ہوم << محبت بکھیریے - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

محبت بکھیریے - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

مجھےاچھے لگتے ہیں وہ لوگ جو دوسروں کے لیے خوشیاں اور راحتیں بوتے ہیں۔ آج اس خیال کے تحت ایک عربی کہانی " أنثر الحب"۔۔ محبت بکھیریے۔۔ کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے۔۔

ایک شخص ایک بڑے شہر سے ہر روز ٹرین پر سوار ہوکر اپنے کارخانے جایا کرتا،اس کا یہ سفر تقریباً پچاس منٹوں میں مکمل ہوتا۔ راستے کےایک اسٹیشن سے ایک عمر رسیدہ خاتون رقزانہ سوار ہوتیں،اور اردگردسے قطعاً لا تعلق ہوکر، کھڑکی کی جانب بیٹھ جاتیں۔ٹرین چلتے ہی اپنا دستی بیگ کھولتیں،کچھ نکال کر وقفے وقفے سے کچھ اپنے ہاتھوں سے کھڑکی کے باہر پھینکتی جاتیں۔۔کبھی ہاتھ روک لیتی۔ اور کبھی یہ عمل دوہراتیں۔۔یہاں تک کہ بیگ میں موجود چیز ختم ہوجاتی،اور محترمہ ایک مخصوص اسٹیشن پر اتر جاتیں۔۔ان کا یہ عمل مسلسل جاری رہا،اور کوئی دن ایسا نہ آیا کہ ناغہ ہوا ہو۔
ایک دن ایک شخص نے پوچھ ہی لیا۔۔

ماذا تقذفين من النافذة؟!

یہ آپ روزانہ کھڑکی سے کیا پھینکتی ہیں؟

فأجابته السيدة: أقذف البذور!

خاتون نے کہا۔۔۔بیج

قال الرجل: بذور!! بذور ماذا؟!

وہ شخص حیران ہوکر بولا۔۔بیج! مگر کس کے اور کیوں؟؟

قالت السيدة: بذور ورود، لأني أنظر من النافذة وأرى الطريق هنا فارغة ورغبتي أن أسافر وأرى الورود ذات الألوان الجميلة طيلة الطريق، تخيل كم سيكون ذلك المنظر جميلاً!!

خاتون کہنے لگیں۔۔پھولوں کے بیج۔کیونکہ میں دیکھتی ہوں کہ راستے کا اکثر حصہ سبزے اور پھول سے خالی اور بے رونق ہوتا ہے۔۔اور میں چاہتی ہوں کہ جس ماحول میں رہوں ،وہاں ہر طرف رنگ برنگے پھول بکھرے ہوں۔
ذرا تصور تو کرو یہ منظر کتنا بھلا ہوگا۔۔!

وہ شخص بولا۔۔میں نہیں سمجھتا کہ آپ کی یہ محنت ثمربار ہوگی۔۔اپ کے پھینکے ہوئے اکثر بیج ہوا اڑا کر لے جائے گی ،یا چٹیل اور سخت جگہ پر ضائع ہو جائیں گے،یا پانی نہ ملنے کے باعث ضائع ہو جائیں گے۔
خاتون بولیں۔۔بات تو تم ٹھیک کہتے ہو۔۔
مگر
امید رکھی جاسکتی ہے کہ کوئی بیج تو نرم مٹی پر جاگرے گا،اسے بارش کا پانی بھی ملے گا،اور وہ خوبصورت و دلکش پھول چن کر زمین کا سینہ چیرے گا اور منظر کو خوشنما بناہی دے گا۔
خاتون مزید بولیں۔۔
مجھے تو بس اپنا کام کرتے ہی رہنا ہے۔۔بیج پھینکنا۔۔اور رہی بارش۔۔۔وہ تو تب بھی آے گی،اگر میں بیج نہ بھی پھینکوں۔

أدارت رأسها وقامت بعملها المعتاد.. نثر البذور.

بحث میں الجھنے کی بجائے اس خاتون نے منہ موڑا،کھڑکی میں ٹکایا،بیگ سے بیج نکالے اور ہوا میں اچھال دیے۔۔

نزل الرجل من القطار وهو يفكر أن السيدة تتمتع بالقليل من الخرف.

وہ شخص بڑھیا کو بے وقوف گردانتے ہوئے ٹرین سے اترگیا

وقت گزرتا رہا۔۔کچھ عرصے بعد وہ شخص دوبارہ اسی ٹرین پر سوار ہوا،کھڑکی کے پاس جا بیٹھا،اچانک نگاہ کھڑکی سے باہر اُٹھ گئی۔۔کیا دیکھتا ہے کہ ماحول وہی،مگر منظر پہلا سا نہیں۔۔ہر طرف بے شمار خوبصورت رنگ برنگے پھول بکھرے ہوئے لہلہا رہے اور خوشبوئیں بکھیر رہے ہیں۔
اس شخص کو وہ بزرگ خاتون یاد آگئیں، جو وہاں ہرروز پھولوں کی بیج اڑاتی تھیں،اور اب نظر نہیں آرہی تھیں۔۔

اس نے ٹکٹ چیکر سے ان کے بارے میں دریافت کیا،جو ہر مستقل مسافر کو خوب جانتا تھا۔۔ اس نے بتایا کہ وہ تو فوت ہوگئیں۔ روزانہ دیر تک کھلی کھڑکی میں بیٹھنے کے باعث تیز ہوا ان کے سینے کو جکڑ گئی،جو ان کی موت کا سبب بنا۔ وہ شخص اپنی نشست پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔۔پول تو کِھل گئے،مگر بیچاری خاتون کو کیا ملا۔ موت۔۔۔اور کیسی بدنصیبی اس کی کہ۔۔اپنے بکھیرے ہوئے بیجوں کے پھول دیکھ بھی نہ سکی۔۔

خود غرض اور خود پسند شخص کے اس افسوس اور حسرت کے لمحوں اور خیالات کا تسلسل تب ٹوٹا،جب ایک بچے کی بے ساختہ خوشیوں بھری چیخیں بلند ہوئیں،جو اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے کھڑکی سے باہر کے ،سرسبز وشاداب ،پھولوں سے بھرے راستوں اور قطعات ارضی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
تب اسے اندازہ ہوا کہ ۔۔خاتون نے دراصل کیا کیا تھا۔۔وہ صرف اپنے لیے نہیں جی،بلکہ اپنے ایک معمولی ،مگر شعوری عمل سے انے والے زمانے اور نسلوں کو معطر کرگئی۔۔

واقعی وہ بہت عظیم،مخلص،بے لوث اور دور اندیش خاتون تھی،جس نے اپنے بجائےمستقبل کا سوچا۔اپنی بساط بھر ،اپنے حصے کا کام کیا،اور اپنی ائندہ نسل کے لیئے محبت ،خوشبو اور رنگوں کا تحفہ پیش کیا۔
گرچہ خود ان سے محروم رہی۔
تو مجھے وہی لوگ اچھے لگتے ہیں۔۔جو۔۔ معاشرے میں شکووں اور شکایتوں کے انبار لگانے کی بجائے۔۔روشنی کا ایک دیا ہی جلا دیں،محبت ،خوشبو،اور رنگوں کے چند بیج ہی بکھیر دیں۔۔۔

کانٹے بکھیرنے،الجھنیں اور مسائل پیدا کرنے اور روکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے ۔۔۔
کیا میں ۔۔اور۔۔آپ ۔۔بھی ایسا ہی سوچتے اور کرتے ہیں۔۔!!

Comments

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment