ہوم << پرکھ - ابیہاعلی شاہ

پرکھ - ابیہاعلی شاہ

ماشاء اللہ! آج تو میری بیٹی بہت پیاری لگ ہے، آئندہ ایسے ہی میری بیٹی قاری صاحب کے پاس جائے گی. دیکھو نانو اچھی ہیں نا، مما گندی ہیں، عائزہ کو اسکارف نہیں کرواتی _" رقیہ بیگم عائزہ کے سر پہ اسکارف کرواکے، اس کے بھرے بھرے گالوں پہ پیار کرتی اسے سمجھا رہی تھیں، اور عائزہ بھی نانو کو یہاں دیکھ کے بہت خوش تھیں. اسے نانو سے ایک پدارنہ شفقت کا احساس ہوتا تھا جو اسے مریم سے بھی کبھی نہیں ہوا تھا.
اچھا میرا بچہ جاؤ سیپارہ اٹھاؤ اور پڑھنے جاؤ___"
اوکے نانو___" میں جارہی ہوں، نانو آپ بہت اچھی ہیں، وہ بدلے ان کو پیار کرتی چلی گئیں تھیں.

شام کا وقت تھا، مریم کچن میں چائے بنا رہی تھی، لاؤنج میں اسے اپنی امی کی باتیں واضح طور پر سنائی دے رہی تھیں. ابھی کچھ دیر پہلے اس کے شوہر عمار کا کزن وسیم آیا تھا. اسے امی کی حرکت بہت غیر مناسب لگی تھی. جب وسیم عائزہ سے ملنے لگا تو امی نے بہانے سے عائزہ کو اندر بھیج دیا. مطلب حد ہوتی ہے تنگ نظری کی___ اس کا یہ ماننا تھا کہ وسیم بہت شریف اور ڈیسنٹ ہے. وہ تو عائزہ کے ساتھ خود بچہ بن کر ٹریٹ کرتا تھا، آج جب وہ عائزہ سے ملنے لگا تو امی نے جب عائزہ کو بازوؤں سے پکڑ کر کمرے میں بھیجا تو وسیم خوامخواہ شرمندہ ہوگیا تھا.
وسیم کے چہرے پہ چھپی ندامت دیکھ کر اسے امی پہ غصہ آیا تھا.
خیر کوئی بات نہیں امی کی طرف سے میں وسیم بھائی سے معذرت کر لوں گی__ وہ یہ سوچتی چائے کپ میں ڈالے لاؤنج میں چلی آئی تھی .
امی یہ لیں چائے _ مریم چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھ کر صوفے پہ بیٹھ گئی.
امی تسبیح پہ ورد کر رہی تھیں، انھوں نےتسبیح مکمل کرکے چائے کا کپ میز سے اٹھالیا _
مریم __ مجھے عمار کے کزن وسیم کی نظریں ذرا اچھا نہیں لگتیں، مجھے اس کے رنگ ڈھنگ اچھے نہیں لگتے، وہ عائزہ کےلیے نامحرم ہے، اس لیے عائزہ کو اس سے فاصلہ پہ رکھا کرو. ماشاءاللہ دو مہینوں بعد وہ گیارہ سال کی ہوجائے گی. وہ اب بچی نہیں رہی، کافی صحت مند ہے، اسے اب جیبز شارٹ، بغیر آستینوں والے کپڑے پہنانا چھوڑ دو، اسے دوپٹے کی عادت ڈالو _ فل آستینوں والے سوٹ یا فراق پہنایا کرو، تم ماں ہو اس کی، تربیت میں ذرا سی لاپرواہی برتو گی تو وہ خراب ہو جائے گی. ویسے بھی یہ دور لڑکیوں کےلیے بہت نازک چل رہا ہے __
اور ہاں ! میں جب سے آئی ہوں، نوٹ کر رہی ہوں، تم بہت لاپرواہ ہوگئی ہو ، عائزہ پر بالکل دھیان نہیں دیتی، بس فون پکڑا دیا ہے کہ وہ بلاوجہ تمھیں تنگ نہ کرے. تم سے بعد تو وہ سوتی ہے. جس ماں کی بیٹی جوان ہو رہی ہو نا، تو وہ کبھی بھی بے فکری کی نیند نہیں سوتی. میں رات کو دیکھ رہی ہوتی ہوں، تم خود نو بجے سو جاتی ہو، وہ دس یا گیارہ بجے سوتی ہے. یہ میری نصحیت ہے کہ عائزہ کوپہلے سلا کر پھر سویا کرو. جن ماؤں کی بیٹیاں بڑی ہو رہی ہوں وہ تو سوتے ہوئے بھی آنکھیں کھلی رکھتی ہیں، یوں تمھاری طرح بے فکری کی نیند نہیں سوتیں _ آج سمجھ جاؤ تو اچھا ہے ورنہ تمھاری لاپرواہی کا انجام اچھا نہیں ہوگا _" کھلاؤ بے شک سونے کا نوالہ مگر رکھو شیر کی نگاہ_"

