گردش لیل ونہار نے ایک صبح ہمیں یار غدار جناب ڈاکٹر طارق ایوبی صاحب کا ایک مضمونچہ " چائے اور ذوقِ نفاست" دکھایا۔ ہم نے یوں داد سخن دی۔" کمال لکھا یار" منظر اور پس منظر سے ہم تاحال واقف نہ تھے۔ادھر سے ایک دوسرے سخن فہم جناب ڈاکٹر عارف الیاس ندوی نے بھی "بہت شاندار" کی صدا لگائی ۔۔ہر طرف سے آفرین شادباش کا غلغلہ بلند ہوا۔عبد المعید ندوی صاحب نے بھی طرز نگارش پر حیرت کا اظہار کیا۔۔۔
بات چلتی رہی۔۔ بیچ میں کلکتے کی آلو بریانی بھی در آیی مگر محفل نے جلد ہی آلو سے جان چھڑائی۔ آلو سے جان چھوٹی ہی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام پر ہلکی پھلکی چیں ہوئی۔۔ ابھی یہ چیں ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ڈاکٹر ایوبی صاحب "چائے ،جنت اور نص" کے عنوان سے تحریر لے آئے۔۔یقینا نہیں تو غالباً یہ ہماری اس چند سطری پوسٹ کا رد تھا ۔
"جہاں لبن خالص اور عسل مصفیٰ کی نہریں جاری
ہوں گی وہاں چائے کا گزر نہیں ۔ وہاں اگر کوئی مشروب قابل اعتنا ہوگا تو وہ شراب طہور ہے۔
تیرے معیار معیشت سے خطر ہے زاہد
خلد میں بھی تیری مئے نہ کہیں وٹھہرا نکلے"
۔۔۔
اب یہاں پر وقت تھا ایک سرمست قلندر کی آمد کا۔۔ یعنی حضرت شعیب یتروش ناگپوری صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی تحریر پر ایک بے ضرر" لاحول" پڑھا۔مگر عارف الیاس ندوی صاحب نے ندوی عصبیت کی وجہ سے حق کا دامن چھوڑ دیا اور۔۔ یوں داد سخن میں سرگرم ہوئے کہ۔۔" واہ یہ تو کل سے بھی شاندار ہے۔۔۔
۔۔۔
ڈاکٹر ایوبی نے شعیب یتروش کی گوشمالی کی۔۔لاحول نہ پڑھو میاں ،حوروں کے جام بھی چائے جیسے ہوں گے۔
اس پر شعیب صاحب نے ارشاد کیا۔
"پس معلوم ہوا کہ چاے پینے والے بے طرح بہکنے لگتے ہیں۔ اور جس کی فقط ایک چسکی دماغ کو اس طرح الٹ دے اور ہوش و خرد سے بیگانہ، اس کی ایک پیالی کیسا ستم ڈھائے گی۔ چنانچہ مفتی شرع کہتا ہے کہ چاے ایک نشہ آور مشروب ہے جس کا پینا، پلانا، اس کی پیالیاں بنانا اور فروخت کرنا سب ناجائز، حرام اور اکبر الکبائر ہے"
ڈاکٹر ایوبی
"کمال یہ ہے کہ مفتی شرع یہ فتوی بھی چائے کی چسکی لے کے ہی لکھتا ہے"
شعیب صاحب
"اس مفتی نے کبھی چاے کو چکھا بھی نہیں۔"
طارق ایوبی:
یقینا وہ عدل سے دور بد ذوق اجڈ مفتی ہو گا
زاہد خشک ہے جنگل میں رہے دارالافتا میں کیا کام اسکا"
حوروں کی چائے پر شعیب صاحب کا ادب لطیف ملاحظہ کیجئیے
"جو لوگ کلوٹی چاے کو حوروں کی چھب تختی پر فوقیت دے رہے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ کل جنت میں جب وہ حوروں سے مصاحبت کا ارادہ کریں گے تو حور چیخ پڑے گی کہ میرے قریب نہ آؤ اس حال میں کہ تم چاے کے نشے میں غین ہوں۔ بلکہ جنت کی لطیف آب و ہوا چاے کی سلونی یا کلوٹی کثافت کی روادار ہی نہیں۔ رضوان تمام دروازوں پر اعلان کر رہا ہوگا کہ جنھیں چاے عزیز ہو ادھر کا رخ نہ کریں، اور مالک پکار پکار کر انھیں اپنے یہاں بلاتا ہوگا۔"
ایسے سخت ہلے سے جزبز ہوکر ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے
...
"بے دلیل ہوائی، ہم نے تو نصوص پیش کیے
حوریں ہمارے حکم کی غلام ہوں گی ، ہم ان کے جام کی جگہ ان سے چائے بنوا کر پیئیں گے."
اس پر شعیب صاحب نے ہانک لگا
"چاے کے نشہ بازوں کے لیے جنت میں داخلہ ہی ممنوع ہے۔ کجا کہ وہ حوروں کو حکم دیتے پھریں"
"آپ کے پیش کردہ نصوص میں ذوق سلیم رکھنے والوں کے اشتہا کا ذکر ہے۔ فاسد ذوق والے جہنم میں زخمیوں کا پیپ پی رہے ہوں گے۔ جنت میں یہ مشروب نہیں ملے گا۔"
شعیب صاحب کے اس سخت حملے سے ڈاکٹر صاحب تیورا کر گرپڑے جب ذرا سنبھلے تو مولوی بن کر لوٹے۔ اور خالص مولویانہ لب ولہجہ میں گویا ہوئے۔۔
"بالکل اجڈ "مولوی "لگ رہے ہو ،سہارنپوری لہجے میں فتوے ٹھونک رہے ہو۔"
شعیب صاحب کی نہ صرف رگ ظرافت بلکہ رگ شرارت دونوں بھڑکی ہوئی تھی۔۔ڈاکٹر ایوبی کا وار خالی دیا اور ساتھ ہی ایک بان مار دیا
"قاضی شرع چاے خوروں کو اسی کوڑوں کی سزا سناتا ہے۔"
...
اسی بیچعبدالمعید ندوی صاحب نے جنید پنڈت کا مضمون چائے کے خلاف اور ایک دیگر مشروب کی فضیلت میں نشر کیا۔۔یہاں ڈاکٹر ایوبی صاف ملاحی پر آگئے۔۔ فرماتے ہیں ۔۔
"بیوقوف نے جوشاندہ اور کاڑھا پینے کا مشورہ دینے کے لیے اس قدر طویل مضمون لکھ مارا"
ادھر سے آلو بریانی والے محسن خان ندوی کلکتوی بھی مخالفین چائے کے خلاف اکابر والی دلیل کی قمچی لے میدان کارزار میں آئے۔۔۔
"ارے ارے ارے
بھائی صاحب ذرا علمی دانش گاہوں کے قریب کی چائے دکانوں پر تشریف لے جائیں ایک سے بڑھ کر ایک اہل علم و دانش چائے کی ایک ایک چسکی میں کیسی کیسی علمی موشگافیوں کو چٹکیوں میں حل کرتے ہیں"
شعیب صاحب
آپ تورہنے ہی دیں۔
محسن ندوی
"چہوہ" خانوں میں علم کی میراث بٹتی ہے 😌"
شعیب صاحب
" جی نہیں، فقط ڈانڈے ملائے جاتے ہیں۔"
محسن ندوی
"پڑوس میں ایک بہت ہی مشہور چائے کی دکان پر اس وقت کے بڑے بڑے شاعر اور اہل علم تشریف لاتے تھے اور نہایت ہی جاندار اور شاندار علمی مجلس چائے کے نام پر لگا کرتی تھی۔"
۔۔۔
"یہ کون لوگ ہیں جو چائے کو ناپسند کرتے ہیں 🤨"
اس سوال کا شعیب صاحب نے ایسا جواب دیا کہ غنیم کے پاس میدان چھوڑ کر بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔۔
"جنھیں خلاق علی الاطلاق نے حسن ذوق بخشا ہے۔"
ایک میواتی شاعر نے نے میواتی میں شعر اچھالا
"کالی چائے ہے ٹوٹا کی پہچان
کہوے ہے بابا نوں میرو
काली चाय है टोटा की पहचान
कह वे है बाबा नू मेरो "
۔۔
شعیب صاحب نے پھر ہانک لگائی۔
"خدا جھوٹ نہ بلوائے، چاے کی پتی کو شجرہ خبیثہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔"
یوسف حیدر میواتی صاحب نے ڈرایا کہ
"ڈاکٹر صاحب پھر نصوص کا مطالبہ کر بیٹھیں گے اس لیے جو لکھنا ہے سوچ سمجھ کر تحریر فرمائیں 😉😉😉"
جواب آیا کہ۔
"انھیں ایک کٹ چا پلا دی جائے گی۔ وہ سب بھول بھال کر غرق چا ہو جائیں گے۔"
۔۔۔
شجرہ خبیثہ والی بات پر ڈاکٹر صاحب یوں گرم سخن ہوئے۔
"آپ کو الٹا دیکھنے، سوچنے اور بولنے کی عادت ہے ، اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ چائے نہیں پیتے"
اب دیکھئے شعیب صاحب کی طرف سے کیسا بانکا نکیلا جواب آیا۔
"چا نوشی کسی نبی کی سنت نہیں کہ وہ اب دنیا میں موجود نہیں۔ لیکن ابلیس موجود ہے۔ کیا خبر کہ اس وقت چا سے ہی شغل کر رہا ہو اور آپ کے مضامین پر مسکراتا ہو۔"
۔۔۔
ہم اس مباحثے میں دور کے تماشائی تھے۔۔
رخ کتاب پر ہم نے دوچار جملے ہی لکھے تھے۔۔بس بات یہ تھی کہ سو سنار کی ایک لوہار کی۔ کے مصداق ہماری ضرب کاری تھی۔۔۔
"چائے کے بارے میں قول فیصل یہی ہے کہ ملت کی تباہی کہ منجملہ اسباب میں سے اہم سبب ہے کہ یہ وہ گمراہ کن مشروب ہے جسے اصحاب جبہ و دستار بھی بے دغدغہ پیتے رہے۔۔اگر چائے کا کوئی فائدہ بر صغیر کے مسلمانوں کو ہوا ہے تو وہ صرف اتنا کہ آزاد نے شیروانی صاحب کو ایک تصوراتی خط لکھ کر اپنے خاطر کا غبار باہر کیا"
ہمارے اس چند سطری تبصرے پر ڈاکٹر صاحب کی رگِ عصبیتِ چائے بے طرح پھڑکی اور فردوسی کے رزمیہ سے زیادہ طویل مہا کاویہ لکھ لائے۔۔ مگر بات یہ تھی کہ
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف ۔
ہمارے سخت حملوں کے مقابلے ڈاکٹر صاحب کے طول طویل مضامیں کے طومار جب پرزوں کی طرح اڑ گئے تو ڈاکٹر صاحب نے ۔۔۔ سپر انداز ہوتے ہوئے۔۔۔اپنی چائے نوشی کی اطلاع دی۔۔شعیب صاحب کے ترکش میں تیروں کی نئی کھیپ آئی ہوئی تھی۔۔۔انھوں نے صلح کا پرچم ہی اڑا دیا۔۔
"عدالت کے محتسب کے یہاں چا نوشوں کی گواہی معتبر نہیں۔ کمبخت کہتا ہے کہ چا خورے عام طور پر ایک کٹ چاے پر اپنا ایمان فروخت کر دیتے ہیں۔"
محسن ندوی کو امید ہوئی کہ اگر قاضی ہی چیاش ہو تو عزت بچ رہے گی۔۔گویا ہوئے
"کہیں عدالت کا قاضی ہی چائے کا رسیا نا نکل جائے🤣"
ایسے شیخ چلی والے خوابوں کا علاج یہی ہے کہ خواب کی ہی دم مار دی جائے ۔۔
"تب تو اسے عہدۂ قضا سے فی الفور برخاست کیا جائے۔"
عدالت میں جب چائے نوشوں کی گواہی ہی معرض خطر میں دکھی تو ڈاکٹر صاحب طعنوں پر آرہے۔۔۔
"اسکا سابقہ آپ جیسے نو سکھیوں سے پڑا ہو گا"
شعیب صاحب منتظر تھے۔۔۔عرض گزار ہوئے۔
"شاعر کہتا ہے کہ عموماً لب معشوق کے ترسے ہوئے افراد چاے کے عادی بن جاتے ہیں۔ عقل بھی کہتی ہے کہ جنھیں محبوب کے رسیلے لبوں کا ذائقہ نہیں ملتا، وہ بے چارے چائے کی چسکیوں سے اپنا غم غلط کرتے ہیں۔"
۔۔۔
اب وقت تھا ہمارے خوش خصال نیک چال چلن کے بھٹکلی صاحب علم عزیز مفاز شریف ندوی کا۔۔
انھیں نہیں اس گھمسان کے رن میں کافی کے جھاگ اڑانے کا ارادہ کیا ۔۔دیکھ رہے تھے ایسے سخت حملوں کے بیچ ان کی جھاگ اڑاتی کافی کیا کر سکتے ہے مگر ہمت کی ۔ آداب بجائے اور جان کی امان پاکر عرض کیا کہ۔۔
"کافی کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟
☕ ہمیں چاے کے مقابلے میں کافی زیادہ پسند ہے۔"
ڈاکٹر صاحب شعیب صاحب کے حملوں سے بےدم تھے لہذا ایک پیادے نے ترجمانی کی۔۔گوہر اقبال صاحب لب کشا ہوئے۔۔
"بقول ڈاکٹر صاحب اگر "چائے جنتی مشروب ہے" تو *کافی* چھٹے طبقے کے جنتیوں کو میسر ہوگی۔ اور *کیپیچنو* فردوس بریں کی مشروب اول ہوگی۔☺️
هذا ما عندي..."
ماحول تھوڑا شانت تھا ڈاکٹر صاحب دم لے رہے تھے۔۔کہ عبد العلیم مسلم ندوی صاحب نے جاری جنگ کی تفصیلات کو ریکارڈر میں رکھنے کا مشورہ دیا کہ آئندہ نسل اکابر کی تحقیقات انیقہ سے مستفید ہوگی۔۔۔
" چاے کے فوائد و نقائص پر درج بالا کی گفتگو پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جاسکتا ہے بڑی علمی و تحقیقی گفتگو چل رہی ہے"
ڈاکٹر صاحب دم لے چکے تھے یعنی چائے پی چکے تھے ۔۔۔گویا ہوئے۔
"شعیب ناگپوری کی چائے کے باب میں کی گئی بازاری گفتگو کو آپ علمی معیاری گفتگو سمجھتے ہیں تو یقینا قیامت کے قرب کی دلیل ہے ، یہی منکرین چائے ہیں جو عذاب الہی کو دعوت دے رہے ہیں"
۔۔۔۔
مفاز شریف کے کافی پر مثبت جواب آیا جیسا کہ امید تھی۔۔۔
" کافی مرغوب طبع ہے لیکن بے دودھ کی۔ جس کا ذائقہ نہایت ترش ہو اور جسے خاص طور پر کافی کے بیجوں کو کوٹ کر پکایا جائے۔"
چائے کے باب میں ڈاکٹر صاحب کی عصبیت بی جے پی کی طرح ہے یعنی جو ہمارے ساتھ نہیں وہ غدار ہے۔۔شعیب صاحب پر حملہ کیا۔۔
" ذوق بھی کافی کے جھاگ جیسا پایا ہے"
ناگپور سے بھی سنترہ بہ سنترہ جواب آیا۔
"معلوم ہوا کہ آپ نے کافی دیکھی ہی نہیں۔ ہاں آپ کافی کے غیر محرم جو ہوئے 😬"
۔۔۔۔ یہاں ہماری چھوٹی سی تحریر آئی۔
"ہمارے ایک صاحب تن و توش بزرگ دوست ہیں سن و سال میں تو یہی کوئی دو چار سال بزرگ ہیں مگر رقبہ وحجم ہو بہو اکابر والا ہے۔ یعنی ویٹیکن سٹی کے مقابلے روس ۔
چائے کی فضلیت میں صاف صاف اکابر کی کمی کوتاہی کو دلیل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
ہم اکابر کو معصوم نہیں سمجھتے تو ہمیں بالکل یقین ہے کہ ہمارے نہایت معتبر اسلاف سے بھی بعضے بڑی غلطیاں ہوئیں ہیں انہیں میں سے چائے نوشی بھی ہے۔۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے بزرگوں کی ایسی فاش غلطیوں کی پردہ پوشی کرتے مگر اے وائے بدقسمتی کہ اب انھیں کوتاہیوں کو مقام مدح میں پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی"
اس پر شعیب صاحب نے گرہ لگائی ۔
۔"کل رات ہماری دکان کے سامنے ایک شخص بہت دیر تک فون پر کسی کو دشنام بکتا رہا ہے اور مرنے مارنے کی بات کہتا رہا۔ ابتدا میں ہمیں لگا کہ یقیناً شراب کے نشے میں دھت ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے چاے پی رکھی تھی، جس کے بعد دماغ الٹ گیا اور سر راہ کھڑے ہو کر واہی تباہی بکنے لگا۔"
۔۔۔
ڈاکٹر صاحب نے داد سخن دی۔ ساتھ ہی اطلاع کہ ہم تو جنگ کے خاتمے کا اعلان کر چکے ہیں۔۔
ہائیں یہ کیا بات ہوئی ابھی تو ہم میدان کارزار میں آئے ہی نہیں اور جنگ بندی ہوگئی۔ سیز فائر کے بعد اب مستقل جنگ کا موقع تو نہ تھا لہٰذا صرف ادھر اُدھر گولو باری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔۔
۔
یہ داستان بھی پر لطف ہے۔۔۔۔
سلسلہ جاری رہے گا۔۔
تبصرہ لکھیے