ہمیں حضرت عمر ؓ کے اس معاہدے کی تلاش تھی
جو حضرت عمر رضی تعالی عنہ اور یروشلم میں صلیبیوں کے حکمران صفرونيوس کے درمیان فتح فلسطین کے موقع پر ہوا تھا۔
اسے تاریخ میں عقد عمر
Pact of Umar
یا Treaty of Umar کہتے ہیں ۔
یہ معاہدہ فلسطین کے غیر مسلموں کے حقوق کا ضامن تھا اور مسلمانوں کی مذہبی رواداری کا منہ بولتا ثبوت بھی ۔
ہمارے گروپ کے لوگ واپس جا چکے تھے صرف ہم تین باقی رہ گئے تھے ہمیں بھی اردن جانا تھا لیکن ہم حمزہ کے اصرار پر جمعہ کی نماز مسجد اقصٰی میں پڑھنے کے لئے رک گئے تھے۔
آج کے دن کا کوئی اور پروگرام طے نہیں تھا چنانچہ پہلے ہم دیوار گریہ دیکھنے گئے کیونکہ حمزہ نے اسے ابھی تک نہیں دیکھا تھا ۔
دیوار گریہ دیکھنے کے بعد ہم زیر زمین پرانے یروشلم اور سکینڈ ٹمپل (ہیکل ثانی ) کے زیر زمین حصے کی سیر کے لئے اس جگہ گئے جہاں سے انڈر گراؤنڈ ٹور کا انتظا م ہوتا تھا یہ ٹور دو سے تین گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے اور گروپس کی شکل میں کروایا جاتا ہے اس کی فیس اڑتیس شیکل ہے ۔
استقبالیہ پر کھڑی یہودی لڑکی نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بڑے معذرت خواہانہ انداز میں ہمیں بتایا کہ آج کے لئے سارے ٹور پہلے سے بک ہو چکے ہیں ۔ ہم نے اگلے دن کے لئے ٹور بک کیا ۔ فیس ادا کی اور باہر نکل آئے ۔
اب ہم اس خط کی تلاش میں نکلے ۔ ایک چرچ سے دوسرے چرچ اور ایک مسجد سے دوسری مسجد ۔
ہم نے کئی میوزیم بھی دیکھ ڈالے ۔
ہم سارا دن اندرون شہر کی گلیوں میں پیدل پھرتے رہے
مسلم کواٹر سے کرسچئین کواٹر اور پھر آرمنین Armenian Quarter سے ہوتے ہوئے ڈیوڈ ٹاور کو دیکھتے ہوئے ہم جیوش کواٹر Jewish Quarter میں داخل ہوگئے ۔
یروشلم شہر کو نسلی اور مذہبی اعتبار سے چار محلوں ( حصوں ) میں تقسیم کیاجا تا ہے ۔
کواٹر Quarter کا مطلب غالباًُ محلہ ہے
مسلم کواٹرز مسلمانوں کا محلہ ہے جو مسجد اقصیٰ کے گردونواح میں آباد ہے اس محلے میں نناوے فی صد مسلمان رہتے ہیں کہیں کہیں ایک دو گھروں پر ہم نے اسرائیلی پرچم بھی لہراتے دیکھے ۔
کرسچئین کواٹرز میں عیسائی رہتے ہیں اور یہ اس کلیسا (چرچ) کے گرد واقع ہے جسے کلیسائے مقبرہ مقدس
Church of the Holy Sepulchre
کہتے ہیں ۔ یہ عیسائیوں کا مقدس ترین مقام ہے اور عیسائی روایات کے مطابق اس جگہ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا گیا تھا ۔ یہاں پتھر کی وہ سل اب بھی رکھی ہے ۔ جس پر ان کی میت کو رکھا گیا تھا۔ اور انہیں غسل دیا گیا ۔
اس کلیسا کے اندر ان کا خالی مقبرہ بھی موجود ہے ۔ جس میں وہ آسمانوں پر جانے سے پہلے تین دن تک دفن رہے ۔
آرمنئین کواٹرز میں آرمنئین عیسائی رہتے ہیں اور اس محلے میں حضرت عمران کا وہ مکان واقع ہے جس میں حضرت مریم علیہ السلام پیدا ہوئیں اور پرورش پائی ۔ یہ محلہ جیوش کواٹرز اور مسیحی کواٹرز کے درمیان آباد ہے ۔
۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیلی جنگ سے پہلے یروشلم کے شمال مشرق میں ایک پانچواں محلہ بھی ہوا کرتا تھا جسے مغربی محلہ یا مراکو کواٹرز کہتے تھے ۔ یہاں مراکش ، موریطانیہ اور الجزائر کے وہ مسلمان آباد تھے جو سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کا حصہ تھے اور بارھویں صدی عیسوی میں یروشلم شہر کی فتح کے بعد یہاں آباد ہو گئے تھے ۔ یہ محلہ چونکہ دیوار گریہ کے اردگرد آباد تھا ۔ اس لئے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں فتح کے بعد جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تو یہودیوں نے اس محلے کو پیوند خاک کر دیا اور یہاں رہنے والے مسلمانوں کو جبراً جلا وطن کر دیا گیا تاکہ دیوار گریہ کے اردگرد کے علاقے کو کشادہ کر کے یہاں یہودیوں کی عبادت کے لئے جگہ بنائی جا سکے ۔ آجکل اس جگہ کو ویسٹرن وال پلازہ Western Wall Plazaکہتے ہیں ۔
جیوش کوارٹر یروشلم کے جنوب مغربی حصے میں دیوار گریہ کے اردگرد آباد ہے۔ جس میں صرف یہودی رہتے ہیں ۔
اس علاقے میں جا کر اندازہ ہوتا ہے نسلی اور مذہبی تعصب کیا ہوتا ہے ۔
کسی بھی عرب مسلمان یا فلسطینی کے لئے یہ علاقہ ممنوعہ ہے ۔
حمزہ نے شلوار قمیض اور بلال نے جبہ پہن رکھا تھا اس لئے یہاں ہمارا استقبال ناپسندیدہ نظروں سے کیا گیا ۔ انہوں نے یہ کپڑے نہ بھی پہن رکھے ہوتے تو بھی ہمارے چہروں پر رقم تھا کہ ہم اجنبی ہیں مسلمان ہیں ۔
اس لئے بے شمار نا پسندیدہ نگاہیں ہماری طرف اٹھتی رہیں ۔ ہر جگہ ہمیں ایسی ناگوار نظروں سے دیکھا گیا جیسے ہمارے سروں پر سینگ نکل آئے ہوں جیسے ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں ۔ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ہمیں خوش آمدید نہیں کہا جا رہا ۔
بس برداشت کیا جا رہا ہے ۔
لوگ ہماری طرف انگلیاں اٹھاتے رہے ۔ ہم پر ہنستے رہے ۔ لیکن ہمیں کسی نے روکا نہیں شائد اس لئے کہ ہمارے گردنوں میں سیاحوں والے تعارفی کارڈ لٹک رہے تھے ۔
ہم چلتے رہے ۔
اور یوں ہی گھومتے پھرتے حضرت عبداللّہ بن عمر کے مدرسے کی طرف جا نکلے۔ حضرت عبداللّہ بن عمر کے مدرسے کا دروازہ بند تھا ۔
میں نے دروازے پر دستک دینے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اندر سے ایک دبلا پتلا منحنی شخص برآمد ہوا ۔ جس کے جھریوں پڑے چہرے پر شیخ چلی جیسی داڑھی لٹک رہی تھی ۔ وضع قطع سے فلسطینی لگتا تھا لیکن تھا بہت خشک طبع اور آدم بیزار سا۔
عموماً فلسطینی ایسے نہیں ہوتے ۔
اس نے ہمارے ہر سوال کے جواب میں بیزاری سے نفی میں سر ہلایا اور مدرسے کو تالا لگا کر سائیکل پر چڑھا اور ایک طرف کو چل دیا ۔
یہ مدرسہ ایک بڑے چوک کے شمالی کونے میں مسجد سیدنا عمر کے احاطے میں واقع تھا ۔ اس مسجد اور مدرسے کے بارے میں صحیح طور پر تو معلوم نہیں کہ کب اور کس نے تعمیر کیا لیکن مجیرالدین العلیمی کی کتاب “ الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل “میں اتنا درج ہے کہ اس کی تعمیر نو ۱۳۹۷ء میں کی گئی تھی۔ مقامی روایات یہی ہیں کہ اسے ایک یہودی ربی نے تعمیر کروایا تھا ۔ جو مسلمان ہو گیا تھا ۔ ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد جب یہودیوں نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تو اس مسجد کو بند کر دیا گیا اور آج تک بند ہے ۔کیونکہ یہ جیوش کواٹرز کے عین وسط میں واقع تھی ۔ لیکن مدرسے کا نام اب تک اس کے دروازے پر لکھا ہے ۔ یہ مدرسہ اب بھی فکشنل ہے یا نہیں ۔ اور کیا اس مدرسے کا حضرت عبداللّہ بن عمر سے بھی کوئی تعلق تھا یا نہیں ان سوالات کے جوابات ہمیں دینے والا کب کا دروازے کو تالا لگا کر جا چکا تھا کوئی اور ذریعہ اس کی تصدیق کا موجود نہ تھا ۔ بعد میں تاریخ کی کتابوں سے بھی مجھے ان سوالات کے جوابات نہ مل سکے ۔
یہ چوک ایک گول دائرے کی شکل میں ہے جس کے مغربی سمت میں دوسری صدی عیسوی میں تعمیر شدہ رومی دور کے ایک کاریڈور کے کھنڈرات ہیں ۔جو سکینڈ ٹمپل کی تباہی کے بعد رومیوں نے شہر کے مرکز کو ماؤنٹ ٹمپل سے یہاں منتقل کرنے کے لئے بنایا تھا ۔ اس کاریڈور کا کچھ حصہ ، ستون اور فرش پر لگے موزہیک Mosaic کی خوبصورتی آج بھی بڑی حد تک محفوظ ہے۔ یہ کاریڈور پرانےیروشلم شہر کو دمشقی دروازے Damascus Gate سے جوڑتا تھا ۔ ایک طرف دیوار پر مدابا میپ کندہ تھا ۔ یہ کاریڈور یروشلم شہر کی موجودہ سطح زمین سے کافی نیچے واقع ہے اور اسے دیکھنے کے لئے سیڑھیاں اتر کر نیچے ایک مسطح جگہ پر جانا پڑتا ہے ۔
اردن کے شہر مدابا Madaba میں عیسائیوں کا ایک قدیم ترین بزنطیینی چرچ ہے۔ جو سینٹ جارج Saint George سے منسوب ہے یہ چرچ ۳۵۰ء کے لگ بھگ تعمیر ہوا ۔ اس چرچ کے فرش کے موزئیک میں یروشلم شہر کا نقشہ بنایا گیا تھا جو تاریخ میں مدابا میپ Madaba Map کے نام سے مشہور ہے ۔ اس نقشے میں اس کاریڈور کو بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیاہے۔
ہم دوہزار سال پرانے اس کاریڈور کے کھنڈرات کو دیکھنے کے بعد سیڑھیاں چڑھ کر دوبارہ چوک میں آگئے ۔ اس چوک کے تین اطراف میں قسما قسم کی دکانیں تھیں ۔ جن میں زیادہ تر کھانے پینے کی دکانیں تھیں ۔ میکڈونلڈ ، کے ایف سی ، سٹاربکس اور دوسری برانڈڈ دکانیں پرانے یروشلم میں پہلی بار ہم نے اس علاقے میں دیکھیں ۔ جن کے باہر خوش پوش یہودی اپنے خاندانوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ بچے کھیل رہے تھے ۔ خوب ہل چل تھی ۔قہقہے گونج رہے تھے ۔ ایک جشن ایک میلے کا سا سماں تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں کوئی غم نہیں ہے یہ دنیا کا خوشحال ترین علاقہ ہے اور ہوتا بھی کیوں نہ ۔
وہ تو فاتح تھے قابض تھے انہوں نے سارے غم سارے دکھ ساری تکلیفیں تو ان مظلوموں کی جھولی میں ڈال دئیے تھے جن کی زمین پر وہ قبضہ کئے بیٹھے تھے ۔
ہم جیسے ہی چوک میں نمودار ہوئے ان کے قہقہوں پر جیسے بریک سی لگ گئی ۔ ہر کوئی ہمیں حیران اور پریشان نظروں سے دیکھنے لگا ۔ لیکن ہم انہیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ گئے ۔
تھوڑی دور ایک اور بڑا چوک آیا جس میں چوک کے کے دونوں جانب ایک جیسے دو کنیسہ synagogue بنے تھے یہودیوں کی عبادت کی جگہ ۔ بناوٹ میں دونوں ایک جیسے تھے جیسے جڑواں ہمشکل بھائی ہوں لیکن ایک ذرا سائز میں بڑا تھا تھا ۔۔ جس کی چھت پر بہت سے یہودی سپاہی پہرا دے رہے تھے کنیسہ کے دروازے پر خوش پوش یہودیوں کا میلہ سا لگا تھا شائد ان کی عبادت کا وقت تھا۔
یہ پرانے یروشلم کا سب سے بڑا کنیسہ ہے ۔ اس کا نام ہروا کنیسہ Hurva Synagogue ہے ۔ اور ہروا ربی کے پیروکاروں نے یہ کنیسہ چودہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا تھا لیکن ۱۷۲۱ء کو سلطنت عثمانیہ کے دور میں اسے پیوند خاک کر دیا گیا کیونکہ یہودیوں نے اس کا ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد یہ کھنڈرات کی صورت میں کھڑا رہا اور اس کا نام کنیسہ برباد Ruin Synagogue پڑ گیا ۔ ۱۸۶۴ء میں اشکانزی ( مشرقی یورپین ) یہودیوں نے ٹیکس ادا کر کے اسے دوبارہ تعمیر کر لیا ۔ بعد میں ۲۰۱۰ ء میں اس کی تعمیر نو کی گئی ۔
