ہوم << ترک اور پاکستانی پولیس کا موازنہ - شیرازعلی‌

ترک اور پاکستانی پولیس کا موازنہ - شیرازعلی‌

شیراز علی ترکی میں فوجی بغاوت یا مارشل لاء کو روکنے میں ترک عوام کے ساتھ وہاں کی پولیس کا بھی بہت اہم کردار رہا. صدارتی ہاؤس پر حملہ آور باغی فوجیوں سے مقابلہ اور ان کی گرفتاریاں یقینا قابلِ تحسین ہے. ترک پولیس کے مارشل لاء روکنے کے کردار نے پاکستان میں پولیس نامی ادارے کو آئینہ دکھا دیا ہے. وہ ادارہ جو ہر چڑھتے سورج کو سب سے پہلے سلامی دینے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا. یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے کہ ہر دور کے حکمرانوں نے پولیس کو اپنےگھر کی لونڈی بنا کے رکھا مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ غلامی کے اس طوق کو سنبھالے رکھنے میں اہم کردار خود پولیس سروس کے اعلیٰ افسران کا بھی ہے. آج تک انھوں نے پولیس کے ادارے کو خود مختار، آزاد اور مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا اور نہ ہی خود کوئی کردار ادا کیا. بلکہ ادارے کو کرپٹ اور بدنام کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ انھی کا ہے.
پاکستان میں پولیس کا اندرونی نظام اس قدر برباد ہوچکا ہے کہ بڑے شہروں میں پولیس افسران وردی پہنے ہوئے پراپرٹی ڈیلر، ٹھیکیدار، کنٹریکٹ کلرز اور قبضہ گروپس بنے بھی نظر آتےہیں. ادارے کے اندر پوچھ گچھ کا کوئی خاص نظام نہ ہونے کی وجہ سے بار بار عدالتوں میں اس کی رہی سہی عزت بھی تارتار ہوتی نظر آتی ہے. کبھی سندھ پولیس کا آئی جی کرپشن اور غیرقانونی بھرتیوں پر برخاست کیا جاتا ہے تو کبھی پنجاب میں ہزار سے زیادہ غیر قانونی ترقیوں کو واپس لینے کا حکم. کے پی کے سابق آئی جی ظفراللہ نیب کی حراست میں ہیں، موصوف نے بارہ عدد بنگلے صرف اسلام آباد میں بنائے۔ لاہور پولیس میں ایک ایس ایس پی گاڑیوں کی کرپشن کے حوالے سے خاصے مشہور ہوئے، ابھی لاہور میں پچھلے برس خریدی جانے والی کاروں کے قصے باہر نکلنا شروع ہوگئے ہیں، کالی وردی زیب تن کرنے والے ایک نہیں سینکڑوں افسران ایسے ہیں کے جن کے مالی معاملات ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن چوکوں اور چوراہوں پر کھڑے عام کانسٹیبل کی چند سو روپے کی انکوائری جب ان کے سامنے آئے تو ان کی تقریریں سننے والی ہوتی ہیں۔
پولیس کا کام سیاسی مخالفوں کی پکڑ دھکڑ، حکمرانوں کی سیکورٹی اور عام عوام پر ظلم ہی رہ گیا ہے. اگر کوئی نیک نام افسر اس نظام کو بدلنے اور پولیس ریفارمز کی بات کرے تو ایک کی آواز دبانے کے لیے پچاس افسران کوشاں نظرآتے ہیں. بحیثیت ادارہ اتنا برباد ہوچکا کہ سی ایس ایس میں ٹاپ کرکے ملک و قوم کی حفاظت کا جذبہ لےکر آنے والے نوجوان آفیسرز چند سالوں میں ہی اپنے پیش رئووں سے دو ہاتھ آگے نکل جاتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ایک ایس پی درجہ کا آفیسر بھی ماڈل ٹاؤن میں گاڑیاں توڑتےگلو بٹ جیسے فرد سے بغل گیر نظر آتا ہے.
حکمرانوں نے اپنا کل بچانا ہے تو پولیس کو خود مختار اور مضبوط کریں اور پولیس افسران بھی ادارے کو بچانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں، اور نا اہل اور کرپٹ لوگوں سے اس ادارے کو پاک کر کے صحیع معنوں میں ملک و قوم کی خدمت و خفاظت کے عہد کو پورا کریں. دنیا بھر میں اب پولیس کو عوام دوست اور فرض شناس بنانے کی پالیسیوں پہ کام ہو رہا ہے مگر ہمارے ہاں آج بھی یہ نفرت اور دہشت کی علامت بنی ہوئی ہے. پولیس کا اندرونی نظام تبھی ٹھیک ہوگا جب افسران اپنا رویہ اور قبلہ بدلیں گے. ضرورت اس امر کی ہے کی اب پولیس رولز اور پولیس آڈر کوچھوڑ کر جدید سطور پر ایک نئے نظام کو بنایا جائے جس سے عوام الناس کے اندر پولیس کی گری ہوئی ساکھ بحال ہو سکے. موجودہ صورت حال میں جب پولیس کو پہلے سے کہیں زیادہ فنڈز بھی ملتے ہیں تو یہ سب ممکن بھی ہے. سب سے پہلے وی آئی پیز کی سکیورٹی پہ مامور اہلکاروں کو واپس کرنے اور سیکورٹی کے حوالے سے کوئی نیا ادارہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے. اہلکاروں کی جسمانی تربیت کے ساتھ ذہنی اور اخلاقی تربیت کا جامع پرگرام ترتیب دیا جائے. ادارہ جب مضبوط ہوگا تو کوئی پولیس افسر پراپرٹی ڈیلنگ نہیں کرسکے گا، قبضہ گروپ نہیں بنے گا، بھرتیوں اور ترقیوں کا شفاف نظام بنے گا تو کوئی آفیسر جعلی بھرتی یا غیر قانونی ترقی نہیں کر سکے گا. پولیس کا ادارہ مضبوط بنے گا تو گورننس بھی بہتر ہوگی ورنہ حکمران یاد رکھیں کہ اگر خدانخواستہ کل کلاں مارشل لاء لگ گیا تو آپ کی انگلیوں پرناچنے والے افسران ہی آپ کو گرفتار اور آپ کے حق میں احتجاج کرنے والوں پر تشدد کے احکامات دینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کریں گے.