ہوم << آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ عظیم الرحمان عثمانی

آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ عظیم الرحمان عثمانی

کوئی آٹھ دس برس قبل میں فیشن ریٹیلرز کے ایک معروف نام سے بطور سپروائزر منسلک تھا. بہت سے ملازمین سے کام لینا ہی میرا کام تھا. ان ہی دنوں ایک ہنستے مسکراتے خوش اخلاق انسان نے کمپنی کو بحیثیت سیکورٹی گارڈ جوائن کرلیا. ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور نہایت سادہ فطرت کے مالک انسان تھے. جلد ہی میری ان سے گہری دوستی ہوگئی جو آج تک الحمدللہ قائم و دائم ہے. ایسے سجن فطرت انسان کہ نہ صرف ہمہ وقت لوگوں کی مدد کو دل و جان سے تیار رہتے بلکہ ایسے پیار سے مدد کرتے کہ مدد لینے والے کو یہ محسوس ہونے لگتا کہ شاید ان سے مدد لے کر ہم نے ان ہی پر کوئی احسان کیا ہے. اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار جب انہیں یہ خبر ملی کہ میرا گھر میں رنگ و روغن کرنے کا ارادہ ہے تو مصر ہوگئے کہ میں آرہا ہوں رنگ کرنے، بڑی مشکل سے انہیں روک پایا یا جب ایک بار میری باس سے کچھ ان بن ہوئی تو مجھے بچانے کیلئے بناء تامل اپنی نوکری درپے لگادی. میری ان سے گھنٹوں سیاست سے لے کر کھیلوں تک کے موضوعات پر گفتگو ہوتی. اس گفتگو میں کبھی میرا کلین شیو چہرہ اور ان کی لمبی داڑھی رکاوٹ نہ بنی. جب وقت نماز آتا تو وہ مجھے ڈھونڈھ کر مجھ سے ضرور نماز کا پوچھتے اور ہلکی سی تلقین کرتے. میں بہانہ بنا کر یہاں سے وہاں ہوجایا کرتا. اسی طرح مہینے گزر گئے. نہ انہوں نے پوچھنا چھوڑا اور نہ ہم نے انہیں گولی دینا ترک کیا.
.
ایک روز باتوں ہی باتوں میں پوچھا، عظیم بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے جھینپ کر کہا کہ پڑھتا ہوں مگر گھر جاکر پڑھتا ہوں. کہنے لگے کہ پھر کام کے دوران آنے والی ظہر کی نماز کا کیا کرتے ہیں؟ میں نے آنکھیں چراتے ہوئے جواب دیا کہ اسے گھر جاکر قضاء کرلیتا ہوں. انہوں نے حیرت اور محبت دونوں سے لبریز لہجے میں استفسار کیا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں اور وقت پر کیوں نہیں پڑھتے؟ اب میں نے ہمت مجتمع کرکے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ آفس میں کوئی جگہ ایسی نہیں جو خفیہ ہو. مجھے شرم آتی ہے کہ سب غیرمسلوموں کو کیسا عجیب مضحکہ خیز لگے گا کہ جب میں ان سب کی آنکھوں کے سامنے رکوع میں جھکوں گا یا سجدے میں پڑا ہوں گا. ضرور وہ میری ہنسی اڑائیں گے اور میری عزت کم کرنے لگیں گے. آپ ہی بتائیں کہ انہیں میرا رکوع اور سجدہ عجیب نہیں لگے گا؟ یہ سن کر ان کے چہرے پر ان کی وہی مخصوص مسکراہٹ لوٹ آئی اور انہوں نے نرمی سے میرے قریب آکر کہا کہ
.
"یہ تو اس پر منحصر ہے عظیم بھائی کہ آپ نماز، رکوع یا سجدہ کس کےلیے کرتے ہیں؟ اگر آپ کی یہ عبادت ان لوگوں کی رضا کے لیے ہے تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ واقعی عجیب لگے گا مگر اگر آپ کی یہ عبادت اللہ پاک کی رضا کےلیے ہے تو آپ کو ان باتوں کی پرواہ نہ ہوگی"
.
یہ جملہ میری سماعتوں پر بجلی کی مانند گرا اور سیدھا قلب میں پیوست ہوگیا. وہ دن ہے اور آج کا دن ہے. دفتر ہو یا کھیل کا میدان. سفر ہو یا سڑک. میں پورے شرح صدر سے بناء گھبرائے وقت پر نماز کا اہتمام کر پاتا ہوں الحمدللہ. بعض اوقات وہی جملے جو آپ سینکڑوں بار سن چکے ہوتے ہیں، اسی لہجے اور اسی الفاظ کے انتخاب کے ساتھ جب کسی باعمل مخلص انسان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو سیدھا مخاطب کے دل میں گھر بنالیتے ہیں. میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا. پھر میں نے دیکھا کہ میری اسی نماز اور اسی رکوع و سجدے نے مجھے اپنے آفس میں وہ عزت دی جو اس سے پہلے مجھے حاصل نہ تھی. مسلم و غیر مسلم دونوں مجھ سے خود آکر اسلام سمجھتے اور میرے پیٹھ پیچھے میری تعریف کرتے. صرف ایک نماز کا فرض ادا کرنے نے مجھے ان سب کے لئے دین اسلام کا نمائندہ بنادیا تھا. ایک بار تو یہاں تک ہوا کہ جب نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو ایک نوجوان کو پیچھے بیٹھا پایا. اس نے مجھ سے پوچھا کہ عظیم کیا تم مجھے نماز سیکھا سکتے ہو؟ میں نے حامی بھری تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سکھ ہے اور اب اسلام قبول کرنا چاہتا ہے. اسی لئے اسے نماز سیکھنی ہے. یہ سب سنانے کا واحد مقصد یہی ہے کہ قارئین بھی راقم کی طرح اس سچ کو سمجھ سکیں کہ اگر فی الواقع ہماری نماز اللہ ہی کیلئے ہے تو لازم ہے کہ ہم اسے اس کے وقت پر جہاں بھی موجود ہوں ادا کریں اور لوگوں کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نماز نہ ادا کرنے کا میعار ہرگز نہ بننے دیں.
.

Comments

Click here to post a comment