ہوم << منصوبہ بندی کیسے کریں؟ قاسم علی شاہ

منصوبہ بندی کیسے کریں؟ قاسم علی شاہ

وہ چاروں ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے۔ ایک دن بعد ان کا ایک اہم ٹیسٹ ہونے والا تھا لیکن انھیں فکر نہیں تھی۔ انھوں نے رات کو اپنے کمرے میں گپ شپ کی محفل جمائی اور خوب ہلا گلا کیا۔ اگلے روز ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے وہ اپنے نگران کے پاس گئے، چاروں بہت تھکے لگ رہے تھے، ان کے کپڑوں پر مٹی اور ہاتھوں پر گریس لگی تھی اور جسم سے پسینے کی بو آرہی تھی۔ وہ کہنے لگے، سر! گذشتہ روز ہم چاروں ایک شادی کی تقریب میں گئے تھے۔ وہاں بہت دیر ہوگئی اور جب ہم واپس آنے لگے توکچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ قریب کوئی دکان نہیں تھی جہاں ہم پنکچر لگواتے، چنانچہ ہم گاڑی کو دھکیلتے ہوئے آئے اور ہاسٹل پہنچنے کے بعد اس قدر تھک گئے تھے کہ بستر پر لیٹتے ہی سوگئے، اس وجہ سے ہم تیاری نہیں کرپائے، لہٰذا آپ ہمارے ساتھ کچھ مہربانی کریں۔ کہانی سننے کے بعد استاد کہنے لگا، کوئی بات نہیں، میں آپ کا امتحان تین دن بعد لے لیتا ہوں، تب تک آپ تیاری کریں۔ چاروں خوش ہوگئے کہ چلو آج تو بلا ٹل گئی۔ تین دن انھوں نے تیاری کی اور چوتھے روز وہ استاد کے پاس پہنچے۔ استاد نے انھیں سوالیہ پرچہ تھمانے سے پہلے کہا، اس پرچے میں صرف دو سوال ہیں، ایک سوال کے 2 نمبر ہیں جب کہ دوسرے سوال کے 98 نمبر ہیں۔ طلبہ یہ سن کر حیران رہ گئے استاد دوبارہ کہنے لگے، تم سب نے الگ الگ کمرے میں بیٹھ کریہ پرچہ حل کرنا ہے اور اس کے ساتھ ہی استاد نے انھیں الگ الگ کمروں میں بھیجا۔ جب طلبہ نے سوالیہ پرچہ کھول کر دیکھا تو پہلا سوال تھا، ”آپ کا نام کیا ہے؟“ دوسرے سوال میں پوچھا گیا تھا، ”گاڑی کا کون سا ٹائر پنکچر ہوا تھا؟“ سوال دیکھ کر وہ استادکی چال سمجھ گئے اور کسی نہ کسی طرح پرچہ حل کیا۔ جب استاد کے سامنے جوابی پرچہ آیا تو چاروں کے جوابات مختلف تھے۔ ایک طالب علم نے اگلا دایاں ٹائر لکھا تھا، دوسرے نے بایاں، تیسرے نے پچھلا بایاں اور چوتھے نے پچھلا دایاں، اور یوں ان کی چوری پکڑی گئی۔
یہ واقعہ آئی آئی ٹی ممبئی کے طلبہ کا ہے۔اس کہانی میں بہ ظاہر طلبہ اپنی سستی چھپانے کے لیے استاد کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اس میں ایک گہرا سبق بھی ہے اور وہ یہ کہ جب بھی کوئی اہم کام منصوبہ بندی کے بغیر کیا جائے تو نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔
نیا سال شروع ہوچکا ہے اور آپ نے اپنے لیے کچھ اہداف مقرر کیے ہوں گے یا اس بارے میں سوچ رہے ہوں گے، چنانچہ اس تناظر میں ہم آج منصوبہ بندی کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے اور منصوبہ بندی کے بنیادی اصولوں سے آپ کو متعارف کرائیں گے۔
اہداف (Goals) کی دوقسمیں ہیں۔ طویل المیعاد (Long term) اور مختصر المیعاد(Short term)
