ہوم << افغانستان کا سفر کرنے والوں کے لیے چند بنیادی معلومات-ڈاکٹر مشتاق مانگٹ

افغانستان کا سفر کرنے والوں کے لیے چند بنیادی معلومات-ڈاکٹر مشتاق مانگٹ

اگر آپ افغانستان میں سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو چند اہم چند اہم باتوں کا علم ہونا بے حد ضروری ہے۔ میں اپنے علم کے مطابق چند باتیں آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، اس کے علاوہ بھی بے شمار باتیں ہو سکتی ہیں۔ ۔۔۔ کے حکومت میں آنے کے بعدامن و امان کی صورت اس قدر شاندار ہے جس کا افغانستان میں تصور بھی محال تھا۔ اس لیے آپ جب کبھی بھی سفر کرنا چاہیں اورکہیں بھی سفر کرنا چاہیں ، آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، آپ بلا خوف و خطر سفر کر سکتے ہیں۔
افغانستان ایک بہت ہی خوبصورت ملک ہے، اس میں اونچے پہاڑ اور وسیع صحرا ہیں۔ بے شمار جنگلات اورآباد علاقےبھی ہیں۔ افغانستان پھلوں کی پیداوار کےلیے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ آپ نے قندھاری انار کا نام تو بارہا سنا ہوا۔ اس کے علاوہ ماضی میں افغانستان بہت سے مذاہب کے ماننے والے بھی آباد تھے۔ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اب تک موجود ہیں ۔ ان میں سے سب سے مشہور بامیان میں واقع مہاتما بدھ کے مجسمے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں نناوے فیصد سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ مہمان نوازی میں افغانوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ ا سلیے اگر کوئی افغان آپ کو دعوت پر بلائے تو انکار نہ کریں، اس لیے کہ وہ ایسے انکار کو پسند نہیں کرتے۔ جب بھی کوئی افغان آپ کی دعوت کرے تو انکار نہ کریں اور چلیں جائیں ، پھر کھاتے جائیں، کھاتے جائیں ۔۔۔ بعد میں آپ کے ساتھ کیا ہوگا ، یہ دیکھا جائے گا۔۔۔ میرے ساتھ بھی ایسا کئی بار ہوا۔
طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد افغانستان کا دنیا بھر سے فضائی رابطہ کافی حد تک محدود ہو گیا ہے۔ وہ اس لیے کہ آج کی تاریخ تک پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت سے کسی بھی طرح کا کوئی بھی سفارتی تعلق قائم نہیں کیا۔ طالبان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ میرے علم کے مطابق اس وقت روزانہ کی بنیاد پر ایک فلائیٹ اسلام آباد سے کابل جاتی ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق بہت کم لوگ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔ اکثر لوگ بذریعہ سڑک ہی سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ آپ پاکستان سے بذریعہ سڑک بھی افغانستان جاسکتے ہیں۔ افغانستان کی سرحدیں وسطی ایشا ء کے کئی ممالک سے ملتی ہیں، اس لیے آپ افغانستان جانے کے لیے وسطی ایشیا ء کا راستہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ غیر ملکیوں کو غیر ملکی رجسٹریشن کارڈ حاصل کرنے کی ضرورت ہو تی ہیں۔ میں نے بھی ایک فارم فل کیا تھا۔ شہر میں ٹیکسی کافی عام ہے، جس سے آنے جانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔
کابل میں بے شمار تاریخی مقامات ہیں۔ چند کا ذکر آپکی دلچسپی کے پیش خدمت ہے۔
بابر کے باغات کے نام سےایک بڑا باغ ہے ( میں کوشش کے باوجود اسے نہ دیکھ سکا) ۔ اس باغ میں پہلے ہندوستان کے مغل حکمران ، شہنشاہ بابر کی قبر موجود ہے۔ تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بابر یہاں دفن ہونے کی تمنا رکھتا تھا، لیکن اس کا وصال آگرہ میں ہوا، اس لیے اسے پہلےآگرہ میں ہی دفن کیا گیا تھا، بعد میں اسے کابل میں دفن کیا گیا۔ یاد رہے کہ دہلی سے پہلے مغل حکمران آگرہ میں ہی رہتے تھے۔ دہلی کی تعمیر کا سہرہ شاہجہاں کے سر ہے۔ آگرہ سے کابل کا فاصلہ بارہ سو کلومیٹر کے قریب ہے۔ آج سے سات سو سال پہلے ایک میت کو آگرہ سے کابل لےکر آنا کتنا مشکل تھا، ا سکا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔
بادشاہ کی خواہش اس کے مرنے کے بعد بھی پورا کرنا رعایا پر لازم ہیں۔۔۔ بھلے یہ بارہ سو کلومیٹرہو یا بارہ ہزار۔۔۔ بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتا ہے۔۔۔

