سیاستدان جو کرتے ہیں، کرتے رہیں گے، لیکن ان کےلیے اسلامی قانون کے اصول تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ جو لوگ عذر خواہی کررہے ہیں، ان کو تو نظرانداز کرلیں، لیکن جو لوگ شرعی جواز کےلیے ادھر ادھر سے چیزیں اکٹھی کررہے ہیں، ان سے دو دو ہاتھ کرنے ضروری ہیں۔ اس لیےچند اصولی گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ مرد و عورت کے ایک دوسرے کو دیکھنے اور چھونے کے متعلق شرعی احکام کو فقہاے کرام چار مختلف زاویوں سے بیان کرتے ہیں:
الف۔ مرد کا مرد کو دیکھنا/چھونا؛
ب۔ عورت کا عورت کو دیکھنا/چھونا؛
ج۔ عورت کا مرد کو دیکھنا/چھونا؛ اور
د۔ مرد کا عورت کو دیکھنا/چھونا۔
چونکہ بات اس آخری قسم پر چل رہی ہے، اس لیے پہلی تین قسموں کو نظر انداز کرکے اس قسم کی طرف آئیے۔
اس قسم کو فقہاے کرام چار ذیلی قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:
ھ۔ مرد کا اپنی بیوی/کنیز کو دیکھنا/چھونا؛
و۔ مرد کا اپنی ان رشتہ دار خواتین کو دیکھنا/چھونا جن کے ساتھ نکاح حرام ہے؛
ز۔ مرد کا کسی اور کی کنیز کو دیکھنا/چھونا؛ اور
ح۔ مرد کا کسی آزاد اجنبی (نامحرم) عورت کو دیکھنا/چھونا۔
بات اس آخری قسم کی ہورہی ہے۔ اس لیے اس کے متعلق بنیادی اصول بیان کیے جاتے ہیں۔
2۔ بعض اوقات کسی نص (آیت/حدیث) میں کوئی فعل مذکور ہوتا ہے؛ اس فعل کے حکم کا اطلاق صرف اسی فعل پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے مساوی یا اس سے اعلی درجے کے فعل پر بھی ہوتا ہے، لیکن اس سے نچلے درجے کے حکم پر نہیں ہوتا۔ مثلاً قرآن کریم نے کنیز کےلیے سزا نصف کی ہے؛ غلام کےلیے بھی یہی حکم ہے کیونکہ کنیز اور غلام اس معاملے میں بالکل برابر کی سطح پر ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم نے عورتوں پر زنا کے الزام پر اسی کوڑوں کی سزا سنائی ہے؛ لیکن یہی سزا کسی مرد پر ایسے الزام کی صورت میں بھی ہے کیونکہ اس حکم کےلیے مرد و عورت مساوی سطح پر ہیں۔ یہ تو مساوی معنی پر دلالت ہوئی۔ اعلی درجے کے مفہوم (higher order meaning) پر دلالت کی مثال یہ ہے کہ قرآن کریم نے والدین کو ’اف‘ تک کہنے کی ممانعت کی ہے؛ تو مار پیٹ تو بدرجۂ اولی ناجائز ہے۔ لفظ کی اپنے مساوی یا اعلی درجے کے مفہوم پر دلالت کو اصول فقہ کی اصطلاح میں ”دلالت النص“ کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ دلالت النص کا اطلاق نچلے درجے کے مفہوم (lower order meaning) پر نہیں ہوتا۔مثلاً فقہاے کرام نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں نے معاہدے میں یہ طے کیا کہ غیر مسلموں کے علاقے سے گزرتے ہوئے مسلمان ان کی فصلوں کو آگ نہیں لگائیں گے، تو وہ انھیں پانی میں ڈبو بھی نہیں سکیں گے (مساوی مفہوم)، لیکن اس میں سے کچھ کھا سکیں گے (نچلے درجے کا مفہوم)؛ البتہ معاہدے میں کھانا ممنوع کیا ہو، تو نہ اسے آگ لگاسکیں گے، نہ ڈبو سکیں گے (اعلی درجے کا مفہوم)۔
مرد کسی آزاد اجنبی (نامحرم) عورت کے بدن کے کس حصے کو دیکھ/چھو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ”سترِ عورت“ کی حدود ذکر کی جاتی ہیں۔ ستر کا مطلب چھپانا ہے، عورت کا مطلب بدن کا وہ حصہ جسے چھپانا واجب ہے۔ فقہاے احناف کی راے یہ ہے کہ مرد کسی اجنبی عورت کے بدن کا چہرہ، (کلائیوں تک) ہاتھ اور (ٹخنوں تک) پیر دیکھ سکتا ہے۔ باقی سارے جسم پر ستر عورت کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔
اب دلالت النص کے اصول کا اطلاق دیکھنے اور چھونے پر کریں۔ ان دونوں میں زیادہ سنگین کون سا فعل ہے؟ ادنی تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ چھونا زیادہ سنگین فعل ہے۔ اس لیے بدن کے جس حصے کو چھو سکتے ہیں، اسے دیکھ بھی سکتے ہیں؛ لیکن جس حصے کو دیکھنا جائز ہو، ضروری نہیں کہ اسے چھونا بھی جائز ہو۔اس لیے مرد کسی اجنبی عورت کا ہاتھ دیکھ تو سکتا ہے لیکن چھو نہیں سکتا۔
3۔ چونکہ اسلام کی امتیازی صفت حیا ہے اور اسلام نے حیا و عفت کی حفاظت پر زور دیا ہے، اس لیے دیکھنے اور چھونے کے معاملے میں ایک اہم اصول ’احتیاط‘ کا بھی ہے۔ چنانچہ جہاں برے خیالات آنے کا احتمال ہو، وہاں اجتناب ضروری ہوجاتا ہے۔ اس اصول کا اطلاق ان رشتہ داروں پر بھی ہوتا ہے جن کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ مثلاً بیٹی کا باپ کے سامنے، یا بہن کا بھائی کے سامنے، یا ماں کا بیٹے کے سامنے، سر ڈھانپنا یا چادر لینا ضروری نہیں ہے۔ ماں، بیٹی یا بہن کو سواری پر چڑھاتے ہوئے یا اتارتے ہوئے ان کی کمر پر ہاتھ پڑ سکتا ہے۔ان رشتہ داروں کے ساتھ معانقہ بھی جائز ہے، لیکن اگر شیطانی خیالات آئیں، یا ان کا امکان ہو، تو پھر گریز لازم ہے۔
یہ تو محرم رشتہ داروں کا معاملہ ہوا۔ نامحرم عورتوں کے معاملے میں تو احتیاط کا پہلو زیادہ غالب ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے بدن کے جن حصوں کو دیکھنا جائز ہے (چہرہ، ہاتھ، پیر) انھیں چھونا ویسے بھی ناجائز ہے، اور احتیاط کے اصول پر اس سے گریز مزید ضروری ہوجاتا ہے۔
4۔ عام حالات کےلیے جو احکام ہیں، ان سے بعض استثنائی صورتوں میں جزوی اور وقتی انحراف کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن یہاں دو اصول مدِّ نظر رکھنا ضروری ہے:
الف۔ عام حالات کے حکم سے استثنا جن قیود اور حدود میں دی گئی ہے، ان قیود اور حدود کی پابندی بھی ضروری ہوتی ہے؛ اور
ب۔ استثنا کو استثنا ہی رہنا چاہیے؛ اس پر قیاس کرکے مزید استثناءات پیدا نہیں کی جاسکتیں، نہ ہی اس استثنا کا دائرہ مزید وسیع کیا جاسکتا ہے۔
چنانچہ علاج کی غرض سے ڈاکٹر کے سامنے بدن کا وہ حصہ کھولنا جائز ہوجاتا ہے جسے عام حالات میں نامحرم مرد کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس حصے کو سب کے سامنے کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اسی طرح گھر میں آگ لگی ہے، تو لوگوں کی جان بچانے کےلیے اجنبی نامحرم مرد بھی گھر میں گھس کر خواتین کو بچانے اور گھر سے نکالنے کی کوشش کرسکتے ہیں، بلکہ بعض اوقات یہ ان پر واجب ہوجاتا ہے، لیکن اصل حکم بہرحال برقرار رہے گا۔
اسی اصول پر نکاح کی عمر سے گزر جانے والی بوڑھی خواتین کو قرآن کریم نے چادر نہ لینے کی رخصت تو دی ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ بناؤ سنگھار کرکے لوگوں کو لبھانے کی کوشش نہ کریں۔ ایسی عمر کی خواتین کےلیے دیکھنے اور چھونے کے احکام سے استثنا اسی اصول پراور انھی قیود کے ساتھ ہے کہ نہ خود ان کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو،نہ وہ ان کو فتنے میں مبتلا کریں جو انھیں دیکھتے یا چھوتے ہیں۔
اسی اصول کا اطلاق بہت کم عمر بچی پر بھی ہوتا ہے۔ کیا آج کل خود لبرلز بھی سکولوں میں بچوں اور بچیوں کو ’گڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ میں فرق سکھانے کی بات نہیں کرتے؟
آخری بات:
ان چار اصولوں کا اطلاق موجودہ تنازعے پر کیجیے، تو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ عذر خواہوں کی عذر خواہی میں کتنا وزن ہے اور جو شرعی جواز تراش رہے ہیں، وہ کتنا بڑا ظلم کررہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے