' تمہاری روحانی عمر کیا ہے ؟ '
میں نے خود کو خط لکھا اور اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد خط کے صحیح مرکز تک آئی
اپنا آپ لاجواب محسوس ہوا ، وہ کچھ دیر سوچتی رہی یعنی کہ قریباً سترہ سیکنڈ اور پھر اس نے لکھا
' ڈیڑھ سال ۔۔۔۔ شاید ۔۔۔ '
پھر وہ لکھتی گئی ، بانو ایک بار سیف محسوس کرنے لگے تو اس کی ساری صلاحیتیں اور ساری حسیات کام کرنے لگتی ہیں۔
' تم ہی تو جانتی ہو کہ گزشتہ برس میں نے جس شے پر سب سے زیادہ خرچ کیا وہ شے ' علم ' ہے۔
علم کی خاطر میں نے پیسے ، انرجی ، وقت اور توجہ خرچ کیے۔
میں قاہرہ تک نہ جاسکی ، لاہور بھی نہیں ۔۔۔۔
مگر میں نے اکٹھی کیں
کتابیں
اور بیٹھی انسانوں میں
وہ جن کے وجود بوڑھے اور دل بچوں جیسے ہوتے ہیں
اور میں گئی مشکل انسانوں میں
جن سے ہم بھاگتے پھرتے ہیں ، ہمارے صحیح جواب وہیں ملتے ہیں
اور میں نے درد کا احترام کیا
اور اس کی شفایابی پر اسے عزت سے رخصت کیا
یوں اس نے جاتے ہوئے مجھ پر روشنی اچھالی '
میں نے اسے روکا
' کہو ! کیا سمیٹا ؟ '
وہ چہکتی مسکراہٹ سے لکھتی گئی
' ایمان روح کا حُسن ہے ، معراج ہے ، اجر ہے ، اصل ہے ، ایمان میرا دائمی سُکھ ہے ۔ ایمان روح کا happily ever after ہے۔'
' تفصیل سے لکھو ' میں نے خود سے گزارش کی اور اس نے لکھا
' میں نے کائنات کی ہر شے سے ملاقات کی اور اسے ایمان سے بھرپور پایا
میں نے علمِ لسانیات میں حروف کی کاشت پڑھی اور حروف کو ایمان پہ جڑتے پایا۔حرف کو جس حکم پر تخلیق کیا گیا وہ اسی پر مصروف ہیں۔
میں نے رنگوں کے نام سیکھے اور ہر رنگ کو ایمان سے رنگین پایا۔
رنگ اپنے مزاج پر نہیں چلتے ، انہیں جو فریضہ سونپا دیا گیا وہ اس پر پوری طرح رنگ ریزی کرتے آئے ہیں۔
میں نے روشنی کے ذرے مٹھی میں قید کرنے چاہے اور ہر کرن کو ایمان سے چمکتا پایا۔روشنی چمکتی ہے اور نابینا کے گرد بھی چمکیلی ہی رہتی ہے۔
میں نے بیج خریدے اور انہیں اندھیروں میں بھی ایمان پر کھڑا پایا۔زندگی سے بھرپور ، بیج فنا ہوجاتا ہے اور شاخوں پر پھول آتے ہیں ، بیج اپنے حصے کے فنا کو اپنی بقا کے طور پر جانتا ہے۔
میں نے خزاں کو ایک آرٹ کہہ کر پکارا اور اسے حیران کن حد تک ایمان میں آرٹسٹک پایا۔وہ کھو دینے کا تعارف رکھنے کے باوجود خاموشی سے دے جانے کا کام کر جاتی ہے اور نہیں کہتی کہ میں بہار کی ماں ہوں ، مجھے بہار سا سراہتے رہو۔۔۔
میں نے آنسو دیکھے اور انہیں ایمان میں بھیگتا پایا۔وہ خوشی ، جوش ، اداسی اور حیرت کے بھی ہوتے ہیں۔مگر اپنی نورانی موجودگی نہ پہچانے جانے کے باوجود امن سے بہتے جاتے ہیں۔
میں نے خوشبو کو گلابوں سے لے کر چنبیلی ، مٹی ، ماں کے دوپٹے اور بھنی مکئی تک میں ایمان کی تازگی سے مہکتا پایا۔
وہ نہیں کہتی کہ مجھے گلاب کے گجروں میں کمال اور کچی مٹی سے کوچے گئے صحن میں سادہ اور بیکار کیوں مان لیا جاتا ہے جبکہ وہ ہر طور خوشبو کہلاتی ہے۔
میں نے ان ماؤں کے پاس بیٹھ کر ایمان محسوس کیا جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے رحموں میں کیا ہے ، اس کی حفاظت میں ٹھہرا ٹھہرا پیر رکھتیں اور دعائیں پڑھتی تھیں۔
میں نے ماؤں کو ایمان کے عروج پر پایا جو ان دیکھے چہروں کی مسکان کی خاطر مشقت پر مشقت اٹھاتی گئیں۔
میں نے جنگلی پھولوں کو بنا داد کے کھلتے پایا تو سارے جنگل میں ایمان کے جشن کا شور ہوا۔
کیا ایسا نہیں کہ ایک وائلڈ فلاور مجھ سے کہیں زیادہ اپنے رب کو مانتا اور پہچانتا ہے اور اسی کے حکم پر کھلتا ہے۔
میں نے صبح ستے سویلے پہاڑوں کے سرہانے سر ٹکائے سورج کو دیکھا تو الشمس کو ایمان کی لذت سے چمکتا پایا۔
جو صبحیں ضائع کردیتے ہیں وہ زندگی کا کتنا فیصد کھو دیتے ہیں نا ۔۔۔۔۔ سورج کا ابھرنا ، ڈوبنا ، اپنے آنے کی مسرت اور جانے کے grief سے کبھی لیونڈر ، کبھی ہلکا گلابی، کبھی ہلدی رنگ سے برش کرنا آسمان کو کینوس بنا دینا اور کتنے کم ہی ایمان سے بھرے اس آرٹ کو دیکھنے جاتے ہیں۔
میں نے چلتی گاڑیوں کی کسی درمیانہ سیٹ پر بیٹھی بوڑھیوں کو سپیڈ بریکر کے ہلکے سے ہچکولے پر میٹھی بولی میں حسبی اللہ کہتے پایا تو ایمان سڑکوں سے گزرتا محسوس ہوا۔۔۔۔
یہ جو ماں ہوتی ہے یہ تو پھر ہر بیٹے کی ماں ہوجاتی ہے۔خیر ہووی کہتی ماں کی دعاؤں میں ایمان کو یوں فرش سے عرش تک جاتا پایا۔
کیا رب ماں کو انسانوں کی بھلائی کے لیے بھی ایک انعام کے طور پر تخلیق کرتا ہے ؟
میں نے ریڑھی پر آدھا گھنٹہ پھلوں کو چمکاتے اور سجاتے بوڑھوں کو دیکھا تو اس ریڑھی کے اردگرد ایمان کو محسوس کیا۔
وہ چند سو کے منافع اٹھا کر تھکے کندھوں سے گھر جانے والے ایمان کے نفع اور ناامیدی کے خسارے کی ترکیب سکھا دیتے ہیں۔
حتی کہ میں نے ایمان کو اپنے صحن سے لے کر مشرقی پہاڑوں کی چوٹی پر رہتے بستے پایا مگر وہ میرا دل۔۔۔۔۔ جو الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔اس میں ایمان کیسے سمائے اور میں اسے اوڑھ لوں ۔۔۔ جیسے یہ ساری کائنات اوڑھے پھرتی ہے '
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے خود کو چپ کروایا
' تمہیں یاد ہے کل ہماری ملاقات ایک خاتون سے ہوئی تھی جو باتوں کی باتوں میں موسیٰ علیہ السلام کا قصہ سنانے لگی تھی '
اس نے اثبات میں سر ہلایا ، آنسو اب تک گالوں پر چپکے تھے۔
' کیا لگا تھا ہمیں ؟ ' میں نے پوچھا تو وہ ہنس دی
' معذرت کہ اگر میں کچھ غلط لکھوں مگر ۔۔۔۔ اس کی زبان سے موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سنتے ہوئے ہم دونوں کو یوں محسوس ہوا تھا جیسے گھر کے کسی فرد کی بات ہورہی ہے۔we felt Musa A.S
like a family member '
اس نے یہ کہتے کان کی لو کو چھو کر اشارے سے معذرت کی
' بس یہی ہے میری پیاری روح ! میری بانو ۔۔۔ اگر میں تمہیں یوں کہہ کر پکار سکوں
ہم جو روحانی طور پر ڈیڑھ برس کے ہیں ، ہم بہت بلند درجے کی بندگی کر سکیں یا نہیں ، فی الحال دل کی مسرتوں کو یہ کیفیت کافی ہے کہ ہم نے اللہ کی کتاب کو ایسا پڑھا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کو جانتے ہیں اور ان کے صالح اعمال کو فالو کرنے میں ہمیشہ محنت کرتے رہتے ہیں۔
اگر موسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر ہماری آنکھوں میں یہ چمک اترتی ہے کہ جیسے یہ تو ہمارے کسی اپنے کی بات ہورہی ہے تو بس سمجھو ہماری ڈیڑھ برس کی روحانی عمر ضائع نہیں جارہی۔۔۔۔۔۔
ایمان کی اس سیڑھی تک پہنچنا بھی بڑے نصیب کی بات ہے بانو ! اور جب ہم اللہ سے ملیں گے نا ۔۔۔ ' میں رکی
' تو ہم بہت سارے پھول لے کر اللہ سے کہیں گے میرے پیارے اللہ ! یہ سارے پھول آپ کے لیے ' اس نے مکمل کردیا اور ہم دونوں نے مسکرا کر خط کو لفافے میں چھپا دیا۔
پڑھنے والی آنکھ مسکرائے
تبصرہ لکھیے