اس کنیسہ کے باہر خالص سونے کا بنا ایک بہت بڑا قد آدم مینورا Menorah نصب تھا۔ جس کے گرد شیشے کا ایک حفاظتی خول بنایا گیا ہے ۔ عبرانی بائیبل کی پہلی جلد “ کتاب پیدائش Book of Genesis” کے مطابق اللّہ نے توریت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مینورا بنانے کا طریقہ بتایا تھا ۔
مینورا ایک سات شاخوں والا لیمپ ہے جو خیمہ اجتماع یا مشکان (Tabernacle )میں روشنی کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ خیمہ اجتماع وہ سفری خیمہ تھا جو چالیس سال تک صحرا میں بھٹکنے کے دوران یہودیوں کے عبادت خانے کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ رکھا جاتا تھا۔ یہودیوں کی روایات کے مطابق تابوت سکینہ کے ڈھکنے پردو فرشتوں کے مجسمے تھے جن کے ذریعے اللّہ حضرت موسیٰ اور ان کے بعد دوسرے یہودی پیغمبروں سے مخاطب ہوتا تھا ۔ اور جب حضرت سلیمان نے ہیکل سلیمانی (فسٹ ٹمپل )تعمیر کر لیا تو مینورا اور تابوت سکینہ کو ہیکل میں منتقل کر دیا گیا ۔ چار ہزار سال سے مینورا یہودیوں کی مقدس ترین مذہبی علامت کے طور پر استعمال ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اِس چوک میں نصب یہ مینورا اُس مینورا کی نقل ہے جو ہیکل سلیمانی میں نصب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہیکل سلیمانی میں میں ایسے دس مینورا تھے اور پھر جب شہنشاہ ہیروڈ اعظم نے سکینڈ ٹمپل (ہیکل ثانی ) بنوایا تو اس نے بھی ایسے ہی دس مینورا جو سونے کے بنائے گئے تھے سکینڈ ٹمپل میں نصب کروائے تھے ۔مینورا آج بھی یہودی مذہب کی شناخت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔یہودیوں کے ہر کنیسہ اور قبرستان میں آپ کو قد آدم مینورا نصب نظر آئے گا ۔ یہ ریاست اسرائیل کا سرکاری نشان بھی ہے ۔
جس میں زیتون کی دو شاخوں کے درمیان مینورا بنا ہے ۔
رومی تاریخ نگار پروکوپئیس Procopius نے لکھاہے کہ پہلی صدی عیسوی میں جب رومی جرنیل ٹائٹس Titus نے سکینڈ ٹمپل کو تباہ کیا۔ یروشلم کو جلا کر راکھ کردیا اور یہودیوں کو یروشلم سے جلا وطن کیا تو رومی مینورا کو اٹھا کر روم لے گئے ۔ رومی شہنشاہ ڈومیشین Domitian نے ۸۱ ء صدی عیسوی میں روم شہر میں اس فتح کی یاد میں اپنے بھائی ٹائیٹس Titus کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک گیٹ بنوایا ۔
جسے آرچ آف ٹائیٹس
Arch of Titus کہتے ہیں
اس میں اس نے مینورا اور یروشلم کی فتح اور اس کی تباہی کی تصاویر کندہ کروائیں ۔ ان تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے رومی سپاہی مینوراکو اٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔
یہ گیٹ آج بھی روم میں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے ۔
۱۹۴۸ ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یہودیوں نے آرچ آف ٹائٹس میں لگی مینورا کی اسی تصویر کو اپنی ریاست کا سرکاری نشان قرار دیا اور اس کی یاد میں سونے کا یہ مینورا بنوایا جسے بنانے میں سو کلو سے زیادہ خالص سونا استعمال کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ مینورا اور یہ کنیسہ روتھس چائلڈ خاندان کا ریاست اسرائیل کے لئے تحفہ تھا ۔ اسے یروشلم کے اس سب سے بڑے کنیسہ کے باہر علامت کے طور پر نصب کیا گیا۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جب وہ قبتہ صخرا اور مسجد اقصٰی کی جگہ ٹمپل ماؤنٹ پر تھرڈ ٹمپل تعمیر کریں گے تو اس مینورا کو قبتہ صخرا کی چٹان کے نیچے بنی غار میں نصب کیا جائے گا ۔
کنیسہ کے باہر لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی ان کی عبادت ختم ہوئی ہو
یہاں بھی ہمیں نفرت بھری اور ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا جیسے ہم اچھوت ہوں ۔ لیکن ہم ان کے درمیان سے گذرتے ہوئے ایک گلی میں گھس گئے ۔ اس گلی کی دونوں جانب جھروکوں سے رنگ بھرنگی دلکش رنگوں والی پھولوں کی بیلیں لٹک رہی تھیں بوگن بیلیا کی ان بیلوں نے اس گلی میں جیسے رنگ سے بکھیر دئیے تھے۔ اتنی خوبصورت گلی ہم نے یروشلم میں اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی ۔ یہ لمبی ، پتھریلی اور تنگ مگر صاف ستھری گلی ہمیں ایک بہت اونچی جگہ لے گئی اس جگہ پر ایک کھلا چبوترا بنا تھا ۔ جہاں سے دیوار گریہ کا منظر بہت نمایاں تھا۔
جس کے سامنے سینکڑوں یہودی یل ہل کر زور زور سے عبادت کر رہے تھے ۔
ان کی آواز کی گونج ہمیں صاف سنائی دے رہی تھی دیوار گریہ کے اوپر ٹیمپل ماؤنٹ پر دائیں جانب مسجد اقصٰی اور بائیں جانب قبة صخرا تھا ۔ اس اونچے ٹیلے سے سیڑھیوں والا ایک راستہ سیدھا دیوار گریہ کی طرف جاتا تھا جو چند سو میٹر نیچے ایک کھلے میدان میں واقع تھی ۔
ڈوبتے سورج کی شعاعیں جب قبة صخرا کے سنہری گنبد سے منعکس ہوتیں تو لگتا جیسے آسمان کے دروازے کھل گئے ہیں ہیں اور نور کی بارش ہورہی ہے ۔
یہ ایسا منظرتھا جس نے بڑی دیر تک ہمارا دامن تھامے رکھا۔
یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ان سٹرھیوں سے اتر کر دیوار گریہ کی طرف جا رہی تھی ہر راہ گزار جب یہاں اس کھلی جگہ پر پہنچتا تو ڈوبتے سورج کا یہ حسین منظر چند لمحوں کے لئے ان کا دامن ضرور تھام لیتا۔ وہاں سے ہٹنے کو دل نہیں چاہتا تھا لیکن ہم زیادہ دیر وہاں نہیں ٹھہرے ۔
ہمیں احساس تھا کہ کیمروں کی بے شمار نادیدہ آنکھیں بھی ہمیں دیکھ رہی ہیں ۔
یروشلم کی ہر گلی میں ، ہر نکڑ پر چند سو میٹر کے فاصلے پر کیمرے نصب ہیں جن کی ہر وقت جاگتی آنکھوں سے بچنا ناممکن ہے ۔
ہم نیچے اتر کر ایک اور پتلی سی تنگ گلی میں داخل ہوئے جو ہمیں ایک بار پھر کرسچین کوارٹر کی طرف لے گئی ۔
اب سورج ڈھلنے لگا تھا
ہم یوں ہی اونچی نیچی گلیوں سے
گز رتے رہے سارا دن ان مقامات کو کھنگالنے میں گذر گیا تھا ۔ اونچی نیچی گلیاں ، تنگ اور کشادہ ناہموار راستے ، چھوٹی پہاڑیوں کے نشیب و فراز ، چھوٹی اور بڑی سٹرکیں ، عسکری قلعے اور پھولوں کی بیلوں سے لدی امراء کی حولیاں ، اونچے نیچے ، بڑے اور چھوٹے ، نئے اور پرانے مکان ، خوشحال اور زوال پزیر محلے ، چھوٹی اور بڑی مساجد نئے اور پرانے ، چھوٹے اور بڑے چرچ غرض مشرقی یروشلم کی کون سی ایسی جگہ تھی کون سی ایسی گلی تھی جہاں ہم نہ گئے لیکن ہمیں وہ معاہدہ نہ ملا لیکن اسی بہانے یروشلم کی سیر ہوگئی جب ہم حضرت عیسیٰ کے چرچ کے سامنے سے دوبارہ گذرے تو اس کے سامنے اونچے ٹیلے پر بنی مسجد عمر سے مغرب کی اذان بلند ہونے لگی ۔ یہاں سے مسجد اقصٰی دور نہیں تھی ہم اگر کوشش کرتے تو وہاں جماعت کے ساتھ شامل ہو سکتے تھے لیکن بلال کہنے لگا بابا کیوں نہ ہم مغرب کی نماز مسجد عمر میں پڑھیں اور اگر موقعہ ملے تو امام مسجد سے اس معاہدے کے بارے میں پوچھا جائے اس کی بات دل کو لگی یہ مسجد چرچ کے بالمقابل ایک بہت اونچی چٹان پر ہے ۔ ہم کئی سو سیڑھیاں چڑھ کر مسجد عمر میں داخل ہو گئے ۔