خدا کا نام لیں امی _ آپ تو میری ساس ہی بن گئی ہیں، آپ کیا چاہتی ہیں جو پابندیاں آپ نے مجھ پہ لگائی ہیں، وہ میں اپنی بیٹی پہ لگاؤں _ آپ کو لگتا ہے جیسے آپ نے میری سانسیں بند رکھی ہیں، ویسے میں اس کی سانسیں بند کروں_ جیسے میں چھوٹی چھوٹی خواہشوں کےلیے ترسی ہوں ویسے ہی وہ ترسے، جیسے میں آپ کے سامنے بات کرنے سے ہچکچا تی تھی ویسے وہ ہچکچائے _ امی آپ کی یہ کنزوریٹو سوچ مجھے بہت تکلیف دیتی ہے، دنیا اتنی ماڈرن ہوگئی ہے، اب وہ زمانے نہیں رہے جب آپ میرے سر پہ دوگز کا دوپٹہ اوڑھ دیا کرتی تھیں، اور کسی کزن کے پاس تو آپ نے مجھے پھٹکنے بھی نہیں دیا ، صرف یہ سوچ کر کہ وہ نامحرم ہے ۔۔۔ اب زمانہ ماڈرن ہوگیا ہے. میں اسے بڑی سمجھ کر اس پہ کوئی سختی نہیں کروں گی.یہ بات آپ ذہن نشین کر لیں. اور وسیم بھائی بالکل بھی ایسے نہیں ہیں، آپ اپنی سوچ کو تھوڑا وسیع کریں، اس طرح تنگ نظر ہوکر سوچیں گی تو بڑھاپے میں اکیلی رہ جائیں گی . میں اب بڑی ہوگئی ہوں سمجھ دار ہوگئی ہوں __ مریم اپنی والدہ کو ٹوکتی ساری بھڑاس نکال کر چلی گئی.

میں نے دھوپ میں بال سفید نہیں کیے مریم __ بیس سال سکولوں میں پڑھایا ہے، آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے انسان کو پرکھ لیتی ہوں. شکلوں سے شرافت کا نہیں پتہ نہیں چلتا، آج کے دور میں ہر شخص نے شرافت کا نقاب چڑھایا ہوا ہے اصل کو پہچاننا مشکل ہوگیا ہے. زمانے کو پرکھنے کی وہ نظر تم میں نہیں ہے جو مجھ میں ہے بلکہ تم میں ہے ہی نہیں__ تمھیں زمانے کو پرکھنا نہیں آتا، کیونکہ ہم نے تمھیں زمانہ پرکھنے دیا ہی نہیں ہے. ہر وقت میں نے اور تھمارے ابو نے تمھیں گھر کے اندر چیزیں مہیا کی ہیں، ہم نہیں چاہتے تھے کہ تم زمانے کی تلخیوں کی نظر ہو جاؤ.
باقی آج بھی زمانہ وہی ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا، تنگ نظر ہم نہیں ہوتے زمانے کی تلخیوں کی وجہ سے خود کو تنگ نظر بنانا پڑتا ہے، اور تم سمجھ دار جتنی بھی ہو جاؤ مگر مجھے دکھ ہے کہ تم اپنی ماں کی سوچ کا اندازہ نہیں کر سکیں. ایک چیز کے پرکھنے کا اندازہ تجربے سے ہوتا ہے اور ابھی تک تمھیں کوئی تجربہ ہی نہیں ہے. جسے تم سختی کہتی ہو وہ سختی نہیں تھی وہ ہمارے اندر کا ڈر تھا مگر تم نہیں سمجھو گی. تم اس وقت سمجھوگی جب میری طرح تمھارے اندر تمھاری اپنی ہی بیٹی کا ڈر بیٹھے گا _
خیر میرا مقصد تھا تمھیں بتانا تمھیں سمجھانا، آگے تم سجھو نہ سمجھو تمھاری اپنی مرضی _ میرا کیا میں تو کل چلی جاؤں گی، ایک ہفتہ ہوگیا ہے مجھے یہاں آئے _ آج بھی رضا اور تمھارے ابو کی کال آرہی تھی کہ کب آؤ گی؟ صبح میری ٹکٹ ہے تو آج جو لاڈ اُٹھوانے اٹھوا لو ___یہ کہتے وہ اب نارمل لگ رہیں تھیں. مریم ایک نظر ان کو دیکھتی ان کے گلے آ لگی تھی. شادی کے گیارہ سالوں میں بس پانچ یا چھ دفعہ رقیہ بیگم اسے ملنے آئی تھیں. ابھی ایک ہفتہ رہ کر انھوں نے چلے جانا تھا. اسے اپنی امی کی کوئی بات بلاوجہ کی پابندی لگتی تھی. آج بھی وہ اسی بحث کو لے کر کچھ تلخ ہوگئی تھی.

