میری کتاب زبان یار من ترکی کا ایک ورق
اس تختی کا نام استنبول نمبر 2461 ہے کیونکہ ایسی تقریباً 7400 تختیاں قدیم نیپر شہر کے آثار قدیمہ سے ۱۸۸۰ء اور ۱۸۸۹۰ء کے درمیان کھدائی کے دوران ملی تھیں ۔ اور ہر تختی اپنی جگہ ایک تاریخ ہے نیپر کے کھنڈرات عراق کے موجودہ شہر نفر Nuffar کے قریب ہیں ۔
جو کسی دور میں سمیری قوم کا گڑھ تھا۔
یہ محبت نامہ نظم کی صورت میں ہے اور تقریباً ساڑھے چار ہزار سال (۲۰۲۹- ۲۰۳۷ قبل مسیح ) پرانا ہے ۔ یہ نظم مٹی کی تختی پر قدیم فارسی زبان سہ گوشی میں لکھی گئی ہے - اسے ایرانی رسم الخط میخنی بھی کہتے ہیں ۔
قدیم انسان کے پاس لکھنے کا کافی سامان نہ تھا۔ اس لیے لکڑی کی کیل سے مٹی کی تختیوں پر تحریر نقش کر دیتا تھا۔ اس رسم الخط کی شکل میخ سے ملتی جلتی تھی۔ یہ رسم الخط ابتدا میں تصویری تھا۔ پھر تصاویر کے لیے علامات مقرر ہوئیں۔ ان علامتوں کے ذریعے جو رسم الخط وجود میں آیا۔ اسے علامت نگار کہا گیا۔ جو بعد ازاں فکر نگار اور آخر میں حرف نگار بنا۔ ایرانی میخنی رسم الخط دوسرے تمام میخنی خطوط جیسے بابلی وغیرہ سے سادہ تر اور صحیح تر ہے کیونکہ ایران کے علماء نے نہ صرف بابل کی فکرنگاری کو ابجدی حروف میں تبدیل کر دیا بلکہ ان کی شکل بھی آسان کر دی۔ انھوں نے ٹیڑھی میڑھی پیچیدہ میخوں کو ترک کر دیا اور صرف عمودی اور افقی میخوں کو اختیار کیا۔ اس رسم الخط کے حروف ابجد چھتیس (۳۶) ہیں۔ اور باقیات میں چار سو سے زیادہ اصل الفاظ نہیں ملتے ۔
اس نظم میں اکد اور سومر کے بادشاہ شوسین Shu- Sin کو مخاطب کیا گیا ہے ۔
جس کا عنوان ہے
“شوسین کا نغمہ محبت”
Love Song of Shu- Sin
یہ نظم انتیس لائنوں پر مشتمل ہے ۔ جس میں کوئی خاتون اپنے محبوب شہنشاہ شوسین کو بڑے ہیجانی اور اور رغبت دلانے والے انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے ۔
“ میرے دلہا - اور میرے دل کے بہت قریب
شہد سے میٹھے -اور بہت خوبصورت
میرے شیر ۔ میرے دل کے قریب
شہد سے میٹھے -اور بہت خوبصورت
میرے دلہا رات میرے گھر پر میرے ساتھ گذارو
صبح صادق تک “
تبصرہ لکھیے