صبح ہم نے اپنی تلاش کا آغاز اسی مسجد سے کیا تھا اس وقت مسجد کے ملحقہ ہال میں خواتین کا کوئی پروگرام چل رہا تھا اس لئے ہم مسجد کے مرکزی ہال میں دو رکعت نفل پڑھ کر باہر نکل آئے تھے اور کسی بھی ذمہ دار آدمی سے نماز کے اوقات نہ ہونے کی وجہ سے ملاقات نہ ہو پائی تھی ۔
ہم نے نماز کے بعد امام مسجد سے ملاقات کی وہ تیس بتیس سال کا ایک لمبا تڑنگا نوجوان آدمی تھا ۔ گورا چٹا رنگ ، گھنگھیریالے بال ، چھوٹی چھوٹی دلکش کالی داڑھی اور آنکھوں میں تیز چمک لئے وہ مجموعی طور پر ایک شاندار اور وجیہہ شخص نظر آتا تھا ۔ مہمان نوازی کے اصولوں سے بخوبی واقف بھی ۔
جب حمزہ نے عربی میں اپنا تعارف کروایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو اس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ وہ اور بھی زیادہ خوبصورت لگنے لگا ۔
اس نے اٹھ کر ہمیں باری باری گلے لگایا اور جب اسے ہماری آمد کی وجہ معلوم ہوئی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔ کہنے لگا اب ایسے لوگ بہت کم آتے ہیں جنہیں ایسی چیزوں کی تلاش ہو تی ہے ۔ پھر اس نے بتایا کہ معاہدے کی اصل کاپی جو پچھلے چودہ سو سال سے اسی سامنے والے چرچ میں موجود تھی ۔ اسے کچھ سال پہلے یہودی حکومت نے کہیں غائب کر دیا ہے ۔ کیونکہ اس معاہدے کی پہلی شق میں عیسائیوں کی طرف سے حضرت عمر کی خدمت میں درخواست کی گئی تھی کہ وہ یروشلم کے یہودیوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے لہذٰ ا یروشلم میں یہودیوں کے داخلے اور رہائش پر پابندی لگا دی جائے ۔
اسی لئے وہ انتہائی اہم اور قیمتی دستاویز ان کے غضب کا شکار ہوگئی ہے ۔
اورپھر وہ افسوس بھرے لہجے میں کہنے لگا کہ اب اصل معاہدہ تو شائد کبھی بھی کوئی نہ دیکھ سکے لیکن میں نے اس کی ایک نقل فریم کروا کر اس مسجد میں لگوا رکھی ہے ۔
اس نے بہت سی فریم شدہ تصویروں کے درمیان لٹکی وہ نقل ہمیں دکھائی ۔
ہم صبح بھی اس مسجد میں آئے تھے لیکن وہ نقل ہماری نظروں سے نہیں گذری تھی ۔ اس نے ہمیں مسجد کی پتھر کی بیرونی دیوار پر داخلی دروازے کے بائیں جانب کندہ اس معاہدے کی ایک نقل بھی دکھائی جو ہم نے صبح بھی دیکھی تھی ۔
پھر وہ اصرار کر کے ہمیں مسجد سے ملحقہ اپنے گھر لے گیا ۔ سادہ سا دو کمروں پر مشتمل گھر تھا اس نے ہمیں اپنی بیوی سے ملوایا اور بڑے فخر سے کہنے لگا کہ ہم معاہدہ عمر کو تلاش کر رہے ہیں ۔
اس کی بیوی بھی بہت پڑھی لکھی خاتون تھی اسی مسجد کے مدرسے میں معلمہ تھی ۔
ان کی تین سالہ بیٹی بہت خوبصورت اور ملنسار تھی ۔ اسکا نام اقصیٰ تھا ۔وہ جلد ہی ہم سے مانوس ہوگئی ۔ بلال نے جیب سے چاکلیٹ نکال کر اسے دئیے تو پھر وہ ہماری گود سے نیچے نہیں اتری ۔
