ہوم << شاعری جزویست از پیغمبری - ادریس آزاد

شاعری جزویست از پیغمبری - ادریس آزاد

*

تصورمیں لائیں کہ ایک ملک ہے، جہاں کے لوگ بڑے فعّال ہیں جو ہردم متحرک رہتےہیں۔ وہ بچوں کی طرح جذباتی ہوکر بڑے بڑے منصوبوں میں حصہ لیتے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دیس کی تعمیروترقی کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہاں سائنسدان بھی ہیں اور انجنیئرز بھی۔ وہاں کا ہرنوجوان کچھ بنناچاہتاہے اور اپنےکام سے دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کرنا چاہتاہے۔ وہاں لوگ باپ دادا کے نام کی نمائش کرنے کی بجائے اپنی ذاتی محنت سے اپنی شناخت بناتے ہیں۔ وہاں کے لوگ کمفرٹ زون میں رہنے کو شرم اور بے عزتی کی بات سمجھتے ہیں۔ اس قوم پر کسی غیرکا کوئی قرض نہیں ہے۔ وہ لوگ سہاروں اوربیرونی امدادوں کے عادی نہیں ہیں۔ وہ لوگ خوداعتمادی سے معمور، محنت مشقت کے شیدا، ہنس کر مشکلات اورمصائب کا مقابلہ کرنے والے اور زندگی کے ہرطوفان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجانے والے ہیں۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں ایک بڑا شاعر پیدا ہوجاتاہے۔ ایک ایسا شاعر جس کے کلام میں لذت(Taste) ہے۔ جس کا کلام من کو بھاتاہے۔ جس کےکاٹ دار مصرعے لوگوں کی زبان پر جلد چڑھ جاتے ہیں۔ وہ لوگوں کا پسندیدہ شاعر بنتا چلا جاتاہے۔ یعنی وہ ایک بڑا اور مشہورشاعر ہے۔ ہرکوئی اسے اس کے کلام پر داد دیتاہے ۔ ہر کوئی اس کی پیروی کرنا چاہتاہے۔
تاہم اس کی شاعری جو کہ بہت خوبصورت اوردل موہ لینے والی ہے، مجموعی طورپرایک ایسے تاثر کی حامل ہے، جس سے سننے والے کے دل میں دنیا کی مشکلات سے نفرت پیداہونے لگتی ہے۔ وہ جب غریبوں کی بات کرتاہے تو بلاشبہ اس کے کھینچے گئے منظرپرآنسو نکل آتے ہیں کیونکہ وہ اچھا شاعر ہے، لیکن غربت سے ضد، چِڑ اورنفرت سی بھی پیدا ہونے لگتی ہے۔وہ غریبوں کی زندگیوں کا ایسا نقشہ کھینچتاہے جیسے دنیا میں ان سے زیادہ ارذل المخلوقات کوئی نہیں۔ وہ کہتاہے کہ فاقہ کش کی بیٹی بدصورت ہوتی ہے۔ وہ کہتاہے کہ مفلسی انسان کی حسِّ لطافت کو مٹادیتی ہے اوربھوک کبھی آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ کیونکہ غربت کی وجہ سے انسان غیرمہذب ہوجاتاہے۔ وہ کہتاہے محنت کش، معاشرے کا وہ پِسا ہوا طبقہ ہیں کہ اگر انہوں نے خود اٹھ کر طبقۂ اُمرأ کاگلہ نہ گھونٹ دیا تو وہ ہمیشہ اسی طرح کمّی کمین بن کر ہی رہیں گے۔ وہ کہتا ہے،

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے

(فیض)
صرف یہی نہیں، وہ شاعر ہے اور اچھا شاعر ہے، اس لیے جب وہ فطرت کی منظر کشی کرتاہے تو ایک سماں باندھ دیتاہے۔ کبھی وہ خواہش کا اظہار کرتاہے کہ شہروں کی آلودگی اور شور سے دُور، پھولوں اورکلیوں سے مہکے ہوئے کسی جنگل میں، کسی جھیل کے کنارے اس کا گھر ہو جہاں وہ اپنے حسین محبوب کے ساتھ اس حسین جھیل کے کنارے، اوس میں بھیگی ہوئی گھاس پر چل رہا ہو۔ اُسے اپنی خیالی دنیا کا ہر منظر رنگ اورنُور میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتاہے۔ وہ کہتا ہے،

شام کا رنگ ہو گہرا تو ستارے جاگیں
رات جو آئے تو ریشم سے اندھیرے لائے
چاند جب جھیل کے پانی میں نہانے اُترے
میری بانہوں میں تجھے دیکھ کہ شرما جائے

(غیاث متین)
وہ شاعر ہے اور ایک اچھا شاعر ہے۔ اس لیے وہ اچھے یا بُرے ہر منظرکو ایسی خوبی سے بیان کرتاہے کہ سننے والوں کے دل اس کے مصرعوں کے ساتھ دھڑکنے اورپھڑکنے لگتے ہیں۔ وہ اتنا بڑا اور اتنا مشہور ہے کہ اُس سے چھوٹے، اور کم مشہورشاعر اُس جیسا بننے کی تمنا کرتےہیں۔ وہ اس کے رنگ میں شعر کہنے لگتے ہیں۔ وہ بھی زندگی کی مشکلات سے نفرت اورخیالی دنیا کے دلدادہ بن جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس معاشرے میں جنم لینے والی تمام شاعری، غزلوں، نظموں، گیتوں، دوہوں اور ماہیوں تک میں اس کے خیالات اوراحساسات کا اثر ظاہر ہونے لگتاہے۔
پھر یوں ہوتاہے کہ وہ لوگ جو محنت کش اورفعّال تھے، وہ بھی کبھی کبھار دل میں سوچنے لگتے ہیں کہ کاش ہماری زندگی کی محنت بھی کچھ کم ہوجاتی۔ کاش ہم بھی مشینوں کی مدد سے سہولتیں خریدسکتے۔ لوگ بھی خیالی دنیا کے سپنے دیکھنے لگتے ہیں۔ دھیرے دھیرے اس معاشرے میں کمفرٹ زون کا رجحان بڑھتاہے اور مشقت کا رجحان کم ہوتاہے۔ مزدوری باعثِ شرم و ندامت بن جاتی ہے۔ غربت تہذیب سے عاری سمجھی جانے لگتی ہے۔ مہذب صرف اسی کو سمجھا جاتاہے جس کے پاس دھن دولت ہو، پہننے کواچھا لباس ہو، گاڑی ہو، خوبصورت گھر ہو اورزندگی میں عیش و آرام ہو۔
دس بیس سال میں اس قوم کی ذہنیت بدل جاتی ہے۔ وہ قوم جومحنت مشقت پہ ناز کرتی تھی، وہ اب محنت سے کتراتی اور جان چراتی ہے۔ شعرأ کے اشعارپڑھ پڑھ کر لوگ ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ زندگی دراصل بے مقصدچیز ہے۔ اس میں کسی اعلیٰ مقصد کا نعرہ بالکل ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ آسمانوں پر اڑنے کی باتیں کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ آسمانوں میں کچھ نہیں، فقط ایک کالی رات اور اندھیراہے۔ خلاؤں میں راکٹ بھیجنے کی بجائے زمین پر موجود انسانیت کے دکھ درد کو کم کرنے کی سعی کی جانی چاہیے۔ ہم آسمان پر نہیں، زمین پر رہتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو پہلے آسان بنائیں۔ یہ عذاب، یہ مِزری، یہ غم و اندوہ کب تک ہم اٹھائیں گے۔ ہمیں بھی سُکھ اور آرام کی طلب ہے۔ ہم بھی اچھا کھانا، اچھا پینا اور اچھا پہننا چاہتے ہیں۔ ہمیں بڑے بڑے تصوراتی نعروں میں مت الجھایا جائے۔ ہم حقیقت پسند ہیں، ہمیں خواب مت دکھاؤ! لوگ بھوکے ہیں، عزتیں بیچ رہے ہیں۔ مزدور پِس رہاہے۔ وہ محنت کی چکی میں گھِس گھِس کر گھٹیا ہوچکاہے۔ وہ مَیلاکچیلا اور غلیظ ہے۔
اب وہ شاعر لوگوں کے دلوں میں اُتر چکاہے۔ اب معاشرہ تبدیل ہوچکاہے۔ اس شاعر کی شاعری اب فضاؤں میں گونج رہی ہے۔

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

(فیض)
کچھ ہی وقت میں تمام لوگ اس شاعر کی طرح سوچنے لگ جاتے ہیں۔ وہ بھی اب محبت کو عیاشی اور عشق کو حماقت تصور کرتے ہیں۔ اس ملک کی تاریخ آگے بڑھتی ہے۔ وقت مزید گزرتاہے۔ اسی طرز کے کچھ اورشعرأ پیدا ہوجاتے ہیں، جو پہلوں سے بھی زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ جنہوں نے شاعری کے گزشتہ ادوار سے نئی نئی اصناف، تراکیب،سلیقے اور اسلوب سیکھ لیے ہیں۔ وہ اب غربت کو صرف کوستے ہی نہیں بلکہ اس کی موجودگی میں پیدا ہوجانے والی کم مائیگی اور بے وُقعتی کے فلسفے بھی بیان کرنے لگتے ہیں۔

وجود اِک جبر ہے میرا عدم اوقات ہے میری
جو میری ذات ہرگز بھی نہیں وہ ذات ہے میری
میں روزوشب نگارش کوش خود اپنے عدم کا ہوں
میں اپنا آدمی ہرگز نہیں لوح و قلم کا ہے

(جون ایلیا)
ذرا سوچیے! وہ معاشرہ لگ بھگ چالیس سال میں کہاں سے کہاں پہنچ جائےگا؟ ذرا اِس مضمون کو پڑھنا چھوڑ کر، ایک دو پل کے لیے سوچیے، دیانتداری کے ساتھ۔
الغرض، کہنا فقط یہ تھا کہ شاعری بڑی اثر انگیز واردات ہے۔ یونہی تو مولانا روم نے نہیں کہاتھا کہ شاعری جزویست از پیغمبری۔ اچھے شاعر کی بات بڑی تیزی سے سماج پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ کسی جادُو کے منتر کی طرح۔ لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ اتنی معمولی سی چیز یعنی ایک شعر بھی، کیا انہیں یا اُن کی آنے والی نسلوں کو بدل سکتاہے؟ حالانکہ شاعری کسی سائنسدان کی ایجاد سے کہیں زیادہ اثرانگیز چیز ہے۔ سائنسی ایجادات سے سوچ کے زاویے، اس طرح شدت کے ساتھ نہیں بدلتے، جس شدت کے ساتھ فنونِ لطیفہ کے ذریعے تخلیق ہونے والے بیانیے سے بدلتے ہیں۔
قرانِ کریم نے شاید اسی لیے کہاتھا کہ، وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَﭤ(224)اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ(225)وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ(226) ترجمہ: اور شاعروں کی پیرو ی توگمراہ لوگ کرتے ہیں ۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۔
تو کیا کوئی ایسے شعرأ بھی ممکن ہیں جو موت کا نہیں بلکہ زندگی کا پیغام لاتے ہوں؟ ہاں، لیکن وہ فی الحقیقت شعرأ سے بڑھ کر مخلصین لہ الدین کے منصبوں پر فائز عظیم لوگ ہوتے ہیں۔ اوربلاشبہ اقبال اردو کے ایسے تمام شعرأ میں سب سے عظیم ہیں۔ شاعری یا فنونِ لطیفہ کے بارے میں اقبال کے اپنے خیالات یہ ہیں کہ،

وہ نغمہ سردیِ خونِ غزل سرا کی دلیل
کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تابناک نہیں
نوا کو کرتاہے موجِ نفس سے زہر آلود
وہ نَے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں
پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں
کسی چمن میں گریبانِ لالہ چاک نہیں

ایسے شعرأ کو صاحبِ قران نے ناپسند نہیں کیا۔ بلکہ قبیلہ بنو عیس کا ایک شاعر ’’عنترہ‘‘ ایسا ہی شاعر تھا تو رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا،
’’کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اُس کا شوق ِ ملاقات نہیں پیدا کیا لیکن میں سچ کہتاہوں کہ اس شعر کے نگارندہ کے دیکھنے کو میرا دل بے اختیار چاہتاہے‘‘
اس کے برعکس امرأ القیس کو رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اچھا شاعر بلکہ تمام شاعروں کا سردار بھی کہا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ،
’’اشعرالشعرا و قائدھم الی النار‘‘، یعنی وہ شاعروں کا سرتاج تو ہے لیکن جہنم کے مرحلے میں ان کا سپہ سالار بھی ہے۔
اسی ایک روایت اور اوپر دی گئی قران کی آیت میں ہی دیکھ لیجیے۔ کتنے واضح الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ ایک شاعر اپنے ساتھ باقی سب شاعروں کو بھی جہنم میں لے جاسکتاہے اور یہ کہ جو لوگ (ایسے) شعرا کی پیروی کرتے ہیں وہ گمراہ بھی ہوجاتے ہیں۔ گویا ایک شاعر پورے سماج کو تباہ و برباد بھی کرسکتاہے اور شادوآباد بھی۔الغرض ایک سائنسدان کے مقابلے میں ایک شاعر کا محتاط ہونا ہزاروں گنا زیادہ ضروری ہے۔