❤❤❤❤
مریم چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی. وہ ابو اور بھائیوں کی بہت لاڈلی تھی. رقیہ بیگم اور نجم صاحب نے اسے بہت لاڈ سے پالا تھا__" رقیہ بیگم سکول ٹیچر تھیں، وہ بچوں کی پرورش کے معاملے میں بہت سخت گیر تھیں. مریم ان کی پابندیوں کی وجہ سے کوفت میں مبتلا رہتی تھی. شادی سے پہلے گھر سے کالج اور کالج سے گھر ہی جایا کرتی تھی. رقیہ بیگم نے اسے باہر کبھی نکلنے ہی دیا تھا اس کے بعد اس کی شادی عمار سے کر دی تھی جس کے اپنے مختلف بزنس تھے. عمار زیادہ تر بزنس ٹور میں باہر ہی ہوتا . عمار کی فیملی کافی ماڈرن تھی اس لیے اپنے سسرالیوں کو دیکھ کر وہ بھی کافی ماڈرن ہوگئی تھی، مگر عمار اسے سمجھاتا تھا ، اس کی سوچ بھی کچھ حد تک تنگ تھی، کیونکہ وہ بیٹی کا باپ تھا. مریم عمار سے اس معاملے میں بدتمیزی بھی کر جایا کرتی تھی.

❤❤❤❤❤
رقیہ بیگم اسلام آباد واپس چلی گئی تھیں� ان کو اسلام آباد گئے تقربیا چار پانچ دن ہوگئے تھے. آج اتوار تھا تو مریم نے ملازمہ سے سارا کام کروا کر اسے چھٹی دے دی، اور خود عائزہ کو تیار کے اسے ہوم ورک کروانے لگی __" ۔
وہ عائزہ کو ہوم ورک ہی کروا رہی تھی جب ڈور بیل بجی، اٹھ کر اس نے ڈور کھولا تو آگے وسیم کو کھڑا پایا .
السّلام علیکم بھابھی __ اس نے نگاہیں جھکاتے مؤدب سے لہجے میں کہا تھا
وعلیکم السلام وسیم بھائی، خیریت _"
جی خیریت___ وہ دراصل مجھے امی نے بھیجا، انھوں نے عائزہ سے ملنا تھا ، اسے لینے آیا تھا .
آپ اندر تو آئیں، میں چائے تیار کرتی ہوں_ وہ حیران ہوئی، پہلے تو وہ عائزہ کو کبھی نہیں لینے آیا تھا، پھر آج کیوں ؟
اس نے سوچوں کو جھٹک دی، اور اسے اندر لے آئی، وہ دراصل امی والی حرکت پہ معذرت کرنا چاہتی تھی .
آپ بیٹھیں _" میں آپ کےلیے کچھ لے کر آئی _" وہ اسے لاؤنج کے صوفوں کی جانب اشارہ کرتی خود کچن کی جانب بڑھ گئی تھی .
کچھ دیر بعد بسکٹ ، کباب ، نمکو اورچائے ٹرے میں رکھے تھے. اسے لاؤنج میں ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں، اس نے شیشے سے دیکھا تو روح کے بخیے ادھڑگئے. اس کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی تھی .
وسیم عائزہ کو گدگدیاں نکال رہا تھا، عائزہ اس کے بازؤں میں تھی، اس کے ہاتھ گدگدیاں کرتے پاؤں سے ہوتے سفید پنڈلیوں کی طرف سفر کر رہے تھے، وہ بظاہر اس سے لاڈ کر رہا تھا مگر مریم کو آج وہ بہت غلیظ لگا تھا__

(شکلوں سے شرافت کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ آج کے دور میں ہر کسی نے چہرے پہ ماسک لگایا ہوا ہے). ماں کی باتوں کی بازگشت کانوں میں گونج رہی تھی . اس کے کانوں سے دھواں، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے. اس سے پہلے وہ ضبط کھوتی جلدی سے چہرہ صاف کرتی باہر نکلی، وسیم جلدی سے سنجیدہ ہوتے چہرے پہ شرافت کا ماسک اوڑھتا ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ رکھے مگر سنجیدہ بن گیا تھا___
وسیم بھائی یہ لیں آپ کی چائے __ وہ دل پہ زہر مگر چہرے پہ وہی نرم مسکراہٹ رکھے بولی تھی .
وسیم بھائی معذرت مگر میں عائزہ کو نہیں بھیج سکتی آپ کے ساتھ کیونکہ عمار کی کال آئی ہے، آج وہ گھر آرہے ہیں __ چہرے پہ پتھریلے تاثرات رکھ کر اس نے کہا ۔۔۔
کوئی بات نہیں، میں اسے پھر کل لے جاؤں گا _ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی
نہیں وسیم بھائی سوری _ عائزہ اب نہ آج نہ کل جاسکے گی کیونکہ اس کے پاپا آجائیں گے، ان کا دل نہیں کرتا کہ وہ کہیں جائے __ سہولت سے کہتے اس نے انکار کر دیا تھا
جیسے آپ کی مرضی بھابھی ۔ وسیم اب کی بار کچھ بگڑے تاثرات سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا
وسیم بھائی __ آئندہ جب عمار گھر ہو تو ان سے کال کرکے گھر آئیے گا، ایسے اچھا نہیں لگتا، اور آئیے میں آپ کو دروازے تک چھوڑ دوں کیونکہ میں نے دروازہ بند کرنا ہے
اس کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ وسیم اٹھا اور بغیر کچھ کہے باہر نکل گیا ۔

مریم دروازہ بند کر آئی تو ہچکیوں سے رونے سے لگی
امی آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ میں نہیں سمجھی آپ کو ۔ آپ نے کہا تھا کہ تم تب سمجھوگی جب تمھاری بیٹی کا ڈر تمھارے اندر بیٹھے گا۔ آج میری بیٹی کا ڈر اندر بیٹھ گیا ، آج مجھے سمجھ آگئی کہ کیوں آپ مجھ پہ سختی کرتی تھیں، آج مجھے پتہ چلا کہ آپ مجھے میرے کزنوں سے کیوں دور رکھتی تھیں، آج میں جان ہوگئی ہوں کہ پرکھ کی جو نگاہ آپ میں ہے وہ مجھ میں نہیں ہے ۔ آپ صحیح کہتی تھیں کہ میں بہت لاپرواہ ماں ہوں
شکر ہے زیادہ دیر نہیں ہوئی امی _آپ کی کوئی نیکی آپ کی بیٹی کے کام آگئی اورآپ کی نواسی کسی بڑے نقصان سے بچ گئی۔ میں کیسے آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ کے سمجھانے سے ہی تو مجھے وہ نظر آیا جو شاید کبھی نہ آتا، آپ کی تنگ نظری نے آپ کی بیٹی کی آنکھ کھول دی ۔۔۔۔ وہ اللہ کا شکر اداکرتے روئے جا رہی تھی
اگر عمار یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ان کا تو دل ہی بند ہوجاتا ۔ یہ سوچتے اس نے اذیت سے آنکھیں بند کر لیں
مما مما کیا ہوا آپ کو __؟ عائزہ اسے دروازے کے پاس نیچے بیٹھے روتا دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی
وہ اس کے پاس بیٹھی تو مریم نے عائزہ کو کسی متاع زیست کی طرح سینے سے لگایا تھا
مما وسیم انکل گندے ہیں __ عائزہ نے کہا تو وہ ہچکیوں سے روئی تھی
تمھاری ماں گندی تھی عائزہ جو تمھاری طرف تنگ نظری سے دیکھ نہیں سکی _ وہ یہ کہتے پھر سے روپڑی تھی
نہیں مما آپ بہت اچھی ہیں _ عائزہ نے کہا جب ڈور بیل بجی تھی
وہ مریم کو اٹھا کر اٹھی اور دروازہ کھولا تو سوٹ کیس اٹھائے عمار کو سامنے کھڑے پایا تھا۔۔۔

