ہوم << ’ اردو ادب ‘ کا میر تقی میرؔ نمبر : واقعی ایک خاص شمارہ ! شکیل رشید

’ اردو ادب ‘ کا میر تقی میرؔ نمبر : واقعی ایک خاص شمارہ ! شکیل رشید

انجمن ترقی اردو ( ہند ) کے سہ ماہی مجلے ’ اردو ادب ‘ کا تازہ شمارہ ( شمارہ نمبر 272۔271 ) خدائے سخن میر تقی میرؔ پر ایک خاص شمارہ ہے ، واقعی میں خاص شمارہ ! عام طور پر اب قدیم شعراء اور ادباء پر جو خاص شمارے شائع ہوتے ہیں ، وہ بس نام کے ہی خاص ہوتے ہیں ، بیشتر کا حال چبائے ہوئے نوالوں کو پھر سے چبانے کے مصداق ہوتا ہے ، یعنی وہی پرانا مال جو بار بار بازار میں لایا گیا ہے ، پھر سے سجا کر پیش کر دیا جاتا ہے ۔ ’ اردو ادب ‘ کا یہ خاص نمبر ، چبائے یا اُگلے ہوئے نوالوں کو دوبارہ چبانے کی بجائے ، اپنے دامن میں کچھ ایسی نئی چیزیں بھر کر لایا ہے ، جِن پر آنے والے دنوں میں میر ؔشناسی کی نئی بنیادیں استوار کی جائیں گی ۔ یقیناً اِس کا سہرا ’ اردو ادب ‘ کے مدیر و انجمن کے جنرل سیکرٹری اطہر فاروقی کے سر ، آج تو بندھے گا ہی ، آنے والے دنوں میں بھی بندھے گا ، کیونکہ اس نمبر کو خاص بنانے میں ، ایک مدیر کے طور پر ، ان کی لیاقت کا کردار سب سے اہم ہے ۔ یوں کہہ لیں کہ اس نمبر کا منصوبہ بناتے ہوئے انہوں نے جدید زمانے کے مدیر کے ذہن سے سوچا ، پیچھے کی طرف گھوم کر دیکھنا ، یا پُرانے طرز پر اپنے منصوبے کی بنیاد رکھنا ، پسند نہیں کیا ۔ بُزرگ دانشور ادیب اور ’ اردو ادب ‘ کے مدیرِ اعلا صدیق الرحمن قدوائی نے اِس نمبر کے ’ اداریہ ‘ میں اس کا ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ اِس شمارے کا منصوبہ تیار کرتے وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ اِس میں کسی بے انتہا اہم مضمون کے کسی دوسری زبان سے ترجمے کے علاوہ کوئی اور مطبوعہ تحریر شائع نہیں کی جائے گی ۔ اِس فیصلے پر عمل کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر آخرش اِس میں کامیابی حاصل ہو گئی ... اِس شمارے میں شامل مضامین کے سیاق و سباق میں دوسری کوشش یہ کی گئی ہے کہ وہ محض چند کتابوں کے خیالات کی تکرار نہ ہوں ۔ اب یہ رویہ عام ہو گیا ہے کہ میرؔ پر ہونے والے سمیناروں اور اُن پر لکھی جانے والی دیگر تحریروں میں مقالہ نگار چند ایک پُرانی کتابوں سے ہی کچھ مباحث اٹھا کر اپنے مقالات تحریر کرتے ہیں ۔ اِس وجہ سے میرؔ پر غور و فکر کے سوتے اب تقریباً خشک ہو چکے ہیں ۔‘‘ وہ ’ اداریہ ‘ میں اطہر فاروقی کی مدیرانہ صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ ’ اردو ادب ‘ اطہر فاروقی صاحب کی ادارت میں اور ان کی کوششوں کے سبب اِس وقت دنیا بھر میں اردو کا سب سے معیاری مجلّہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔‘‘ صدیق الرحمن قدوائی نے جو باتیں کہی ہیں یہ نمبر اُن پر پورا اُترتا ہے ۔ اِس کے تمام ہی مضامین میرؔ شناسی کی مروجہ روایت سے ’ ہٹ کر ہیں ‘ ۔ بات عالمی سطح پر انگریزی کے معروف شاعر رنجیت ہوسکوٹے کے خطاب ’ میر کی راہ پر ‘ سے شروع کرتے ہیں ۔ رنجیت ہوسکوٹے ایک بڑے شاعر ، مترجم ، ثقافتی دانشور اور فنونِ لطیفہ کے نقاد ہیں ، اُن کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے اور وہ ملک و بیرون ملک کئی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں ۔ رنجیت ہوسکوٹے نے میرؔ کے 150 منتخب اشعار کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے ، جِسے پینگوئن کلاسک سیریز کے تحت شائع کیا گیا ہے ۔ یہ مضمون دراصل انجمن کے تحت ، میرؔ کے تین سو سالہ جشن کی ایک تقریب میں ، اُن کی کتاب کے اجراء پر کی گئی اُن کی انگریزی تقریر کا اردو ترجمہ ہے ۔ یہ مضمون یا تقریر میرؔ شناسی کی کچھ ایسی راہیں دکھاتا ہے ، جِن پر اب تک یا تو اردو والوں نے توجہ نہیں دی ہے یا اِن پر اچٹتی سی نظر ہی ڈالی ہے۔
رنجیت ہوسکوٹے اپنی تقریر میں ترجمے کے عمل کو مریدی اور پیری کا رشتہ قرار دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : ’’ میری رائے میں ترجمہ محض ماہرانہ عمل نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ترجمہ کچھ سیکھنے کا ، مشق کرنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے ۔ مترجم کی حیثیت ہمیشہ ایک مرید کی ہوتی ہے اور مرید ہونے کے ناتے آپ خود کو اس متن کے حوالے کر دیتے ہیں ، آپ جس کا ترجمہ کر رہے ہیں یعنی اُس متن کا خالق آپ کا پیر بن جاتا ہے ۔‘‘ وہ پیر و مرشد کے لا شعوری مگر لازمی رشتے کی بات کرتے ہوئے ترجمہ کے عمل میں خودسپردگی کے جذبے کی بات کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس رشتے اور خود سپردگی کے عمل سے انہوں نے پایا کہ ’’ میرؔ کی زبان میں زندگی ہے ۔ اس میں راحت کا ایک پہلو یہ ہے کہ میرؔ کی شاعری میں اضافت کا استعمال بہت زیادہ نہیں ہے ، بلکہ بعض اشعار میں تو اُنہوں نے فارسی کا مذاق بھی اڑایا ہے ... یہاں ہمیں ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جو بہت آسانی سے برج ، اودھی اور کھڑی بولی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔ دریائے گنگا کے آس پاس کی زبانیں اُن کی تصانیف میں اس طرح نمایاں ہیں گویا وہ ان زبانوں کو ایک شکل دے رہے ہوں ۔ دنیا کے متعلق ان کا رخ ہمیشہ اداسی کا یا درد و غم پر محمول نہیں ہے ۔ وہ خود کا مذاق اڑاتے ہیں ، خود پر ترس کھاتے ہیں ، کبھی اُداس تو کبھی سنجیدہ نظر آتے ہیں ، وہ مسرور و شادمان بھی ہیں اور کبھی کبھی فحاشی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں ۔‘‘ وہ ترجمہ کو ایک سیاسی عمل بھی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’ ظلمت پرست قوتوں کا ایک بڑا گروہ یہ اصرار کر رہا ہے کہ اردو کو ایک مخصوص مذہب سے جوڑا جائے ۔ اس سے بھی زیادہ مہمل دعوے یہ کہہ کر کیے جا رہے ہیں کہ یہ ایک غیر ملکی زبان ہے ، لہذا بغاوت کے بعد 1858 میں ایک طرف سازشی طریقے سے سنسکرت آمیز کھڑی بولی پر مشتمل جدید ہندی نے اپنا راستہ الگ کر لیا ، کہ اس قدیم رسمِ خط کو جس میں اب اردو لکھی جاتی ہے ، ترک کر کے ناگری کو اپنے لیے نئے رسمِ خط کے طور پر مُسلّط کر لیا ۔ آج کی سرکاری ہندی یہی جدید ہندی ہے اور دوسری جانب اتنی ہی خود آگہی کے ساتھ اردو نے خود کو فارسی کے رنگ میں ڈھال لیا ۔ میری نظر اس دور پر رہی ہے جب میرؔ جیسا شاعر ان تمام لسانی وسائل پر یکساں طور پر قادر تھا ۔ میرؔ کے سیاق و سباق میں مرکزی سوال یہ ہے کہ میرؔ کی وہ حسّیت کیا تھی جس کے سبب انھوں نے تمام زبانوں کا اثر قبول کیا ، اُن علاقائی زبانوں کی تحریکوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جو لسانی طور پر ان کی شعری حسّیت سے ہم آہنگ ہو سکتی تھیں ۔‘‘ وہ کہتے ہیں : ’’ میں میرؔ کو اس منظر نامے پر موجود تاریخ کے ایک اہم گواہ کے طور پر دیکھتا ہوں ۔‘‘ میرؔ سے کیا سیکھا ؟ اس سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں : ’’ اپنی شاعری کی زبان کو میں نے تونگر کیا ہے ۔‘‘ میرؔ شناسی پر یہ ایک لاجواب تقریر کا شاندار ترجمہ ( نریش ندیم نے اردو ترجمہ کیا ہے ) ہے ۔ مُجلّہ میں رنجیت ہوسکوٹے سے محترم سلمان خورشید کا لیا ہوا ، ایک انٹرویو بھی شامل ہے اور انگریزی کتاب کے اجراء کی رپورٹ بھی ۔
کتاب کے باقی کے مشمولات بھی میرؔ شناسی کے گھسے پِٹے ڈھرے سے ہٹ کر ہیں ۔ فارسی زبان کے بزرگ پروفیسر ، شریف حسین قاسمی کا مضمون بعنوان ’ میرتقی میرؔ کی دہلی منظوم و منثور فارسی آثار کی روشنی میں ‘ ہے ۔ اس مضمون میں میرؔ نے اپنے فارسی دیوان اور اپنی تصانیف نکات الشعرا ، فیضِ میرؔ اور ذکرِ میرؔ میں ، دہلی کے بارے میں جو تاریخی اور فارسی نوعیت کے واقعات بیان کیے ہیں ، اُن میں سے چند کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ مضمون پڑھ کر رنجیت ہوسکوٹے کا یہ جملہ کہ ’’ میں میرؔ کو اس منظر نامے پر موجود تاریخ کے ایک اہم گواہ کے طور پر دیکھتا ہوں ‘‘ ، ذہن میں گونج جاتا ہے ۔ میرؔ واقعی اپنے دور کی تاریخ کے گواہ ہیں ۔ اسکالر بیدار بخت نے ، اپنی ذاتی لائبریری کی ایک بوسیدہ کتاب ’ اشعارِ محاورہ ‘ سے ، کچھ اشعار منتخب کرکے ، ایک وقیع مضمون بعنوان ’ میرؔ کے چند محاوراتی اشعار ‘ تحریر کیا ہے جو اس نمبر کا حصہ ہے ۔ اس نمبر میں دو مضامین میں ’ سرقے اور فریب ‘ کا ذکر کیا گیا ہے ؛ ارجمند آراء کا مضمون ہے ’ کلاسکی غزل پڑھنے سے پہلے ( نئے قاری کے لیے چند نکات )‘‘ ، مضمون لاجواب ہے ، لیکن اس میں ایک صاحؓب وپن گرگ کی ، جو میرؔ کا ہندی انتخاب ترتیب دے رہے تھے ، ارجمند آراء کی کاوش اور محنت کو اپنی محنت کے طور پر پیش کرنے کا افسوس ناک ذکر ہے ۔ محمود احمد کاوش نے پروفیسر معین الدین عقیل کی ’ تحقیق ‘ میرؔ کا غیر مطبوعہ دیوانِ ہفتم ( جس کی اشاعت انجمن سے ہوئی ہے ) کو دلائل کے ساتھ ’ جعل سازی ‘ قرار دیا ہے ۔ یہ دونوں ہی حرکتیں افسوس ناک ہیں ۔ اطہر فاروقی نے یہ دونوں تحریریں شائع کیں اس کے لیے وہ مبارک باد کے حقدار ہیں ۔ ضروری ہے کہ ان دونوں ’ معاملات ‘ پر بات کی جائے ۔ مزید مضامین معین الدین عقیل ، اخلاق آہن ، سرور الہدیٰ اور خالد ندیم کے ہیں ۔ اطہر فاروقی کا مضمون ’ میرؔ کی دلّی ، گنگا جمنی تہذیب اور علم و ادب کا گہوارہ ‘ لاجواب مضمون ہے ، یہ جہاں شہر دہلی سے مضمون نگار کی محبت کا ثبوت ہے ، وہیں یہ دلّی کو اُس کی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے سمجھنے ، اور علم و ادب کے گہوارے کے طور پر اس کی عظمت پر روشنی ڈالنے کی ایک کامیاب کوشش بھی ہے ۔ ’ اردو ادب ‘ کی معاون مدیر صدف فاطمہ کے ’ ذکرِ میرؔ ‘ کے فارسی سے اردو ترجمہ میں شامل وہ لطائف بھی اس نمبر میں شامل ہیں جنہیں مولوی عبدالحق نے ’ فحش ‘ کہہ کر سنسر کر دیا تھا ۔ ’ ذکرِ میرؔ ‘ کے ترجمہ کے ساتھ انہوں نے لطائف کا بھی ترجمہ کیا تھا ، جِن پر انہوں نے نظرِ ثانی کی ہے ، اور نظر ثانی کیے گیے لطائف اس نمبر میں شامل کیے ہیں ۔صدف فاطمہ نے حواشی پر جتنی محنت کی ہے اس کی داد نہ دینا ذیادتی ہے۔ حواشی کے بغیر ان لطائف سے اس لئے لطف نہیں لیا جا سکتا تھا کہ ان لطائف کے سیاسی اور تہذیبی پس منظر کے بغیر یہ قطعی بے معنی تھے ۔ اس نمبر کے لیے اطہر فاروقی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ یہ خاص نمبر 500 روپیہ میں انجمن سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