ہوم << آخری زندہ صحابی - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

آخری زندہ صحابی - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

ابھی تاریکی پوری طرح چھٹی نہیں تھی کہ ہم نماز فجر ادا کر کے ہوٹل سے نکل پڑے۔
اور ٹریفک بڑھنے سے پہلے پہلے شہر کے مضافات میں پہنچ گئے۔
آج ہمارا ارادہ مشرق کی طرف جانے کا تھا۔ اردن کے جنوب مشرق میں سعودی عرب اور شمال مشرق میں عراق واقع ہے۔
عمان سے تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر دور ارزق نامی قصبے کے قریب
لق و دق صحرا میں وہ درخت آج بھی موجود ہے جسے رسول اکرم ﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوااور جس نے میرے پیارے نبی ﷺ کو اس وقت دھوپ کی تمازت اور شدت سے بچایا تھا جب وہ بارہ سال کے تھے۔
اس درخت کو شجربقیعاویہ
شجر حیاة اور صحابی درخت بھی کہتے ہیں۔
اندھیرا آہستہ آہستہ چھٹنے لگا تھا۔
اور سورج جیسے ہمارے عین سامنے سڑک کے درمیان سے اگ رہا تھا۔
سڑک کی یہ خستہ حالی دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے سرگودھا بھلوال روڈ آگئی۔
سڑک کا ہر گڑھا مجھے وطن عزیز کی یاد دلاتا رہا۔
دور دور تک ریت کے ٹیلے بکھرے ہوئے تھے جن کے درمیان سے گزرتے تاریکی میں ڈوبے بجلی کے دیو ہیکل بھوت نما کھمبے بڑا عجیب سا تاثر دیتے تھے جیسے یہ سارا علاقہ آسیب زدہ ہو ۔ انسانی آبادی کا دور دور تک نام ونشان نہیں تھا ۔ لگتا تھا یہاں ہر طرف بھوتوں کا راج ہے ۔ اردن کا یہ علاقہ شمالی حصے سے یکسر مختلف ہے جو شام کی سرحد کی طرف واقع ہے جس کی وادی اردن قدرتی حسن ، سبزے اور ہریالی کی دولت سے مالا مال ہے۔
شہر سے باہر نکل کر حمزہ نے گاڑی روک دی اور مجھ سے گاڑی ڈرائیو کرنے کی درخواست کرنے لگا ۔ اسے شدید نیند آرہی تھی ۔ جب میں سیٹ بدلنے کے لئے گاڑی سے اترا تو صحرا کی ٹھنڈی ٹھنڈی خوشگوار ہوا نے جیسے جسم میں ایک دم تازگی سی بھر دی۔
میں نے لمبی لمبی دو تین سانسیں لے کر تازہ ہوا کو پھیپھڑوں میں مقید کیا اور کار چلانے لگا ۔جیسے جیسے سورج بلند ہو رہا تھا ڈرائیونگ مشکل ہوتی گئی سورج کی تیز شعاعیں آنکھوں کو چندھیا رہی تھیں سامنے سڑک پر نگاہ جمانا دشوار تھا۔
سڑک کے گڑھوں اور سیدھی آنکھوں میں پڑنے والی روشنی کی وجہ سے کار چلانا دشوار تر ہوتا جارہا تھا۔ سنگل روڈ پر سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
خوش قسمتی سے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی ورنہ ڈرائیونگ ناممکن ہوجاتی ۔سامان سے لدا ہوا بڑا ٹرک جب سامنے سے آتا تو اسے راستہ دینے کےلئے مجھے گاڑی سڑک سے نیچے اتار کر روک دینا پڑتی۔
پہلے کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور نہ کبھی زندگی میں سورج کی سیدھ میں اتنی شکستہ حال سڑک پر اس طرح اتنی دیر تک گاڑی چلائی تھی۔
حمزہ ساتھ والی سیٹ پر چھوٹے چھوٹے خراٹے لے رہا تھا اور بلال پچھلی پوری سیٹ پر ٹانگیں پسارے
سو رہا تھا ۔مجھے ان پر غصے کے ساتھ ساتھ رشک بھی آرہا تھا ۔خدا خدا کر کے ساڑھے سات بجے ہم ایک چھوٹے سے قصبے میں پہنچے۔
جس کا نام ارزق ہے۔ ارزق سعودی عرب سے عراق جانے والی شاہراہ پر واقع ہے جو اردن سے گزرتی ہوئی عراق سے ہوتی ہوئی شام کی طرف نکل جاتی ہے ۔ موجودہ سڑک قدیم تجارتی گزرگاہ سے چند کلومیٹر دور واقع ہے ۔ میں ارزق پہنچ کر عراق کی طرف جانے والی سڑک پر مڑ گیا۔
اکا دکا کھانے پینے کی دکانیں کھلی تھیں ۔بچے گلے میں بیگ لٹکائے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں سکول کی طرف رواں دواں تھے۔
مجھے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔
میں نے گاڑی ایک بیکری کے سامنے روکی ۔حمزہ اندر سے ناشتے کا کچھ سامان لے آیا اور چند ہی منٹوں میں ہم شہر سے باہر نکل آئے ۔یہاں سے اس آخری زندہ صحابی کی درگاہ بیس کلو میٹر تھی ۔ باہر کا منظر یکسر بدل گیا تھا۔
ریت اور ٹیلوں کی جگہ اب سڑک کی دونوں جانب حد نگاہ تک ایک چٹیل میدان نظر آتا تھا جس میں سرمئی اور کالے رنگ کے بجری کی طرح کے چھوٹے پتھر بکھرے پڑے تھے جیسے کسی نے ترتیب سے پتھر وں کی تہہ یہاں بچھائی ہو۔
ایسا منظر میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حمزہ اب جاگ رہاتھا جبکہ بلال ابھی بھی لمبی تان کر سو رہا تھا۔
پوچھنے پر حمزہ نے بتایا کہ ایسے میدان لاوہ فیلڈ کہلاتے ہیں۔
صدیوں پہلے غالباً اس علاقے میں کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹا تھا جس سے نکلنے والے لاوے نے
یہ منظر تشکیل دیا تھا۔
کوئی دس کلو میٹر کے بعد گوگل نے ہمیں دائیں جانب مڑنے کا اشارہ کیا ۔یہ ایک بہت ہی تنگ اور چھوٹی سی سڑک تھی جو تاحد نگاہ تک کسی سانپ کی طرح بل کھاتی چلی گئی تھی ۔جس پر ایک وقت میں صرف ایک ہی گاڑی چل سکتی تھی لیکن خوش قسمتی سے سامنے سے کسی گاڑی نے ہمیں تنگ نہ کیا۔
دور دور تک پتھروں کا یہ میدان پھیلا تھا جس میں کہیں کہیں کوئی جڑی بوٹی اگی نظر آتی تھی ۔کچھ دور جا کر سڑک اچانک بھیڑ بکریوں سے بھر گئی اورمجھے کار روکنا پڑی یہ سینکڑوں بکریوں کا ایک بڑا ریوڑ تھا جن کے پیچھے دو لڑکے گدھوں پر سوار تھے اور دس بارہ کتے ان بھیڑوں کو ترتیب میں رکھے ہوئے تھے ۔مجھے حیرت تھی کہ اچانک اتنی ساری بھیڑیں کہاں سے ٹپک پڑیں ۔بھیڑوں کے گذر جانے کے بعد جب ان کی اڑائی دھول صاف ہوئی تو بائیں جانب چند سو میٹر کے فاصلے پر بدوؤں کے خیمے لگے نظر آئے جن کے سامنے فور ویل گاڑیوں کےساتھ اونٹ بھی بندھے نظر آرہے تھے ۔صحرائے عرب کے یہ بدو آج بھی اپنے صدیوں پرانے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور گورنمنٹ بھی انہیں تنگ نہیں کرتی۔
دور صحرا کے درمیان ایک عمارت کے ساتھ ایک بہت بڑا درخت نظر آرہا تھا۔
اچھنبے کی بات یہ تھی کہ اپنے پچھلے سو کلو میٹر کے سفر کے دوران ہم نے ایسا درخت نہیں دیکھا تھا ۔بلکہ میلوں دور دور تک کوئی درخت تھا ہی نہیں۔
حد نگاہ تک پھیلے کالے پتھروں کے میدان میں کھڑا یہ درخت ایک عجیب ہی منظر پیدا کر رہا تھا۔ پھر پکی سڑک یک لخت ختم ہوگئی اور جلد ہی ہم ایک کچے رستے پر دھول اڑاتے اس دو منزلہ عمارت کے پاس پہنچ گئے
جس کے باہر ایک سائبان کے نیچے پولیس کی گاڑی کھڑی تھی۔
حمزہ نے بتایا کہ تین سال پہلے جب وہ یہاں آیا تھا تو اس صحرا میں اس درخت کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی۔
گاڑی کی آواز سن کر دو سپاہی عمارت سے نکل کر با ہر کھڑے ہوگئے پتہ چلا کہ یہ پولیس سٹیشن ہے جو یہاں آنے والے زائیرین اور اس درخت کی حفاظت کے لئے قائم کیا گیا ہے کیونکہ چند سال پہلے تک اس علاقے میں دائیش Daesh اور آئسس ISIS کے انتہا پسندوں کا بڑا زور تھا جنہوں نے کئی مقبروں کو بم سے اڑا دیا تھا ابھی کل ہی حضرت ایوب علیہ السلام کے مقبرے کا مہتمم بتا رہا تھا کہ ان شدت پسندوں نے حضرت ایوب علیہ السلام کے مقبرے پر موجود صدیوں پرانے درخت کو کاٹ دیا تھا۔
ان سپاہیوں نے اہلاً وسہلاً کہہ کر ہماری شناخت طلب کی ہماری تفصیلات لکھ کر ہمیں آگے جانے کی اجازت دے دی-
ہم نے آگے جانے سے پہلے پولیس سٹیشن کا باتھ روم استعمال کرنے کی اجازت چاہی جو انہوں بخوشی دے دی تازہ دم ہو کر وضو کر کے ہم احاطے کی جانب چل پڑے۔
خار دار تاروں نے ایک بہت بڑے میدان کو گھیر رکھا تھا جس کے درمیان وہ بزرگ درخت اپنی شفقت بھری شاخیں پھلائے کھڑا تھا اس کے گرد لوہے کا جنگلہ لگایا گیا تھا۔
یہ ایک بہت بڑا ،بہت پرانا چھتری نما پستے Atlas pistachio کا درخت ہے جس کی دور دور تک پھیلی جڑیں اور شاخیں اس کی عمررسیدگی کی گواہی دے تھیں۔
اس کی ٹھنڈی گھنی چھاؤں اس کی گواہ تھی کہ اس نے میرے پیارے نبی ﷺ کی میزبانی کی تھی انہیں دھوپ کی شدت و تمازت سے بچانے کے لئے سایہ فراہم کیا تھا۔
اس درخت کی چھاؤں میں ایک عجیب طرح کی ٹھنڈک تھی ۔ایک انوکھی شفقت بھری طمانیت کا احساس تھا۔
جیسے ماں کی آغوش کی نرمی ہوتی ہے۔
جیسے ماں کے ہاتھوں کا لمس ہوتا ہے۔
درجنوں چھوٹے چھوٹے ابابیل کی طرز کے پرندے اس کی شاخوں پر بیٹھے چہچہارہے تھے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی دھیرے دھیر ے چلنے والی نسیم صبح میں اٹھکیلیاں لے رہے تھے۔
وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں آتے اس درخت کے گرد چکر لگاتے اور کہیں غائب ہو جاتے ۔مجھے لگا یہ پرندے نہیں فرشتے ہیں جنہیں میرے رب نے اس مہربان درخت کی رفاقت کے لئے بھیجا ہے کہ وہ تنہائی محسوس نہ کرے ان کی چہچہاہٹ سے فضا میں ایک مست کر دینے والا نغمہ برپا تھا۔
سورج کی روشنی پوری طرح پھیل چکی تھی لیکن اس کی شعاعوں میں ابھی شدت نہیں آئی تھی۔
اس خوبصورت ماحول نے ہمیں مسحور سا کر دیا جیسے ہم طلسم ہوش ربا میں آگئے ہوں۔
ہم نے چادر بچھا کر اس کے نیچے دو رکعت نفل ادا کئے۔
اور کھانے کے اس سامان سے جو ہم نے ازرق سے خریدا تھا
ناشتہ کیا۔
یہ ناشتہ میری زندگی کا بہترین ناشتہ تھا
جس کا ذائقہ آج تک محسوس ہوتا ہے۔
ناشتہ کرنے کے بعد حمزہ اور بلال گپ شپ کرنے پولیس سٹیشن کی عمارت میں چلے گئے۔
اور میں نے شجر بزرگ کو اپنے بازؤں میں بھر لیا۔
اس کی شاخوں کو چھوا،
میں نے اس کے پتے سہلائے
انہیں چوما، ماتھے سے لگایا، اس کی جڑوں پر ہاتھ پھیرے ،اس کے تنے کو بوسہ دیا۔
نیچے گری ایک چھوٹی سی شاخ اٹھا کر جیب میں رکھی اور اس درخت کی ایک طرف بنے چھوٹے سے بنچ پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔
میری آنکھوں کو ٹھنڈک سی محسوس ہو رہی تھی۔ ان کی روشنی بڑھنے لگی تھی ۔جسم میں توانائی کی لہر سی دوڑنے لگی تھی۔
