اللہ تعالی نے آپ کو اتنا لہو دیا ہے کہ آپ چند بوتلیں خون کی کسی اورکو دے دیں تو آپ کی صحت پر برا اثر نہیں پڑتا۔لوگ تو آگے بڑھ کر essential organs یعنی گردہ، جگر اور آنکھیں بھی عطیہ کرتے ہیں۔
اپنے مال میں سے ڈھائی فیصد نکالنا تو کیا ایک غریب بھی اپنی ایک روٹی کو آدھا کر کے دوسرے کو بانٹ کر عجب سکون محسوس کرتا ہے۔
مال ہی نہیں آپ کے پاس ہمیشہ وقت اور صلاحیت کا اتنا ذخیرہ موجود ہوتا ہے کہ آپ اپنے اور اپنے خاندان پر صرف کرنے کے باوجود کسی بلند تر مقصد کے لیے لگا سکتے ہیں۔
مذہب ہی نہیں، فلسفہ بھی اسے اعلی ترین انسانی اقدار میں شامل کرتے ہیں۔
Something to strive for which is bigger than you.
یہاں سے زیادہ محنت، ایثار، شجاعت، بہادری کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنے جسم اور خاندان کو اس کا حق دینا ضروری ہے۔ کہ افضل دینار وہ ہے جو آپ اپنے آپ اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر محض دینار اور اپنے مفاد کا بندہ بن کر رہ جانا کوئی اعلی بات نہیں ہے۔
میں سکزوفرینیا کے ایسے مریض سے ملی ہوں جو مسلسل غیبی آوازوں کو ڈس ٹریکٹ کرنے کو رضاکارانہ کام کرتے تھے۔ مغربی مینٹل ہیلتھ ماڈل میں بھی طویل ذہنی معذوری اور کرانک سایکوسس کی rehabilitation میں رضاکارانہ کام کو شامل کیا جاتا ہے۔ گویا کہ جب انسان دوسروں کے لیے یا کسی بڑے مقصد کے لیے نکلتا ہے تو اس کی ذات کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
دیکھیے ۔۔۔ آپ کے گھر کے ہزار ایسے مسائل ہیں جو آپ کو گھیرے ہی نہیں رکھتے بلکہ آپ کی عزت نفس، سیلف ورتھ گھٹا دیتے ہیں۔ زندگی میں ناامیدی اور پژمردگی طاری ہونے لگتی ہے۔ طویل بیماری، معاشی مشکلات، گھریلو جھگڑے ایسے ہی چند مثالیں ہیں ۔ زندگی سے، انسانوں سے، مستقبل سے حال سے یہاں تک کہ خدا تک سے بھلائی کی امید اٹھنے لگتی ہے۔ شکوے سارے وجود میں بسیار ڈال کر سیم و تھور کی طرح کڑوا کردیتے ہیں ۔
ایسے میں جب آپ اللہ کی خاطر زندگی کے جھمیلوں میں سے نکل کر کچھ وقت، کچھ صلاحیتوں کا ایثار کرتے ہیں تو بدلے میں آپ کو بہت کچھ ملتا ہے۔
آپ کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں امید نظر آتی ہے۔ آپ کے کسی اچھے کام کا اچھا نتیجہ نکلے تو آپ سوچتے ہیں زندگی میں ہر طرف ہی ناامیدی نہیں ہے۔
اپنی صلاحتیوں کی دریافت ہوتی ہے۔
لوگوں سے معاملات کرتے ہیں تو میچورٹی آتی ہے اور ہر وقت لوگوں کی شکایتیں نہیں اٹھائے پھرتے کیوںکہ آپ کو ڈیل کرنا آجاتا ہے۔
سٹریس ٹالریینس یعنی دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ سب آپ کی اپنی مینٹل ہیلتھ کی لیے ضروری ہے۔ البتہ اس کا بڑے کینوس میں فائدہ دیکھنا ہو تو دنیا کے ان انسانوں کی زندگیوں کو پڑھیے جنہوں نے دنیا کے حالات کا رخ موڑا۔ انبیائے کرام علیہم السلام نے تو اللہ کی رضا کے لئے اس کے بندوں کی خاطر اپنی زندگی لٹا دی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سلف صالحین تک۔ کون صرف اپنے لئے جیا؟
غیر مسلم شخصیات میں بھی آپ نیلسن منڈیلا سے لے کر سو نام لے سکتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی ذات سے بڑھ کر زندگی کھپائی۔ دوسرے لوگ ایسے کام کرتے ہیں تو دنیا میں بہتری آتی ہے۔ معاشروں کی بہتری ہوتی ہے۔ مسلمان ایسے خیر کے کام میں وقت لگاتا ہے تو دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت میں بھی اس کا اجر ملے گا ان شاء اللہ
البتہ کاموں اور معاملات میں اعتدال آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کا خیال رکھیں کہ آپ کی بے اعتدالی کے سبب اس اعلی ترین کام اور مقصد کی بدنامی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کی ذات کے ضروریات، آپ کا گھر ، بچے، آپ سے جڑے رشتوں کے حقوق بہت زیادہ متاثر ہوئے تو ان کا بھی نقصان، آپ کا بھی اور اس مقصد کا بھی جس سے آپ وابستہ ہیں۔
کیونکہ کچھ لوگ تو انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ آپ سے کوئی چوک ہو اور وہ انگلی اٹھا کر دنیا کو بتائیں کہ دیکھا ہم کہتے ہیں نا۔۔۔
ایسے ہوتے ہیں دیندار لوگ!
تبصرہ لکھیے