ہر بندہ یا بندی یہی سوچتی ہے اور چاہتی ہے کہ اللہ نہ کرے کہ مجھے کوئی سزا ملے اور یقینا کوئی بھی نہیں چاہتا مگر اللہ نے دنیا اتنی خوبصورت بنائی ہے اور اس میں اتنی نعمتیں اتنی حسین بنائی ہیں کہ شعوری عمر یعنی 10 سال بعد سے ہی بندہ ان میں الجھنے لگتا ہے اگرچہ اس سے والدین عزیز رشتہ دار نعمتوں کی شکل میں اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور یہی کیا پورا ماحول اسکول کالج یونیورسٹی کولیگز محلہ پڑوس کے انکل آنٹیاں ہم عمر دوست احباب سب ہی نعمتیں تو ہیں مگر دنیا کی چکا چوند، راعنائیوں اور پرتعیش زندگی جگہ جگہ بازار اور ریسٹورنٹس اور میڈیا پر دکھائے جانے والے کھانے اور تفریحات بے حیائی فحاشی اسے متاثر کرنے لگتی ہے پھر مزید آج کل موبائل اور اسکرین گیمز درد سر بنے ہوئے ہیں، گھر گھر کوئی کام کے لیے وقت ہو نہ ہو اسکرین ٹائم زیادہ سے زیادہ ہر کوئی لیتا ہے۔ایسے میں بیشتر لوگ ایسے بھی ہیں جن کے اتنے وسائل نہیں، نوکریاں نہیں، ماں باپ کے پاس بچوں کو دینے کے لیے سب آسائشیں نہیں جبکہ آج کل تمام کے تمام والدین اپنے بچوں کو خوش رکھنے کے لیے یہی دنیاوی چیزیں انہیں پہنچانے میں لگے رہتے ہیں،تو پھر کیا کریں؟ ایک دوڑ ہے مقابلے کی پرتعیش زندگی کی اور دکھاوے اور بناوٹ کی کچھ ہو نہ ہو اپنے آپ کو کمتر نہیں سمجھنا تو پھر کیا کریں؟شکایات، الزامات،اعتراضات،لڑائی جھگڑے،تیری میری یہاں تک کہ بعض اوقات منہ پھلائے اپنے ہی سے ناراض،اداس اور ایک نحوست چہرے پر سجائے رہتے ہیں اپنے آپ کو الگ تھلگ مگر اکڑے ہوئے،آؤٹ مینرمیں،اکھڑے اکھڑے! سوچیں؟ بھلا کس کو بھائیں گے؟ کس کو لجھا ئیں گے؟کیوں؟ کیونکہ ان کے بڑے نخرے ہیں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی امراء اور متوسط گھرانوں کے لوگوں سے لے کر غرباء اور مسکینوں میں تک یہ بیماری عام ہے جو خود کو سزا دینے کے مترادف ہے کیونکہ ان کی خواہشات لمبی لمبی ہیں اتنی اڑان ہے کہ جو ان کے بس سے باہر ہے۔ قناعت، صبر، شکر، تحمل اور قدردانی نام کو نہیں دوسروں کے پاس کچھ اچھا دیکھا جل بھن گئے ان کو بھی برا جانا اور خود کو اور اپنے ہی گھر والوں کو اپنے لیے خطاوار اور یوں پوری دنیا سے ناراض ہو کر صرف فساد ہی برپا کرتے رہتے ہیں یعنی کہ:
خدا ایسے بھی تو لوگوں کو سزا دیتا ہے
ان کی اوقات سے خواہش کو بڑھا دیتا ہے
یعنی اللہ کو معلوم ہے وہ حکیم ہے رحیم ہے عزیز ہے اسے معلوم ہے کہ کیسے کیا دینا ہے،کتنا دینا ہے،جو بندے اللہ کی تقسیم پر شاکر رہتے ہیں نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں تھوڑے میں بھی صبر شکر اور قناعت سے رہتے ہیں مطمئن زندگی گزارتے ہیں انہیں اللہ کی تقسیم پر کامل بھروسہ ہوتا ہے انہیں زیادہ کی فکر نہیں رہتی وہ صرف اپنے مقصد کو جانتے ہیں اور مقدر پر راضی رہتے ہیں مگر جو لوگ اللہ کو تو مانتے ہیں عبادات بھی کرتے ہیں کسی حد تک حقوق بھی ادا کرتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتے اور ہمیشہ شکوہ شکایت کرتے اور دوسروں سے جلتے کڑتے اور آگ لگاتے رہتے ہیں نہ خود چین سے رہتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو چین سے رہنے دیتے ہیں پھر کیا طریقہ کار ہونا چاہیے کہ ان کے دلوں کی کڑن دور ہو ظاہر ہے وہی نسخہ جو آپ ﷺسے ہمیں ملا:
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور ایک نسخہ کیمیاء ساتھ لایا
یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود ہی رول ماڈل بنیں شروع سے رب کی شکر گزاری میں رہیں اولاد کو عزت و پیار سے پالیں۔ انہیں جائز ناجائز سمجھا بجھا کر زیادہ تر اللہ کی نعمتوں کی شکر گزاری اور پھر اس کی تقسیم پر صابر شاکر ہونا خود بھی سیکھیں مسلسل اور انہیں بھی سکھائیں۔دنیا کو صرف ایک منزل اور زندگی کا مختصر دورانیہ سمجھائیں۔ رب کی رضا، رب کی خوشنودی اور مقصد زندگی اور آخرت کی کامیابی ان کی گھٹی میں اتار دیں، محنت محبت سے زندگی گزاریں، ہمدردی اور انسانیت سکھائیں اور غلط باتوں سے خود بھی بچیں اور انہیں بھی ہمیشہ بچاتے رہیں دوسروں کے لیے ہمیشہ ہمدرد فائدہ مند بنائے رکھیں گویا تربیت اور کردار سازی ہی اصل زندگانی ہے ورنہ تو بری کہانی ہے،یہ سمجھیں کہ کُل تعلیم قطرہ ہے تو اچھی تربیت سمندر ہے، مؤثر ہے۔زندگی صرف دنیا دنیا، لگژری مکان، دکان، کاروبار، خوبصورت گھر،ذہنی اور جسمانی سکون کا ڈھیروں سامان بھی انسان کی حقیقی خوشی اور تسلی کا سامان نہیں بن سکتا، نہ محبت ان تمام اشیا ء سے کی جا سکتی ہے یہ صرف وقتی ہوتی ہیں مگر عزت کی جھونپڑی میں جہاں انسان کی قدر ہو ہزارہا درجہ بہتر ہوتی ہے جہاں واقعتا آپ کو انسان سمجھا جائے، محبت اور سکون ملے۔آپ بھی دوسروں کے لیے باعث سکون ہوں تو وہی اصل زندگی ہے بلا وجہ اپنے آپ کو کمتر سمجھنا محروم اور مجبور ماننا اور دوسروں سے حقیر بنا کر پیش کرنا بہت بری بات ہے،اللہ تعالی نے سب کو ہی اس کی حیثیت کے مطابق دیا ہوا ہے، ایمان صحت تندرستی اور اپنے مسلم رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہوئے ہمیں کتنا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں اس میں سے بہترین شے اچھی تعلیم و تربیت ہے بس یہی تعلیم و تربیت اسے آگے زندگی میں معزز کارآمد اور مسرور رکھتی ہے،خشیت الٰہی اور اخرت میں جواب دہی کا احساس آپ کو ہر دم گناہوں سے پاک رکھتا ہے اور یوں الحمدللہ ہم خوش اور مطمئن رہتے ہیں ظاہر ہے جبکہ اللہ کی ہر مخلوق اللہ کی حمد و ثنا کرتی ہے تو ظاہر ہے انسان باشعور ہو کر اللہ کی نعمتوں کا جائز فائدہ اٹھانے اور اس کے احکامات کی روگردانی ہرگز نہ کرنے کا ذمہ دار ہے۔اپنی اس نیابت کی ذمہ داری سے اسے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے،کتنا کمال ہے کہ کیسے وقت گزرتا جاتا ہے اور آپ کو آپ کی اوقات بتاتا جاتا ہے شکر گزاری کے لیے تکبر کے لیے ہرگز نہیں۔
تبصرہ لکھیے