ہوم << خوشامد دوست، ترقی میں رکاوٹ - محسن مغل

خوشامد دوست، ترقی میں رکاوٹ - محسن مغل

محسن مغل انسان جسم اور روح سے بنا ہوا ہے. جس طرح انسانی جسم مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے بالکل اس طرح روح کو بھی کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں مثلا غیبت، تکبر، بغض، حسد اور خوشامد وغیرہ۔ ان میں سے اگر کوئی ایک بھی انسان کو لگ جائے تو وہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ خوشامد کی بیماری لگ جائے تو انسان پہلے تو خود اپنی تعریف کرتا ہے پھر دوسروں سے بھی اس کی توقع رکھتا ہے، پھر وہ اپنے قریب اور اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کرلیتا ہے جو ہر وقت اس کے ہر چھوٹے موٹے کام کی بےجا تعریف کرتے رہیں۔ اس سے انسان میں سوچنے سمجھنے اور صحیح فیصلے کرنے کی قوت ختم ہوتی جاتی ہے ۔تعریف سننے والے کو خوشامدپسند اور تعریف کرنے والے کو خوشامدی کہتے ہیں۔ سینئر صحافی جناب شہزاد چوہدری صا حب کی ڈکشنری میں خوشامدی چمچوں کو بوٹ پالشیا بھی کہتے ہیں۔
خوشامد انسان کو عقل ودانش سے محروم کر دیتی ہے۔ رفتہ رفتہ اپنے حواس ختم ہو جاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا، سنتا، بولتا،اور محسوس کرتا ہے، جو چاپلوس لوگ اس سے چاہتے ہیں۔ وہ ان خوشامدی لوگوں میں گھرا رہتا ہے۔ جو اسے صحیح بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے وہ اسے اپنا دشمن سمجھتا ہے. حکمرانوں کی یہ بیماری جلد لگتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران اس میں مبتلا ہو جائے تو اس کے زوال کا آغاز ہو جاتا ہے. صرف وہی کامیاب ہوئے جنہوں نے اپنے آپ کو خوشامدی چمچوں سے بچایا اور مخلص
لوگوں کو اپنے قرب میں رکھا۔
خوشامد کے بارے میں نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایک دوسرے کی خوشامد اور بےجا تعریف سے بچو کیونکہ یہ تو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ اس فرمانِ رسولﷺ سے واضح ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اس کی بے جا تعریف کرنا اس کو ذبح یعنی ہلاک کرنے کے مترادف ہے. ہوسکتا ہے کہ وہ شخص خودپسندی اور تکبر کا شکار ہوجائے اور شیطان کی طرح گمراہ ہوجائے. حضرت علی کا فرمان ہے کہ خوشامد اور تعریف کی محبت شیطان کے دو بڑے داؤ ہیں۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جو تمہارے ایسے اوصاف بیان کرے جو تم میں نہ ہوں تو وہ تمھارے ایسے عیوب بھی بیان کرے گا جو تم میں نہیں ہوں گے. پاکستان کو دیکھیں تو یہ قول درست نظر آتا ہے. یہاں جس نے جتنی زیادہ خوشامد کی، اسے اتنی بڑی کرسی ملی، اور جب لیڈر پر برا وقت آیا تو سب ساتھ چھوڑ کر مخالفین کے ساتھ مل گئے.
خوشامد چونکہ نااہل یا کم اہلیت کے حامل لوگوں کا ہتھیار ہے اور افسوس کہ معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا ہوا ہے. اور اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں محسوس کیے جا رہے ہیں. جس جگہ چلے جائیں اہم پوزیشنوں پر نااہل لوگ ہی دیکھنے کو ملیں گے، چاہے وزیراعظم ہائوس ہو یا ایوان صدر، آئی جی آفس ہو یا چیف سیکرٹری کا، کسی سیاسی لیڈر کا دفتر ہو یا کسی بیوروکریٹ کا، کوئی سکول ہو یا کالج و یونیورسٹی، وکیل ہو یا صحافی، پرائیویٹ سیکٹر ہو یا گورنمنٹ کا کوئی ادارہ، غرض ہر شعبے میں خوشامدی لوگوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور قابل لوگ کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں. خوشامد ہی آج کل ترقی کا زینہ سمجھی جاتی ہے، قابلیت کا معیار چمچہ گیری ہے، اس کا خمیازہ عوام اور اور اس ادارے کو برداشت کرنا پڑتا ہے.
آج اگر ملک کو مختلف قسم کے خطرات اور چیلنجز درپیش ہیں تو اس کے پیچھے بھی خوشامد اور خوشامدی ٹولے کا قصور ہے۔ یہ لو گ ارباب اقتدار کے ہر غلط فیصلے پر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس سے بہتر تو کوئی اور فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا، حالانکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہےاور حقیقت میں یہ ملک وقوم کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اگرصرف خوشامد ختم ہو جائے توبہت سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ اگر خوشامد نہ رہے تو قابل اور مخلص لوگ اہم عہدوں پر فائز ہوں گے اور ملک و قوم کی بہتری کے فیصلے کریں گے. ضرورت اس امر کی ہے کہ افسران اور حکمران خوشامدی چمچوں سے بچ کر رہیں اور مخلص لوگوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں تا کہ ملک صحیح معنوں میں ترقی کرے اور قوم کو موجودہ بحرانوں سے نجات مل سکے.

Comments

Click here to post a comment