آج تو ایسے لگتا ہے کہ میری دونوں پرنسسز میرے ہی انتظار میں کھڑی تھیں۔ اندر آتے عمار نے دروازہ بندہ کرتے دونوں کو حصار میں لیا ۔ اس نے مریم کی نم نگاہیں دیکھ لی تھیں۔
بابا مما رو رہی ہیں _ عائزہ نے عمار کو فٹ سے بتایا تھا __
تو کیا ہوا میں اور میری پرنسسز کس لیے ہیں، مل کر چپ کروائیں گے__ عمار نے بیٹی کو پریشان دیکھا تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ لانے کےلیے خاطر کہا
آج میں اور میری دونوں پرنسسز پہلے کھانا کھانے جائیں گے، پھر مال میں اور پھر اینڈ پہ پارک میں _ وہ انھیں بازؤں کے سہارے کاؤچ تک لے آیا تھا
سچی بابا_ عائزہ تو اچھل ہی پڑی تھی جبکہ مریم بھی اب تھوڑی سی نارمل ہوگئی ۔ آج اسے ٹھوکر جو لگی ، مگر وہ گری نہیں، اسے اس کے رب نے گرنے سے بچالیا تھا_
عمار آپ فریش ہوجائیں، اور عائزہ آؤ میں تمھیں بھی تیار کروں۔ وہ عائزہ کو بازؤں میں اٹھائے اس کے کمرے میں لے آئی تھی

❤❤❤❤
عمار لاونج میں ہی تھا جب اس نے ماں بیٹی کو اپنی طرف آتا دیکھا ۔ مریم نے خود کو امکمل ڈھانپا ہوا تھا ۔ عائزہ جب بھی باہر جاتی ، مریم اسے فیشن کے نام پہ پینٹ شرٹ ، جینز میں پہناتی تھی، مگر آج عائزہ نے سیاہ فراک فل آستینوں والے اور تعجب کی بات کہ اوپر اسکارف بھی تھا ۔۔۔
چلیں _ مریم نے اس کی حیرت سے کھلی آنکھیں دیکھ کر سنجیدگی سے کہا _
اس تبدیلی کی وجہ جان سکتا ہوں _ عمار نے دلکشی اور آہستگی سے مریم کی جھکی نگاہوں سےپوچھا __
تبدیلیاں کبھی بتا کے نہیں آتیں، بس زندگی میں ٹھوکر کا لگنا بہت ضروری ہے عمار، ورنہ ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ ہم صحیح چل رہے تھے یا غلط_ اور یہ میرےاور اللہ کے درمیان راز ہے _ اس نے آج خود اعتمادی سے کہا تھا
پر مجھے تو اپنی مریم بولتی ہی اچھی لگتی ہے، یوں خاموش خاموش نہیں _ عمار نے اس کے شال میں لپٹے سر پہ لب رکھتے ہوئے کہا تھا
کچھ دیر میں گاڑی اپنے راستے پہ گامزن تھی، جبکہ مریم اپنی سوچوں میں۔

امی ٹھیک کہتی تھیں، میں آج تک زمانے کو پرکھ نہیں سکی اور نہ ان جیسی پرکھ والی آنکھ مجھ میں کبھی ہوسکے گی، مگر آج ایک بیٹی کی ماں ہوکر کچھ حد تک سمجھ گئی ہوں ، کم ازکم میں اسے غلط راہوں پہ چلتا ہوا نہیں دیکھ سکتی ۔ اگر آج میری بیٹی کے ساتھ کچھ ہوتا تو کیا عمار مجھے اپنے ساتھ رکھتے ، جو محبت عمار کے دل میں میرےکےلیے آج ہے، کیا وہ کسی حادثے کے بعد رہتی __؟
بے شک محرم رشتے محرم ہوتے ہیں ، ہر غلط سوچ سے پاک __ آج اس نے عائزہ کے چہرہ پہ سکون دیکھا تھا۔ وسیم جب بھی آتا ، عائزہ کے چہرے کے تاثرات تن جاتے تھے، مگر اس نے اپنی لاپرواہی میں عائزہ کی پریشانی دیکھی کب تھی۔ آج عائزہ کے چہرے پہ خوشی تھی، سکون تھا
ان دونوں باپ بیٹی کی نوک جھونک دیکھ کر اس نے اللہ کا شکر ادا کرتے آسودہ سی سانس بھرتے سر سیٹ سے ٹکا لیا تھا
****