طویل المیعاد ہدف وہ ہوتا ہے جو پانچ یا دس سال پر مشتمل ہو، جب کہ ایک دن، ہفتے یا مہینے پر مشتمل ہدف کو مختصر المیعاد کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور اصطلاح Mid term goal کی بھی استعمال کی جاتی ہے، اس کا دورانیہ سال سے دو سال تک ہوتاہے۔ جدید مفروضے کے مطابق، انسان جس ہدف کے لیے محنت کرتا ہے وہ اسے پانچ سال میں حاصل کرلیتا ہے۔
طویل المیعاد اہداف بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کاغذ قلم لے کر ایک سیدھی لائن کھینچیں۔ لائن کے آغاز پر ”پیدائش“ اور اختتام پر ”وفات“ لکھیں۔ یوں سمجھیں کہ یہ لائن آپ کی پوری زندگی ہے۔ اس لمبی لائن پر ایک جگہ نشان لگائیں اور فرض کریں کہ اپنی زندگی میں آج آپ یہاں پر ہیں، اس کے بعد دس عدد نقطے آگے کی طرف لگائیں، یہ آپ کی زندگی کے آنے والے دس سال ہیں۔ اس کے بعد اگلے صفحے پر جائیں اور آج سے دس سال بعد آپ جو بننا چاہتے ہیں، وہ تمام اہداف لکھیں۔
یاد رکھیں کہ خواب یا خواہش ایک نئی جنم لینے والی چیز ہے جو آپ کی طلب اور تڑپ کے مطابق وجود میں آتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے گویا کسی انسان کا ہاتھ ریت میں چھپا ہو اور وہ آہستہ آہستہ اوپر کی طرف اٹھے اور بالکل نمایاں ہوجائے، اسے انگریزی میں Manifest یعنی آشکار ہونا کہتے ہیں۔ Manifest کے کچھ بنیادی اصول ہیں، جن کے مطابق خیال کو وجود ملتا ہے، اور انھی کو آپ اپنے خواب اور خواہش سے بھی جوڑ دیں۔
پہلا اصول
اشیا پہلے ذہن میں بنتی ہیں اس کے بعد وجود میں آتی ہیں۔ جو چیز انسان کے ذہن میں نہیں وہ حقیقت کا روپ بھی نہیں دھار سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دس سال بعد آپ نے جو بننا ہے اسے ابھی سے ذہن میں لائیں۔ قانون کشش بھی یہی کہتا ہے کہ جو چیز آ پ کے ذہن میں ہوگی وہی آپ کی زندگی میں واقع ہوگی۔
دوسرا اصول
اپنے اندر”خود یقینی“کی صلاحیت پیدا کریں اور اپنے بنائے گئے تصور پر یقین ضرور کریں۔ جو انسان اپنے خیالا ت پر یقین نہیں رکھتا تو وہ انھیں حاصل بھی نہیں کرسکتا۔
تیسرا اصول
جو بننا ہے اسے ابھی سے محسوس کریں۔ اس قاعدے کو As if principle کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو بننا ہے اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرلیں، کیوں کہ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو ویسا بن بھی نہیں پائیں گے۔ اس کیفیت کے طاری ہونے پر آپ میں جو سرور اور مستی آئے گی وہی اس چیز کو آپ کی طرف کھینچے گی اور آپ وہی بن جائیں گے جو آ پ چاہتے ہیں۔
چوتھا اصول
ذہن میں یہ خیال نہیں لانا کہ میں نے جو سوچا ہے وہ کیسے وجود میں آئے گا کیوں کہ یہ قانونِ قدرت کی خلاف ورزی ہے۔ چیزوں کو وجود دینا، اللہ کا کام ہے اور وہ اپنے کاموں کو خوب جانتا ہے۔ وہ ہمارے ارادے، عزم اور گمان کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق معاملہ کرتا ہے۔ اس اصول میں جب بھی ”کیسے“ کا لفظ آتا ہے تو یہ اصول کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
جب لوگ اپنے لیے اہداف بناتے ہیں تو عام طور پر وہ ا یک غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ پیسہ، مکان اور گاڑی کے حصول کو اپنا ہدف بنالیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کوئی ہدف نہیں ہے کیوں کہ یہ چیزیں قابلیت کی بنیاد پر ملتی ہیں۔ آپ اگر اپنے اندر کمال پیدا کرلیں تو یہ سب کچھ آپ کو مل جائے گا۔ لہٰذا اپنی منصوبہ بندی اس مقصد کے لیے کریں کہ میں نے اپنے اندر فلاں فلاں خوبیاں پیدا کرنی ہیں اور ان کے مطابق زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آپ جو ہدف پانا چاہتے ہیں اس کے لیے آپ کے پاس کوئی انسپائریشن ہونی چاہیے۔ آپ کے سامنے ایسی مثال ہونی چاہیے جسے دیکھ کر آپ یہ خواہش کریں کہ کاش میں بھی اس طرح بن جاؤں۔ اس کی ایک مثال سورہ فاتحہ کی ہے جس میں ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔
دوسری چیز یہ ہے کہ آپ جو ہدف پانا چاہتے ہیں آج ہی سے اپنی شخصیت اس کے مطابق بنانا شروع کریں۔ اگر آپ استاد بننا چاہتے ہیں تو اپنی شخصیت، عادات اور خاص طور پر لباس استاد کی طرح بنائیں۔
اگر آپ تربیت کار (Trainer) بننا چاہتے ہیں تو اپنی بات چیت بہتر بنائیں، اپنا علم بڑھائیں اور خندہ پیشانی کے ساتھ لوگوں سے ملنا شروع کریں۔
اگر آپ لکھاری بننا چاہتے ہیں تو کتابوں کے ساتھ وقت گزارنا شرو ع کریں اور مختلف ادبی و علمی نشستوں میں شرکت کریں۔
طویل المیعاد ہدف حاصل کرنے والوں کی خوبیاں
جو لوگ طویل المیعاد اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں اپنے اندر درج ذیل خوبیاں پیدا کرنی چاہییں۔
1: نظر انداز کرنا
بے مقصد باتوں اور کاموں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں اور تمام غیر مفید کاموں کو چھوڑ دیں۔
2: درگزر
ہمیشہ درگزر سے کام لیں اور اپنے مقصد کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں۔ جب ہم دوسروں کو معاف کرتے ہیں تو نہ صرف ہمارے تعلقات اچھے ہوتے ہیں بلکہ اس سے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔
3: اعلیٰ ظرفی
دل بڑا کریں، کیوں کہ جس کا دل کشادہ ہوتا ہے وہ ہر ایک کو قبول کرتا ہے، وہ ہر ایک کو خوش آمدید کہتا ہے اور یہی خوبی اس کو منزل پر پہنچا دیتی ہے۔
نیا سال، نئی عادات
سٹیفن گوئس کہتا ہے:
”بہت سے لوگ اچانک تبدیل ہونا چاہتے ہیں جب کہ یہ چیز فطرت کے خلاف ہے۔“
ٍٍبہت سے لوگ کہتے ہیں کہ”کل سے میں ایک گھنٹہ ورزش کروں گا“ یا”میں کل سے کتاب پڑھنا شروع کروں گا۔“یاد رکھیں جب بھی آپ کسی کام کو اچانک بڑی سطح پر شروع کریں گے وہ آپ سے کبھی نہیں ہوسکے گا۔ سٹیفن اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ انسان کو Mini habit اختیار کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ قدم بہ قدم کوئی کام کرنا، مثال کے طور پر آپ نے کتاب پڑھنی ہے تو ایک پیراگراف یا ایک صفحہ پڑھ لیں مگر شرط یہ ہے کہ یہ کام مستقل مزاجی کے ساتھ ہو اور روزانہ کی بنیاد پر ہو، مستقل مزاجی آپ کو توانائی دے گی جس سے آپ کے لیے اس کام کو بڑھانا آسان ہوجائے گا۔
