی پر دردِ زہ لاحق ہوتا ہے اس کی وجوہات متنوع ہیں۔ اب یہ موصوف کہہ رہے ہیں کہ اگر غلاموں کو ملازموں کا درجہ مل جاتا تو کون سی قیامت آ جاتی؟ آپ ان ہی سے پوچھ لیں کہ جتنی تنخواہ یہ خود پاتے ہیں ان کے ڈرائیور کو اتنی تنخواہ کیوں نہیں ملنی چاہیے؟ کیا ان کا ڈرائیور ان سے کم تر انسان ہے؟ کیا اس کا دل نہیں کرتا کہ وہ بھی ان کی طرح اچھی کافی، اچھی دارُو اور اچھی سگریٹ پیے؟ اس سے معیشت پر بھلا کیا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
یہ سوال کہ اسلام نے غلامی ختم کیوں نہ کی بالکل ایسا سوال ہے کہ “اسلام نے غربت اور بھوک ختم کیوں نہ کی”۔ یا “اسلام نے جنگ و جدل کا خاتمہ کیوں نہ کیا”؟ شراب ایک مشروب یا پراڈکٹ تھا، غلامی ایک معاشرتی ادارہ یا فینامینا تھا۔ آپ آج اس وقت چاہیں تو ملک سے سگریٹ ختم کر سکتے ہیں قانون بنا کر، لیکن اگر آپ غربت، بیماری یا انتہا پسندی ختم کرنے کا قانون پاس کریں تو کیا وہ قانون بنانے سے ختم ہو جائے گی؟ پاکستانی بائیں بازو کے دانشور دراصل آج کل جہالت کے سوداگر ہونے کے سوا کچھ نہیں۔
دلچسپ چیز دیکھیں کہ یہ کریہہ دانشور ماضی کے ایک سماجی ادارے پر لکیر پیٹیں گے کہ اسے ختم کیوں نہ کیا گیا، لیکن اپنے دور کے استحصالی نظام اور اس کے پیدا کردہ اداروں پر یہ کبھی مونہہ نہیں کھولیں گے۔ مثلاً موجودہ دور میں مال دار قوموں نے قرضوں اور مسلسل جنگی حالات کے ذریعے کچھ اقوام کو مستقل غربت اور تنگدستی میں رکھ کر ان کے وسائل پر ایک سوچا سمجھا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ پھر پچھلے وقت میں تو نیشن اسٹیٹ نہیں تھی، لہذا ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر لوگ نئی زندگی شروع کر سکتے تھے۔ اس وقت پاس پورٹ کا اور شہریت کا نظام موجود ہے، کوئی بندہ غریب یا جنگ زدہ علاقے میں پیدا ہو گیا ہے تو اس کے پاس اپنے حالات سی فرار کا کوئی طریقہ سوائے بھوک یا گولی یا میزائیل سے مرنے کے موجود نہیں ہے۔ غلامی میں پیدا ہونے والوں کے لیے اسلام نے آزادی حاصل کرنے سے لے کر عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے سینکڑوں طریقے وضع کر دیے۔ مگر کیا موجودہ جنگ اور غربت زدہ علاقوں سے نکل کر کوئ ان دانشوروں کے مونہہ بولے سفید چمڑی والے ابا کے ممالک میں جانا چاہے تو اس کی کوئی پیش چل سکتی ہے؟ کیا یہ لوگ اس پر، رفیوجی یا جنگ و بھوک زدہ علاقوں پر، میو کالونیئل مائینڈ سیٹ پر بات کرتے کبھی دیکھے گئے ہیں؟
پھر اسی پوسٹ میں یہ گرو گھنٹال کہہ رہا ہے کہ اس کے اعزازی والد صاحب ابراہم لنکن نے غلامی ختم کی بلکہ پوری خانہ جنگل کروا لی اور گولی بھی کھا لی اس کاز کے لیے! جبکہ لنکن صاحب نے امریکی سول وار کے دوران 1862 میں نیویارک ٹریبیون کے ایڈیٹر ہوریس گریلی کے خط، جس میں اس نے لنکن کی پالیسی بارے کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا، پر اپنی غلامی بارے پالیسی خود ان الفاظ میں بیان کی تھی:
“کوئی شک باقی نہ رکھیں کہ اس جنگ میں میرا مقصد فقط یونیئن (شمالی و جنوبی ریاستوں پر مبنی یونائیٹڈ اسٹیٹس) قائم رکھنا ہے۔ غلامی بچانا یا ختم کرنا مدعا نہیں ہے۔ اگر میں ایک بھی غلام آزاد کرائے بنا یونیئن قائم رکھ لوں تو یہ کر دوں گا، اگر میں سب غلام آزاد کروا کے ایسا کر سکوں تو بھی کر دوں گا، اور اگر میں چند کو آزاد کروا کے چند کو غلام رکھ کے ایسا کر سکوں تو بھی کر گزروں گا۔ میں غلامی اور نیگرو نسل کے لیے جو کچھ کر رہا ہوں وہ محض اس لیے ہے کہ میرا یقین ہے کہ اس سے یونیئن کے وجود کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔۔۔” (اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے میری کمینٹس میں دی ہوئی پوسٹ دیکھی جا سکتی ہے)
اسلام نے غلامی ختم کرنے کے لیے کوئی اقدامات اس لیے نہیں کیے کیونکہ غلامی انسانی سماج کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گی۔ غلامی دراصل طبقاتی تقسیم کی ہی ایک شکل ہے، اور انسانی معاشرہ طبقاتی تقسیم کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ اس وقت پرانے دور کی غلامی سے بدتر حالات میں لوگ زندہ ہیں اور اس کی وجہ موجودہ نظام اور اس کے تشکیل کردہ ادارے ہیں (جن کی یہ بائیں بازو والے پوجا کرتے ہیں)۔
اسلام نے البتہ یہ کیا کہ ملکیت کی تعریف بالکل بدل ڈالی۔ ذاتی و مشترکہ ملکیت کی مادی کہانی کو یکسر ختم کر کے بتایا کہ دراصل ملکیت ساری کی ساری فقط اللہ ہی کی ہے۔ اور اللہ نے جسے جو دیا ہے وہ اپنی ملکیت میں سے امانت کے طور پر دیا ہے۔ لہذا جو اوپر کے طبقات ہیں ان پر فرائض عائد ہو گئے کہ ان سے نیچے کے تمام طبقات کا خیال رکھنا ان کے ذمے ہے۔ اس میں تمام کمزور طبقے بشمول عورتیں، بچے، بوڑھے، معذور اور غلام شامل ہیں۔ دنیا و آخرت دونوں میں تگڑے کو ماڑے کی بابت جوابدہ قرار دے دیا گیا۔ احتساب کے اس نظام سے ہر دور میں طبقاتی تقسیم سے پیدا ہونے والے ادارے یا حالات (مثلاً گزرے دور میں غلامی، موجودہ دور میں غربت اور جنگ اور بھوک و افلاس زدہ اقوام) سے بہترین انسانی طرز پر معاملہ کرنے کی رہنمائی انسان کو مل گئی۔
تبصرہ لکھیے