ان دونوں میاں بیوی نے ہماری بہت خاطر مدارت کی وہ ہمیں کھانے کے لئے روکنا چاہتے تھے لیکن ہمیں ہر صورت عشاء کی نماز مسجد اقصیٰ میں پڑھنا تھی جہاں ہم نے ڈاکڑ حلاق سے ملنے کا وعدہ کر رکھا تھا ۔ عشاء کا وقت ہوچلا تھا لہٰذا ہم ان کا شکریہ ادا کر کے اور ان سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے واپس لوٹ آئے ۔ ہمیں یوں جاتے دیکھ کر ننھی اقصیٰ رونے لگی ۔
جب ہم مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے۔ تو فضا میں عشاء کی اذان گونج رہی تھی ۔
ہمیں اصل معاہدہ تو نہ ملا لیکن اس کی نقل مسجد عمر ؓ میں لٹکی ضرور مل گئی تھی ۔
اور ہمارے لئے یہی بہت تھا
تشنگی تو باقی تھی لیکن بے قرار دل کو جیسے قرار سا آ گیا تھا ۔
جب فتح یروشلم کے بعد حضرت عمر ؓ فلسطین تشریف لائے تو انہوں نے عیسائیوں کے دو مقدس مقامات کے باہر نماز پڑھی تھی ۔ لیکن چرچ کے اندر نہیں گئے۔ صرف اس لئے کہ مستقبل میں مسلمان کہیں ان چرچوں کو مسجد میں تبدیل نہ کر دیں اور انہوں نے دونوں جگہ مسجد تعمیر کروانے کا حکم دیا ۔
یہ دونوں مساجد ان چرچوں کے سامنے آج بھی موجود ہیں ۔
ان میں سے ایک مسجد بیت اللحم میں اس چرچ Church of Trinity کے سامنے ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے ۔
اور دوسری مسجد انہوں نے اس چرچ کے سامنے تعمیر کروائی جس میں عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ دفن ہیں جسے Church of the Holy Sepulchre کہتے ہیں ۔
اور ان دونوں مساجد کو مسجد عمر کہتے ہیں ۔
انہوں نے ایک تیسری مسجد اس جگہ بنوائی جہاں روایات کے مطابق رسول اکرم صلعم نے معراج پر جانے سے پہلے تمام
انبیاء کی امامت کروائی تھی
یہ مسجد آج مسجد اقصٰی کہلاتی ہے ۔
یروشلم کی مسجد عمر ؓ کے بڑے ہال میں اس معاہدے کی نقل ایک فریم میں لٹکی ہو ئی تھی ۔
اس کے علاوہ اس کی عبارت ایک بڑی سنگ مرمر کی تختی پر کندہ کی گئی ہے جو مسجد کے داخلی دروازے کے بائیں جانب آویزاں ہے ۔
یہ معاہدہ قدیم عربی زبان میں تھا جسے پڑھنے میں حمزہ کو دشواری ہو رہی تھی ۔ لیکن بالآخر اس نے سارا معاہدہ پڑھ ہی لیا ۔
اس کے نیچے مسلمانوں کی طرف سے چار صحابہ اکرام کے دستخط تھے
جن میں
حضرت خالد بن ولید ؓ
حضرت عمر بن العاص ؓ
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ
حضرت امیر معاویہ بن ابوسفیانؓ
کے نام شامل تھے ۔
حمزہ اس معاہدے میں لکھی تحریر کا ترجمہ کر رہا تھا ۔
لیکن میرا ذہن کہیں اور تھا
میں چشم تصور سے وہ منظر دیکھ رہا تھا ۔
جب سارا یروشلم باب دمشق کے باہر جمع تھا شائد ہی کوئی شخص فصیلوں کے اندر باقی رہ گیا تھا ۔
مسلم لشکر بھی اپنے تمام سرکردہ سالاروں کے ساتھ موجود تھا ۔
ہر شخص کی نگاہیں عرب سے یروشلم آنے والے اس راستے پر جمی تھیں جہاں سے اس شخص کی آمد متوقع تھی جس نے دینا کی دونوں سپر پاورز کواپنی حکمت دانائی اوربہادری سے اپنے قدموں تلے روند دیا تھا۔ جس کی فوجوں کے سامنے نہ رومیوں کے لشکر ٹھہر سکے اور نہ ایرانیوں کی افواج ۔
یروشلم کے عیسائیوں کے چہروں پر فکر و پریشانی کے بادل چھائے تھے ۔
انہیں پتہ تھا کہ ان کی قسمت اور مستقبل کا دارومدار اس آنے والے کے ہاتھوں میں ہے ۔
جو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔
لوگ بڑی بے چینی سے نظریں جمائے اس سمت دیکھ رہے تھے ۔ جہاں آنے والوں کے قدموں سے گرد اٹھ رہی تھی ۔
گرد چھٹی تو اچانک دو شخص آتے دکھائی دئیے ۔ ایک اونٹ پر سوار تھا اور دوسرا اس اونٹ کی نکیل ہاتھ میں تھامے آگے آگے چل رہا تھا ۔
اہل یروشلم کو اپنی آنکھوں پر اور کانوں پر یقین نہ آیا جب مسلم فوج کے سپاہیوں نے آنے والے کو پہچان کر
“یا امیر المنین “ کے نعرے لگانے شروع کر دئیے ۔ چشم فلک نے ایسا منظر کب دیکھا تھا کہ کبھی دنیا کے سب سے طاقتور شخص کی سواری محض ایک اونٹ پر مشتمل ہوگی ۔
اہل یروشلم کا خیال تھا کہ شائد وہ شخص جو اونٹ پر سوار ہے وہ مسلمانوں کا امیر المنین ہے ۔
لیکن ان کی حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب انہیں بتایا گیا کہ جو اونٹ پر سوار ہے وہ تو غلام ہے اور جو اونٹ کی نکیل پکڑے آگے آگے پیدل چل رہا ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک ہے ۔
طبری نے لکھا ہے کہ یروشلم کا حکمران جو خود ایک بہت بڑا عالم اور پادری تھا بے
اختیار چلا اٹھا کہ “یسوع مسیح کی قسم ہماری کتابوں میں ایسا ہی لکھا ہے کہ یروشلم کو فتح کرنے والا وہی ہوگا جو پیدل اوںٹ کے آگے آگے چل رہا ہوگا ۔ “
آنے والا قریب پہنچا۔ اس کی فقیرانہ وضع قطع میں قیصر روم اور کسریٰ شاہ ایران سے زیادہ جاہ وجلال تھا ۔ اس کے مٹی سے اٹے چہرے پر ایسا رعب و دبدبہ تھا کہ اہل یروشلم کانپ اٹھے ۔
یروشلم کا حاکم صفرونيوس اپنے درباریوں اور مصاحبوں سمیت اپنے گھٹنوں پر گر گیا ۔
مسلم فوج کے سپریم کمانڈر حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓ ، حضرت عمرو بن العاص ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ سمیت دیگر سالاروں نے آگے بڑھ کر آپ کا خیر مقدم کیا ۔
آپ سب سے پہلے ٹمپل ماؤنٹ پر اس جگہ تشریف لے گئے جہاں اس وقت ایک چٹیل میدان تھا آپ نے ایک جگہ منتخب کی جہاں آپ کے خیال میں معراج کی رات سارے پیغمبروں نے میرے پیارے نبی صلعم کی امامت میں نماز ادا کی تھی آپ نے وہاں دو نفل شکرانے کے ادا کئے ۔ اور وہاں ایک مسجد بنانے کا حکم دیا ۔
پھر وہ اس چرچ پر پہنچے جہاں عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام دفن ہیں عصر کا وقت ہو چلا تھا۔ آپ نے نماز عصر اداکرنے کی خواہش ظاہر کی تو
یروشلم کے حاکم صفروینوس نے آپ کو چرچ کے اندر آنے کی دعوت دی جو آپ نے ٹھکرا دی ۔
پھر آپ نے اس چرچ کے سامنے ایک اونچے ٹیلے پر نماز عصر ادا کی جہان آج میں کھڑ ا تھا ۔
نماز کے بعد صفرونيوس نے شہر اور چرچ کی چابیاں پیش کیں
آپ نے سارے شہر کو جان اور مال کی امان دی اور فرمایا کہ “ جو یہاں رہنا چاہتا ہے اس کی جان ومال اور عزت کے ضامن مسلمان ہو ں گے اور جو یہ شہر چھوڑ کر جانا چاہتا ہے اس سے کوئی تعرض نہیں “۔
پھر وہ معاہدہ لکھا گیا جس کی تلاش میں ہم نے آج سارے شہر کی گلیاں چھان ماری تھیں ۔
دوسری صدی عیسوی میں رومیوں نے یروشلم کا نام تبدیل کر کے إيلياء رکھ دیا تھا آپ نے شہر کا نام إيلياء سے بدل کر القدس کر دیا ۔
معاہدے میں اس شہر کا نام إيلياء ہی درج ہے ۔
اور یوں کئی ہزار سال تک یروشلم رہنے والا شہر جو پچھلے چھ سو سال سے إيلياء کہلاتا تھا القدس بن گیا ۔
اس معاہدے کو چرچ کے اندر بڑے داخلی دروازے کے سامنے لٹکا دیا گیا۔
اور اب صدیوں بعد یہودیوں نے اس معاہدے کو نہ جانے کس کال کوٹھری کی نذر کر دیا ہے ۔
تبصرہ لکھیے