باغ بالا بھی ایک اہم مقام ہے۔ اسے انیسویں صدی کے آخر میں امیر عبدالرحمٰن کے لیے موسم گرما کے محل کے طور پرتعمیر کیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک انتہائی خوبصورت مقام ہے۔
دارالامان محل، کابل کی ایک اہم ترین عمارت ہے۔ اسے 1920 ء کی دہائی میں شاہ امان اللہ کے محل کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ محل 1990 ء کی دہائی میں تباہ ہو گیا تھا۔ بعد میں اس کی مکمل تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سردار داؤد خان کی یاد میں پہاڑی کے اوپر ایک یاد گاربھی بنائی گئی ہے ۔ اپنے گزرے حکمرانوں کو یاد رکھنا، ایک قابلِ تعریف بات ہے۔
کابل چڑیا گھر ایک مشہور جگہ ہے جہاں قسم قسم کے جانور اورچرند پرند موجود ہیں ۔ کابل میں کارگاہ جھیل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہ ایک وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی جھیل ہے ۔مجھےیہاں کچھ وقت گزارنےکا موقع ملا ہے۔ واقعی ایک خوبصورت مقام ہے۔ یہ شہر سے تقریباًنو کلومیٹر دور ہے۔ افغانستان کے قومی عجائب گھر کے پاس نیشنل گیلری آف افغانستان واقع ہے۔ کبھی یہاں پر آٹھ سو سے زائد پینٹنگز اور پورٹریٹ ہوتے تھے ۔ جنگ میں اسے بےحد نقصان پہنچا۔ نیشنل میوزیم آف افغانستان کئی لحاظ سے اہم ہے۔ کبھی وہ وقت بھی تھا جب افغانستان کے قومی عجائب گھر میں وسطی ایشیائی قدیم اشیا ء کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ اسے بھی جنگ میں بےحد پہنچا۔
نادر شاہ اور ظاہر شاہ کےمقبرے بھی ایک تاریخی مقام ہے۔ یہاں بادشاہ نادر شاہ اور ان کے بیٹے ظاہر شاہ دفن ہیں۔ پغمان گارڈن (جہاں ہم کھانا کھانے گئے تھے۔ اس کا ذکر میں نےالگ سے کیا ہے۔) ایک بہت ہی خوبصورت جگہ ہے ،جہاں سبزہ ہی سبزہ ہے۔ دریائے کابل بھی باغ کے ساتھ بہتا ہے۔ یہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔ افغانستان کی آزادی کا دروازہ بھی پغمان باغ کے سامنے واقع ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم عمارتیں ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

افغانستان کی دو سرکاری زبانیں ہیں؛ دری (افغان فارسی) اور پشتو۔ حماد صاحب نے بتایا کہ دری اور فارسی دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ پھر بھی دری، فارسی سے ایک مختلف زبان ہے۔
دری زبان زیادہ تر شمالی اور مغربی افغانستان میں بولی جاتی ہے۔ پشتو، پشتون لوگوں کی زبان ہے جو افغانستان کےجنوب اور مشرقی حصہ میں بولی جاتی ہے۔ تاہم بہت سے پشتون دری بھی بولتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment