20 ستمبر کے روز سلطنت مغلیہ کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور جنگ آزادی 1857ء میں شکست کے ساتھ ہی ہندوستان پر مغل اقتدار کا خاتمہ ہوگیا ۔
1837ء میں تخت ہندوستان پر بیٹھنے والے بہادر شاہ کا حکم لال قلعے سے باہر نہ چلتا تھا کیونکہ ملک پر 'کمپنی راج' تھا لیکن 1857ء میں انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی بغاوت نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ اس کمزور بادشاہ کو بادل نخواستہ جنگ میں کودنا پڑا اور یوں پہلی بار ہندوستان میں تمام اقوام انگریزوں کے خلاف متحد ہوئیں۔ لیکن ذاتی مفادات، ناقص منصوبہ بندی، اتحاد کی کمی اور انگریزوں کی زبردست تنظیمی و عسکری صلاحیتوں کے سامنے جنگ آزادی کامیاب نہ ہو سکی
14 ستمبر کو سقوط دہلی ہوا اور
20 ستمبر 1857ء کو بہادر شاہ ظفر اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے سے گرفتارہوئے اور یوں اگلے دن یعنی 21 ستمبر 1857ء کو مغل دور حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔
کھلی کچہری میں مقدمہ چلا
غداری، باغیوں کی امداد اور 49 افراد کے قتل میں مددگار بننے کے الزامات عائد ہوئے اور خاندان کے بیشتر افراد کو قتل کرنے کے بعد بوڑھے بادشاہ کو رنگون جلاوطن کر دیا گیا۔ یوں تین صدیوں کے بعد ہندوستان میں مغلیہ اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔ انگریز کپتان ولیم ہڈسن نے 'نوروز کے تحفے' کے طور پر شہزاہ مرزا مغل اور شہزادہ مرزا خضر سلطان کے کٹے ہوئے سر بہادر شاہ ظفر کے پاس بھیجے۔
برٹش بحری جہاز مکین مکیزی 17 اکتوبر 1858ء کو بہادر شاہ ظفر اور دیگر چھتیس افراد کو لے کر رنگون پہنچا
بد نصیب بادشاہ نے زندگی کے آخری چار سال رنگون میں گزارے
جہاں اسے بیوی بیٹی اور پوتی کیساتھ انگریز ریزیڈنٹ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے بنگلے کے گیراج میں قید رکھا گیا
کیپٹن نیلسن ڈیوس جب ریٹارئرڈ ہو کر انگلستان پہنچا تو وہاں اس نے ایک کتاب لکھی
جس میں اس نے آخری مغل فرمانروا کی زندگی کے ایام اسیری اور موت کے وقت اس کے آخری لمحات اور کفیت کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے
7 نومبر 1862ءبروز جمعہ صبح چار بجےکے قریب بہادر شاہ کی بیوی زینت محل نے نیلسن کے دروازے پر زور زور سے دستک دی اس وقت کوئی ملازم دستیاب نہیں تھا انتہائی ناگواری کے عالم میں صاحب بہادر کو خود دروازہ کھولنا پڑا زینت محل نے انتہائی لجاجت سے درخواست کی کہ بادشاہ سلامت کی طبعیت خراب ہے اور ان کی خواہش ہے کہ گیراج کی کھڑکی کھول دی جائے تاکہ وہ تازہ ہوا میں سانس لے سکیں اور سورج کو طلوع ہوتے دیکھ سکیں انگریز افسر کو محسوس ہوا جیسے یہ اس بدنصیب قیدی کی آخری خواہش ہو کیونکہ اس سے پہلے بادشاہ نے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی تھی جب وہ گیراج میں پہنچا تو بہادر شاہ کی بے نور آنکھیں بند کھڑکی کی جانب جمی تھیں منہ کھلا تھا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی
نیلسن لکھتا ہے
“بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر‘
اُس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی‘ آنکھوں کے ڈیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اُبل رہے تھے‘ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں‘ میں نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن کسی چہرے پر اتنی بے چارگی‘ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی‘
وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا‘
وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا
جو صرف ایک آزاد سانس کے لئے ترس رہا تھا”,
ستاسی سالہ بدنصیب بادشاہ کو شام چار بجے اسی گیراج میں دفن کر دیا گیا انگریز ہندوستان میں کسی ایسی قبر کو بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے جہاں لوگ ان کی مخالفت میں جمع ہو پائیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ قبر کی ساری نشانیاں معدوم ہو تی چلی گئیں لوگوں کو صرف اتنا یاد رہا کہ مغلیہ سلطنت کا آخری تاجدار یہیں کہیں رنگون میں ہی دفن ہے لیکن کہاں یہ کسی کو پتہ نہ تھااور پھر بہادر شاہ کی قبر ایک صدی سے زائد عرصے تک پردۂ گمنامی میں رہی یہاں تک کہ 1991ء میں جب کچھ مزدور پائپ بچھانے کے لئے زمین کی کھدائی کر رہے تھے تو انہیں ایک قبر ملی جس کے اندر ایک ڈھانچہ بھی موجود تھاجس پر تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ بہادر شاہ ظفر کی قبر ہے
برما کے مسلمانوں کی کوششوں سے یہاں 1994ء میں اس پر مزار تعمیر کیا گیا برما کے لوگ بہادر شاہ کوصوفی اور ولی تسلیم کرتے ہیں اور یہ مزار مرجع خلائق ہے۔ دہلی کے نواحی علاقے مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار سے ملحق ایک خالی قبر آج بھی موجود ہے، جہاں دفن ہونے کی خواہش میں بہادر شاہ ظفر نے اپنے لئے زمین کا ایک ٹکڑا مختص کیا تھا لیکن یہ آرزو بھی حسرت ہی رہی
اور یہ خالی قبر آج بھی اپنےمکین کے انتظار میں ہے
کتنا ہے بدنصیب ظفر، دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
حقیقت یہ ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس اقتدار کے لیے جو اہلیت ہونی چاہیے، وہ بہادر شاہ میں نہیں تھی اور جنگ آزادی کے ایام میں بھی وہ باغی افواج کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا رہا۔ نہ اس میں باغیوں کو قتل و غارت گری اور لوٹ مار سے روکنے کا حوصلہ تھا اور نہ ہی انگریزوں کو روکنے کا دم۔
البتہ اردو زبان کے شاعر کی حیثیت سے بہادر شاہ کو ایک بہت اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے۔ ظفر کے تخلص کے ساتھ آپ کی گئی شاعری خصوصاً غزلیات محبان اردو میں آج بھی مقبول ہے۔ آپ کی شاعری کا کچھ حصہ 1857ء کی جنگ کی نذر ہو گیا لیکن جو باقی بچا وہ کلیات ظفر کے نام سے آج بھی موجود ہے۔ آپ شعراء کے بڑے قدر دان بھی تھے اور اردو کے چند بہت بڑے شاعر آپ کے دربار ہی سے وابستہ تھے جیسے مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی، مومن خان مومن اور ابراہیم ذوق۔
Dalrymple Wiliams
نے اپنی کتاب
“The Last Mughal”
میں لکھا
”وہ ایک بڑا شاعر تھا اور شاعر کی حیثیت سے ہی زندہ ہے ورنہ بطور حکمران اس کی زندگی دیدہ عبرت نگاۂ ہے “
آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبُودار جُھگّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے‘دہلی اور کلکتہ کی جھونپڑ پٹیوں میں بھی آپ کو ایسے کئی شہزادے اور شہزادیاں مل جائیں گے
یہ آخری مُغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے‘
یہ کچی زمین پر سوتی ہے‘ ننگے پاؤں پھرتی ہے‘ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے,
مگر یہ لوگ اس کَسمَپُرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں‘
یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ‘
یہ شہزادے اور شہزادیاں آج اپنے پرکھوں کی نااہلیوں ، نالائقیوں اور
بد اعمالیوں کا عملی ثبوت بن کر دیدہ عبرت نگاہ ہیں
تبصرہ لکھیے