ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (14) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (14) - شاہ فیصل ناصرؔ

ہفتہ ٩ ذی الحج ١٤٤٠ھ بمطابق 10 اگست 2019ء۔ یوم العرفه ”ألحجُّ ألعرفه” حج كے مناسک اور فرائض میں سب سے اہم ”وقوف عرفہ” یعنی عرفات کے میدان میں ٹہرنا ہے۔

یہ وقوف ذی الحج کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ کے دن زوال سے شروع ہوکر مغرب تک ہوتا ہے۔ اسی دن تمام حجاج کرام احرام کی حالت میں ننگے سر میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ خطبہ حج سننے کے بعد نماز ظہروعصر اول وقت میں اکھٹے، قصر (دو دو رکعت) باجماعت ایک آذان اور دو اقامت سے ادا کرتے ہیں اور پھر مغرب تک دعا و مناجات میں مشغول ہوکر اپنی تمام دینی و دنیاوی مصلحات و حاجات اپنے رب سے مانگتے ہیں۔

عرفات میں یہ ایک عظیم الشان اور منفرد عالمی اجتماع ہوتاہے، جسمیں دنیا بھر کے تمام ممالک سے آئے ہوئے مختلف جنس، نسل، رنگ اور زبان کے مسلمان ایک قسم (کفن جیسے سفید) لباس احرام میں اسی خاص مقام پر خاص وقت (زوال سے مغرب تک) کیلئے جمع ہوتے ہیں۔ ان میں نہ ملک و قوم کی تمیز ہوتی ہے اور نہ نسل و زبان کی۔ سب اپنے اپنے گناہوں اور خطاوں پر نادم اپنے مالک کے سامنے گڑ گڑا کر معافی طلب کرتے ہیں۔ مالک بھی جود و سخا کا بے مثال مظاہرہ کرکے ان کو معاف کرتے ہیں اور فرماتے ہیں، ” جاؤ میں نے آپ سب کو معاف کیا ہے ۔
اسلئے اس دن کو پورے سال کا عظیم الشان دن بتایا گیا ہے۔

صبح سویرے اٹھ کر ہم نے نماز فجر باجماعت ادا کی۔ بعض معجلین (جلدی کرنے والے) حجاج کرام نماز کے فورا بعد پیدل عرفات روانہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ جلدی پہنچ کر عرفات کی پہاڑی ”جبل رحمت” پر چڑھ جائے اور اپنی لئے جگہ ریزرو کریں۔ لیکن ہم نے سنت کی مطابق سورج طلوع ہونے کی بعد جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ مکتب والوں کی بھی یہی ہدایات تھی۔ کہ بسیں آپ لوگوں کو عرفات میں اپنے خیمے تک پہنچائیں گے۔ اسلئے ہم نے اطمنان سے ناشتہ کرکے، قضائے حاجت اور وضو بنائے۔ ہمارے بعض ساتھیوں کا خیال اور رائے تھی کہ پیدل حج کا بہت ثواب ہے اور موجودہ زمانے میں چونکہ اپنے علاقے سے پیدل حج کرنا ممکن نہیں، اسلئے ہم منٰی سے عرفات، مزدلفہ اور واپس منٰی پیدل جاکر اس ثواب کو حاصل کرسکیں گے۔

ثواب کی لالچ میں یہ تجویز مجھے بھی اچھی لگی، لیکن عین موقع پر موبائل میں موجود حج و عمرہ سے متعلق بعض تحاریر میں دیکھا کہ آپﷺ نے پورا حج اونٹنی پر سوار ہوکر ادا کیا ہے۔ اسلئے ہم اس ارادے سے دست بردار ہوئے، اور بس کا انتظار کرنے لگے۔ مکتب کے سامنے سے حجاج کرام قافلے در قافلے گزر رہے تھے۔ مکتب کے استقبالیہ میں لگے بڑے سکرین پر عرفات اور اسے جانے والے راستوں کے لائیو مناظر دکھائے جارہے تھے۔

عرفات روانگی: اکثر ساتھی جلدی اور بے صبری کا مظاہرہ کرتے۔ آخرکار 8 بجے بسیں پہنچ گئیں اور ہم تلبیہ پڑھتے سوار ہوئے۔ پورا رستہ سفید احرام پوش حجاج کرام کے قافلوں سے بھرا تھا جو تلبیہ و تکبیرات پڑھتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ یہ حشر کی طرح منظر تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہماری بس ”منٰی” سے سائیڈ پر پہاڑوں کی طرف نکل گئی۔ راستہ خالی اور ون وے تھا اسلئے ٹریفک جام کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ یہ راستہ ہمارے لئے انجان تھا، کیونکہ یہ پہاڑوں کے بیچ جاکر پچھلی طرف سے عرفات میں داخل ہو رہاتھا۔

میدان عرفات اور حجاج کیلئے کئے گئے انتظامات: ہمارا خیمہ حدود عرفات کے اندر تھا۔ یہاں بھی منٰی کی طرح بہترین انتظامات تھے۔ مکتب کی اپنی حدود، استقبالیہ، ایئرکنڈیشنڈ خیمے، فوم بیڈز، خوراک کیلئے ہر قسم نعمتوں سے بھرے بوفے۔یہ رش و صحرا اور اتنی وافر نعمتیں جس کا تصور پہلے زمانے میں ناممکن تھا۔
اب نعمتیں زیادہ ہیں لیکن شکر کم۔ موسم گرم تھا اور حبس بھی تھا۔ حجاج کرام مکتب میں داخل ہوتے ہی کولڈ ڈرنکس پر حملہ آور ہوئے۔ مکتب کے اہلکاروں نے ہمیں اپنے خیمہ پہنچا کر بیڈز حوالہ کئے، جہاں ہم نے اپنا سامان رکھا۔ یہ ایک بڑا خیمہ(ٹینٹ)تھا جسمیں تقریبا سو کے قریب حجاج کیلئے اقامت کا انتظام کیا گیا تھا۔ مکتب کے اندر کا جائزہ لینے کے بعد ہم باہر جبل رحمت (عرفات پہاڑی) کی تلاش میں نکل گئے۔

عرفات کی وسیع اور کھلی کھلی سڑکیں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح حجاج سے کچاکچ بھری تھیں۔ ہر طرف سفید احرام ایسا منظر پیش کررہا تھا جیسا کہ ایک وسیع علاقہ برف سے ڈھکا ہوا ہو۔ مکتب سے نکل کر ہم بھی لوگوں کے اس سمندر میں اتر کر روانہ ہوئے۔ کچھ فاصلہ طے کرکے عرفات کی پہاڑی ”جبل رحمت” دکھائی دی، لیکن اس رش اور گرمی میں وہاں پہنچنے کیلئے کافی توانائی درکار تھی۔ گرمی کی شدت نے حبس کی کیفیت پیدا کی تھی۔ ننگے سروں کو سورج سے بچانے کیلئے نہ ہم نے اپنے ساتھ چھتریاں لی تھی اور نہ کسی اور نے دی تھی۔

اس سے قبل کہ ہم گرمی سے نڈھال ہوکر دعا اور عبادت سے محروم ہوجائے، ہم نے فورا خیمہ واپسی کا فیصلہ کیا۔ راستہ میں ایک جگہ چھتریاں (فی دانہ دس ریال) خرید کر مکتب واپس ہوئے۔ خیمہ پہنچ کر اپنے اپنے بیڈز پر دراز ہوئے اور آرام کیا۔ وقفے وقفے سے چائے اور کولڈ ڈرنکس کا دور چلتا رہا۔