میں مسحور سا بیٹھا رہا ، اسے دیکھتا رہا۔یہ میری زندگی کے انمول لمحے تھے۔ آنکھوں کے رستے جیسے میری روح میں اترتے رہے۔ دل کے نہاں خانوں میں نقش ہوتے رہے۔
جانے کتنی دیر گذر گئی۔
میں یونہی بیٹھا رہا اسے تکتا رہا ۔
نہ اسکی دید سے آنکھوں کی پیاس بجھتی تھی اور نہ وہاں سے اٹھنے کو دل چاہتا تھا ۔ ننھے پرندوں کی ایک دو چھوٹی چھوٹی ٹولیاں میری طرف بھی آئیں اور میرے سر کے گرد چکر لگا کر واپس درخت کی طرف لوٹ گئیں شائد اس کا کوئی پیغام لائی تھیں یا مجھے یوں ساکت و جامد بیٹھے دیکھ کر انہوں نے مجھے بھی اس کا کوئی حصہ سمجھ لیا تھا۔ میں یوں ہی بیٹھا رہا ۔
میری آنکھوں کے سامنے
“سیرت ابن ہشام “ کے وہ صفحات گھوم رہے تھے۔
جب حضرت ابو طالب نے تجارت کی غرض سے شام جانے کا قصد کیا تو آنحضرت صلعم ﷺ نے بھی ساتھ جانے ضد کی ۔بارہ سالہ بھتیجا جان سے پیارا تھا ۔اس کی فرمائش رد نہ کر سکے اور اسے بھی ساتھ لے لیا۔
بارہ سالہ محمد صلعم ﷺ قافلے میں سب سے چھوٹے تھے۔
قافلے کے سب ہی افراد ان کی نازبرداری میں لگے رہے۔
اس زمانے میں یہ درخت حجاز سے شام جانے والی قدیم تجارتی شاہراہ پر واقع تھا۔
جب قافلہ اس مقام پر پہنچا تو دوپہر کا وقت تھا ۔تھکن سے چور میرے آقا صلعم اس درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے۔
قریب ہی ایک عیسائی راہب
“بحیرہ” کی کٹیا تھی۔
اس نے ننھے سے معصوم بچے کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا جو ہر چیز سے بے فکر گہری نیند سو رہا تھا۔
اس نے دیکھا کہ جب بھی سورج اپنی جگہ تبدیل کرتا اور دھوپ اس ننھے بچے پر پڑنے لگتی تو درخت کی شاخیں نیچے جھک کر اس پر چھاؤں کر دتییں۔
وہ یہ منظر دیکھ کر چونک گیا اور جب اس نے بار بار اس کا مشاہدہ کیا-
تو وہ قافلے والوں کے پاس گیا اور انہیں کھانے کی دعوت دی-
لیکن وہ بچہ اس دعوت میں نہ آیا وہ سوتا رہا بحیرہ نے قافلے والوں سے بچے کے بارے میں پوچھا اور یہ جان کر کہ حضرت ابو طالب اس کےسر پرست ہیں ۔اس نے ان سے اس بچے کی زندگی کے احوال ،اس کی عادات وخصائیل اور خاندان کے بارے میں دریافت کیا پھر وہ ایک پلیٹ میں کھانا لے کر بچے کی پاس آیا اسے جگا کر اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اور ان ساری باتوں کی تصدیق چاہی جو اسنے حضرت ابو طالب سے سنی تھیں ۔پھراس نے بچے کو کہا کہ اپنے خداؤں ہبل اور عزیٰ کے نام پر سچ سچ بتانا بچے نے جواب دیا کہ میں تو ان بتوں کو خدا ہی نہیں مانتا اور نہ میں جھوٹ بولتا ہوں ۔ میں تو ہمیشہ سچ بولتا ہوں۔
اس پر اس نے بچے سے درخواست کی کہ وہ کمر سے کپڑا اٹھا کر اپنی کمر اسے دکھائے ۔جب اسے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت نظر آئی تو وہ بچے کے سامنے جھک گیا ۔اس نے اس کے ہاتھ چومے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر حضرت ابو طالب کو ایک طرف لے جا کر کہنے لگا کہ یہ بچہ بہت خاص ہے یہ بڑا ہو کر وہ آخری نبی بنے گا ۔جس کا وعدہ توریت اور انجیل میں کیا گیا ہے ۔اگر شام کے یہودیوں اور عیسائیوں کو اس بات کا پتہ چل گیا تو وہ اسے قتل کئے بغیر نہ رہیں گے اس لئے تم اسے یہیں سے واپس لے جاؤ۔
اور یوں حضرت ابو طالب آپ صلعم ﷺ کو لے کر آدھے راستے سے واپس لوٹ آئے۔
میں چشم تصور سے یہ منظر دیکھنے میں مشغول تھا ۔ میری دلی خواہش تھی کہ کاش گردش دوراں رک جائے وقت تھم جائے اور میں یونہی بیٹھا رہوں اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتا رہوں لیکن حمزہ اور بلال واپس آگئے ان کی آمد نے سب کچھ درہم برہم کر دیا۔ میرا سپنا ٹوٹ گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کل چھ پولیس والے ہیں اور یہ پانچ پانچ دن کی ڈیوٹی پر یہاں آتے ہیں۔
حمزہ کہنے لگا کہ یہاں چند سو میٹر کے فاصلے پر اس راہب کی عبادت گاہ اور کٹیا بھی موجود ہے جہاں وہ رہتا تھا۔
پھر ہم اس کٹیا کو دیکھنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔
ایک فٹ پاتھ جس کے دونوں طرف زنجیریں لگی تھیں ہمیں اس کٹیا تک لے گیا۔
کٹیا اور درخت کے درمیان ایک چھوٹی سی جھیل بھی تھی جس کی اس صحرا میں موجودگی اس درخت کی موجودگی سے بھی زیادہ حیران کن تھی ۔میں نے اس نو تعمیر شدہ پل پر کھڑے ہو کر دیکھا جو ایک خشک نالے پر تعمیر کیا گیا تھا تو دور دور تک مجھے کہیں کوئی اور درخت تو کجا کوئی جھاڑی بھی نظر نہیں آرہی تھی۔
جب ہم راہب کے مکان اور جھیل کو دیکھ کر واپس آئے تو سورج خاصا بلند ہو چکا تھا۔ فضا کی ٹھنڈک اب دھوپ کی تپش میں بدل رہی تھی ۔گرمی ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔
کھلے آسمان پر درخت کے گرد منڈلاتے پرندے بھی اب جانے کہاں چھپ گئے تھے۔ شائد انہیں بھی اس شفیق بزرگ درخت نے اسی طرح اپنی مہربان شاخوں میں چھپا لیا تھا جس طرح صدیوں پہلے اس نے اس بارہ سالہ یتیم بچے کو اپنی شفقت بھری آغوش میں جگہ دی تھی ۔ اس جگہ سے واپس جانے کو دل نہیں چاہتا تھا لیکن ہمیں واپس جانا تھا ۔
میں آخری بار اس کے گرد بنے جنگلے کی چادیواری میں داخل ہوا ۔ ایک بار پھر اس کی ایک شاخ کو جھکا کر اسے بوسہ دیا اسے سینے سے لگایا ۔ ایک بھر پور الوداعی نظر اس شجر پیر مہربان پر ڈالی اور ہم بھاری دل کے ساتھ نگاہوں ہی
نکا ہوں میں اسے الوداع کہتے ہوئے واپس گاڑی کی جانب چل پڑے ۔ کچھ دور جا کر گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے آخری بار اسے پلٹ کر دیکھا ۔ وہ اسی طرح اپنی شفیق شاخیں پھیلائے شان سے کھڑا تھا۔ ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا تو اس کی شاخیں جھومنے لگیں اس کی شاخوں کے اندر بیٹھے کچھ ننھے پرندے چند لمحوں کے لئے ہوا میں بلند ہوئے ۔ فضا ان کی چہچہاہٹ سے گونج اٹھی ۔اور پھر وہ اسی تیزی سے اس کی شاخوں میں دوبارہ گم ہوگئے ۔ مجھے لگا جیسے وہ اس شجر بزرگ کی ہدایت پر ہمیں الوداع کہنے کے لئے باہر نکلے تھے۔
سورج نصف نہار پر پہنچا ہی تھا کہ ہم واپس عمان لوٹ آئے ۔ ہماری اگلی منزل شاہ حسین مسجد کا میوزیم تھی جہاں میرے پیارے نبی صلعم کا وہ خط رکھاہے جو انہوں نے قیصر روم ہرکولیس کو لکھا تھا اور حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی اسے لے کر ہرقل کے دربار میں پہنچے تھے۔

Comments

Click here to post a comment