ہوم << نگرپارکر کی دُھول بھری صبح - سید مہدی بخاری

نگرپارکر کی دُھول بھری صبح - سید مہدی بخاری

نگرپارکر کی دُھول بھری صبحوں کے پار اُتر جائیں تو صحرائی میدانوں میں اڑتی بھربھری ریت کے بیچ چھوٹے چھوٹے گاؤں الف لیلائی داستان کی مانند سامنے آنے لگتے ہیں۔ یہ اندرون علاقہ ہے۔ سڑک جاتی نہیں اور غیر مقامی کا یہاں کام نہیں۔ اس لیے کسی بیرونی گاڑی کو دیکھ کر بیل گاڑی و گدھا گاڑی والے ٹھٹھک کر رُک جاتے ہیں کہ یہ کون جناور اِدھر گاڑی لیے آ رہا ہے۔ گاڑی سے باہر نکل جاؤ تو ان صحرائی بستیوں میں روزمرہ کے کاموں میں مشغول عورتیں اپنا گھونگھٹ نکال لیتی ہیں۔ چوڑیوں کی چھَن چھَن بہتی ہوا کے شور میں ملنے لگتی ہے۔ مرد ڈھیلے پھاڑ پھاڑ مسافر کو دور ہی دور سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کو قریب آنے کی ہمت شاید اس واسطے نہیں ہوتی کہ نجانے یہ کون شہری بابو ہے اور کیا چاہتا ہے۔
میں خود چل کر آگے بڑھتا ہوں اور ان سے مصافحہ کرتے حال احوال دریافت کرتا ہوں۔ یہ ساری ہندو آبادی ہے۔ جب ان کی حیرت ڈھل کر تسلی میں بدل جاتی ہے تب وہ لوگ بولنے لگتے ہیں اور پھر بولتے ہی جاتے ہیں۔ مانو یوں جیسے غریب عوام کو وزیراعظم مل گیا ہو جسے سنانے کو بہت سے مسائل ہوں۔ میں ان کی باتیں سنتا جاتا ہوں۔ ہاں ہاں ہسپتال کا نام و نشان نہیں معلوم ہے بابا، اچھا اچھا سکول دور ہے ٹھیک ہے جانتا ہوں۔ یہاں سکول کا کیا کام بلکہ یہاں ریاست کا کیا کام ؟ ۔ ریاست تو بس سرحدی تاروں کی حفاظت کو چوکیاں ڈالے بیٹھی ہے۔
میں گاؤں گاؤں سفر کرتا رہتا ہوں۔ دھول اڑتی رہتی ہے۔ لوگ ملتے جاتے ہیں۔ وہی مسائل جو پہلے سن چکا۔ وہی باتیں جو مجھے معلوم ہیں۔ عورتیں سروں پر گھڑے اٹھائے ان کو سنبھالنے کی غرض سے احتیاطی چال چلتیں نظر آتیں ہیں۔ کنوئیں سے ان کا رشتہ سانس کی ڈور جیسا ہے۔ پانی کا انتظام ان کے سپرد ہے۔ بچے انہوں نے پالنے و سنبھالنے ہیں۔ گھر ان کو سجا کے صاف ستھرا رکھنا ہے۔ کھانا وہ بنائیں گی۔ مرد کو وہ سنبھالیں گیں اور اس سارے چکر میں ان کے پاس وقت ہی کہاں بچتا ہے ؟ اور پھر دن میں دو یا تین بار گاؤں سے نکل کر کبھی ایک کبھی دو کبھی تین کلومیٹر مشقت بھرا سفر کر کے کنوئیں تک پہنچنا بھی تو ہوتا ہے۔
اب آپ یہ سوال نہ کر دیجیے گا کہ وہ ایک ہی بار میں بڑے گھڑے یا پچاس ساٹھ لیٹر کی گیلن کیوں نہیں بھر لیتیں تاکہ ایک ہی بار کے چکر میں دن بھر کا پانی مل جائے۔ آپ کبھی بیس کلو کا مٹکا سر پر اُٹھا کر چلے ہیں ؟ پہلے آزما کے دیکھ لیں پھر جواب مل جائے گا۔
اس سارے میں عورتوں کی چوڑیوں سے آنے والی جھنکار پھیلی ہے۔ اجنبی کو دیکھ کر منہ گھونگھٹ میں چھپ جاتے ہیں۔ جو قدرے خوشحال ہیں انہوں نے بیل یا گدھا رکھ چھوڑا ہے۔ مگر یہ خوشحالی کا کیا معیار ؟ ہاں دوستو ، یہی وہاں خوشحالی کا معیار ہے۔ جس کو دو وقت کی روٹی اور گدھا گاڑی نصیب ہے وہ سیٹھ ہے۔
پانی کا کیا ہے وہ کڑوا ہو، کسیلا ہو یا گدلا و گندا ہو۔ پینا تو پڑے ہے۔ اس سے ہیضہ ہو، بچے مریں، یرقان پھیلے یا جگر کا کینسر ہو۔ مرنا تو ویسے بھی سب کو ہے۔ تاروں کے اُس پار ہمسائیہ ملک کی ریاست گجرات اور اس کے ساتھ ہی ضلع راجھستان ہے۔ میں نے یوٹیوب پر دیکھا کہ گجرات اور راجھستان امیر ہے۔ وہاں کی سرکار وسائل رکھتی ہے اور ٹورازم میں تو وہ سارے بھارت کو پچھاڑ چکا ہے۔ کیوں ؟ بس یوں کہ اس کے پاس بیرونی دنیا اور اپنے سیاحوں کو دکھانے واسطے بالکل یہی کلچر ہے جو ہمارے پاس ہے۔ یہی موسیقی ہے۔ یہی رسم و رواج و تہذیب و تمدن ہے۔ اور تو اور زبان بھی ملتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم ایک ”سیکئورٹی سٹیٹ “ ہیں۔ ہم کو ڈر ہے کہ دنیا کہیں ہم سے کچھ چُرا نہ لے جائے۔
سو، تاریں ہیں۔خاردار چوکیاں ہیں۔قدم قدم پر جانچ پڑتال ہے۔ پوچھ گُچھ ہے۔ سیکیورٹی ہے۔ بس پانی، صحت و تعلیم ہی کی تو کمی ہے۔ وہ بھی اگلے پچھہتر سالوں تک پوری ہو جائے گی۔ جلدی کاہے کی ہے۔
ہوش سنبھالنے سے کنوئیں کی مشقت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ پھر ساری عمر ڈول، رسی اور گھڑے کی نذر ہے۔ کوئی کنواں تیس فٹ گہرا ہے تو کوئی ساٹھ۔ کبھی کبھی یوں بھی ہو جاتا ہے کہ لڑکھڑا کر یا توازن بگڑنے کے سبب کوئی ڈول سمیت کنوئیں میں جا گرے۔ مگر حادثات تو ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تو معمول کی بات ہے۔ باقی سب خیر ہے۔ امن ہے۔ شانتی ہے۔
مجھے بس یونہی لکھتے لکھتے عادت سے مجبور ہو کر کوئی نہ کوئی شعر یاد آ ہی جاتا ہے۔ اس سے آپ یہ نہ سمجھئیے گا کہ میں افسردہ ہوں یا آپ کو کچھ احساس دلانا چاہتا ہوں۔یا صاحبان اختیار یا ریاست کی اس جانب توجہ کا طالب ہوں۔
دلِ حساس تیری برکت سے
زیست اچھا بھلا جہنم ہے