1: روزانہ کی بنیاد پر سیکھنا
نئی چیزیں ضرور سیکھیں، جو لوگ شعبہ تدریس یا تربیت سے وابستہ ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ مطالعہ کریں یا یوٹیوب پر کسی کتاب کا خلاصہ سنیں اور ان کے نوٹس بنائیں۔
2: کامیاب لوگو ں کی فہرست
اپنی منصوبہ بندی میں ان کام یاب لوگوں کے نام ضرور شامل کریں جن کی طرح آپ بننا چاہتے ہیں۔ ان کے حالاتِ زندگی پڑھیں اور ان کی اچھی عادات اپنانے کی کوشش کریں۔
3: شخصی تعمیر
روزانہ کی بنیاد پر خود کو بہتر بنائیں۔ اپنی شخصیت کے کمزور پہلوؤں پر محنت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی کے کاموں مثلاً کھانا کھانا، مہمان کو الوداع کہنا، شکریہ ادا کرنا، گاڑی پارک کرنا، جوتے پالش کرنا، کپڑے پیک کرنا وغیرہ بہتر طریقے کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں۔
4: مددکرنا
روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کی مدد کریں۔ مستحق افراد کو ڈھونڈیں کیوں کہ بہت سے لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ہماری مدد کرے۔ اگر آپ کسی کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم اس کی اخلاقی مدد ضرور کریں۔
5: اپنی غلطیاں تسلیم کریں
اپنی غلطیاں تسلیم کرنا سیکھیں۔ اپنا ناقد بننا بہت مشکل کام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خوش ہونا ہے تو تعریف سنو اور بہتر ہونا ہے تو تنقید سنو! جو بھی انسان اپنی غلطیاں تسلیم کرتا ہے اس کی ترقی شروع ہو جاتی ہے۔
6: آغاز
اپنی زندگی میں آغاز کی عادت ڈالیں۔ بہت سے لوگ کوئی کتاب یا لیکچر سن کر ارادہ کرلیتے ہیں کہ ہم فلاں کام شروع کریں گے مگر کرتے نہیں۔ آپ اپنی قوتِ فیصلہ مضبوط کرکے’نیا قدم‘ اٹھانا شروع کریں۔ انسان ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ حالات سازگار ہوں گے تو میں یہ کام شروع کروں گا حالانکہ حالات کبھی سازگار نہیں ہوتے۔ جو بھی کرنا ہے ابھی کریں۔
اپنی منصوبہ بندی میں یہ سوال بھی لکھیں!
مجھے کن کن لوگوں، عادات، کام، خیالات اور یقین کو اپنی زندگی سے نکالنا چاہیے؟
اگر آپ کو محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کی زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آپ کا وقت ضائع کرنے کا باعث بن رہی ہیں تو انھیں چھوڑدیں۔
مندرجہ ذیل چیزوں کو اپنی زندگی میں شامل کریں:
مندرجہ ذیل چیزوں کو اپنی زندگی میں شامل کریں:
i: ایسا استاد ڈھونڈیں جو آپ کی زندگی میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی لائے۔
ii: ایسی کتابیں پڑھیں جو آپ کی ذہنی اور فکری سطح کو بلند کریں اور آپ کے علم میں اضافہ کر دیں۔
iii: ایسی مہارتیں سیکھیں جن کی بدولت آپ اپنی منزل تک جلدی پہنچ سکیں۔
iv: نئی جگہوں اور مقامات پر جاکر نئے تجربات و مشاہدات کریں۔