ہوم << خوش فہم عوام و رہبرانِ قوم - حبیب الرحمن

خوش فہم عوام و رہبرانِ قوم - حبیب الرحمن

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ کراچی اور بلوچستان مسائل کی دلدل میں پھنس چکے، لوگ مایوس ، حکمرانوں کو رتی برابر پروا نہیں، 14جماعتی پی ڈی ایم اتحاد اور پی ٹی آئی بلوچستان، کراچی سمیت ملک بھر کے مسائل اور معاشی تباہی میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ مہنگائی کم ہوئی نہ بے روزگاری کا طوفان تھما، حقائق کے برعکس دعوے کیے جا رہے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوجائے گا اور بیرونی ادائیگیاں بھی بروقت ہوں گی۔

موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں نے قوم کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیا ہے۔ اسلامی ایٹمی پاکستان کے غیرت مند لوگوں کو عالمی سطح پر بھکاری بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سودی معیشت اور کرپشن ختم ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک معاشی دلدل سے باہر نہ نکل سکے مگر حکمران طبقہ قطعی طور پر کرپشن اور سود کے خاتمے کے لیے تیار نہیں۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی نے مل کر احتساب کے اداروں کو ختم کیا اور ملک کو سودی قرضوں کے جال میں پھنسایا۔ گزشتہ دہائیوں میں صرف مافیاز کی دولت میں اضافہ ہوا .

اورحکمران اشرافیہ نے بیرون اور اندرون ملک جائدادیں بنائیں اور مال اکٹھا کیا، غریب فاقوں پر مجبور ہے، کروڑوں افراد میں ماہانہ بلوں اور بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کے بعد راشن خریدنے کے لیے وسائل نہیں۔ اگر کوئی بمشکل دال روٹی چلاتا ہے تو وہ علاج، بچوں کی اسکول فیس اور بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کی سکت نہیں رکھتا، ڈھائی کروڑ بچے غربت کی وجہ سے اسکولوں سے باہر ہیں، قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔

سراج الحق نے نہ صرف پاکستان کے تمام بنیادی مسائل کی نشاندہی کی بلکہ ذمے داروں کا بھی ذکر کیا جن کی وجہ سے آج یہ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ ملک کی تباہی و بربادی میں بے شک سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کا کلیدی کردار ہے لیکن اگر "اصل" حکمرانوں کا ذکر اس تباہی و باربادی میں شامل نہ کیا جائے تو بے شک یہ بات "مصلحت" پسندی کے زمرے میں آئے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ اصل کرتا دھرتاؤں کے ذکر خیر نہ کرنا میرے نزدیک ایک سنگین قومی جرم ہوگا۔

مسائل اور ان کا حل معلوم تو سب کو ہے لیکن مصلحت پسندانہ رویوں کی وجہ سے مسائل و بد عنوانی کو ختم کرنا کسی طور ممکن نہیں ہو سکا۔ یہ وقت کسی بھی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر، نہایت جرات کے ساتھ سچ کہنے اور کہنے کے بعد ہر قسم کے سخت ترین حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوجانے کا ہے۔ جب تک قوم کے سامنے کسی بھی قسم کی مصلحت پسندی سے اجتناب کرتے ہوئے قوم کو اصل جہاد کیلئے تیار نہیں کیا جائے گا، انتخابی نعروں اور اس میں شریک ہوکر اسبلیوں اور کونسلوں کی سیٹیں حاصل کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ اسمبلیوں اور کونسلوں کی تمام کی تمام نشستوں پر سو فیصد کامیابی کے بعد بھی جب کرنا وہی سب کچھ پڑتا ہو جو "صاحب" چاہتے ہوں تو کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی کا رونما ہونا کسی صورت ممکن نہیں۔

سود ہو یا بدعنوانی (کرپشن)، بے شک ایسی دیمکیں ہیں جو اندر ہی اندر پوری ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کئے جا رہی ہیں لیکن ان کو ختم کیسے کیا جائے گا، جب تک اس کا ذکر نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سود کا متبادل شراکت داری ہے لیکن جب قرض لیکر شروع کئے جانے والے کار و بار کا ہر کار و باری نفع کی بجائےخسارہ پر خسارہ ہی دکھائے جائے گا تو قرض دینے والا فرد یا ادارہ دیوالیہ ہو کر رہ جائے گا۔

جب بے ایمانی گراس روٹ تک اتر چکی ہو تو بنا سود بینک کاری کیونکر ممکن ہو سکے گی۔ بد عنوانی کو ختم کرنا اور بد عنوانوں کو عدالتوں تک کھینچ کر لے جانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہوا کرتی ہے لیکن جب تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا آوے کا آوا ہی خود انتہائی درجے کا کرپٹ ہو تو پھر بڑے بڑے مگرمچھوں کو پکڑ لئے جانے کے بعد سزائیں دلوانے کی بجائے "لے دے" پر ہی بات ختم ہو جائے گی۔ یہی کچھ اب تک پاکستان میں ہوتا رہا ہے جو کسی بھی قسم کے انتخابی عمل سے ختم کیا ہی نہیں جا سکتا۔ مرض اگر ابتدائی درجے میں ہو تو دوا علاج سے قابو میں آ جاتا ہے.

لیکن مرض بگڑ جائے تو پھر بڑئی بڑی جراحی کے بغیر مریض کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں رہتا۔ جب عالم یہ ہو کہ راہ حق پر چلنے والے بھی مصلحتوں کی چھتری کے سائے کو چھوڑنا ہی نہ چاہتے ہوں اور جن جن کو ذمے دار گردان رہے ہوں، ماضی میں ان تمام کے ساتھ سیاست کا حصہ بھی رہے ہوں تو پھر ان کی تقریروں میں کہاں سے اثر آئے گا۔ کسی بھی قسم کے انقلابات، مصلحتوں سے مکمل آزاد ہوئے بغیر کبھی نہیں آیا کرتے اس لئے میرے نزدیک ضروری ہے کہ قوم کو انتخابات کی منزل کی جانب لے جانے کی بجائے انقلاب کیلئے تیار کیا جائے ﷽صورتِ دیگر مزید 75 سال میں بھی کسی تبدیلی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

مسئلہ چو طرفہ ہے، جس طرح ملک کے سارے نیتا خوش فہموں کے لشکر میں صف اول میں شامل ہیں اسی طرح عوام بھی ان سے دس بارہ قدم آگے ہیں۔ جو سورج بھی چڑھتا ہے اس کے آگے جھک جاتے ہیں اور اسے رب مان لیتے ہیں لیکن جونہی اس کی تمازت میں اضافہ ہوتا ہے، اسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ماضی کے آئینے میں ہر رہنما اور ہر فرد کو اپنا چہرہ ضرور دیکھتے رہنا چاہیے اس لئے کہ اس تمام خرابی میں عوام ہوں، رہبرانِ قوم ہوں یا ملک کا طاقتور ترین ادارہ، سب بالحاظِ طاقت و قدرت، برابر کے شریک رہے ہیں۔

اعتراف قد نیچا نہیں اونچا کرتا ہے۔ جب بھی ہر طبقہ اس سچائی کو اپنا لے گا، ملک عروج کی جانب گامزن ہو جائے گا ورنہ کچھ معلوم نہیں آزادی کے 75 ویں سال کے بعد ملک کس کس کی غلامی میں چلا جائے۔

Comments

Click here to post a comment