پاکستان میں سیاسی منظر نامہ میں اتنی تیزی ہے کہ ہم کوشش کے باوجود بھی عوام کی توجہ سیلاب کی طرف مبذول نہیں کروا سکے۔ سیاسی منظر نامہ میں سیلاب کو وہ توجہ نہیں مل سکی جو ملنی چاہیے تھی۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے بھی سیلاب پر وہ توجہ نہیں دی جس کی ضرورت تھی۔اگر دیکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی ہی ایک واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے سیلاب زدگان کی مدد اور ریلیف کا کام کیا ہے۔ جس کی عالمی سطح پر پذیر ائی کی جا رہی ہے۔ الخدمت کے کام کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔جماعت ا سلامی کے امیر سراج الحق اور سیکریٹری جنرل امیر العظیم نے گزشتہ دنوں سنیئر صحافیوں کو چائے پر بلایا۔ ایک عمومی خیال یہی تھا کہ ملک کے سیاسی منظر نامہ پر سراج الحق کو ئی بات کرنا چاہتے ہوںگے اس لیے یہ چائے کی محفل رکھی گئی ہے۔
ویسے بھی مجھے جماعت اسلامی کی سیاست سے اختلاف ہی رہا ہے، وہ اپنے اصولوں کے چکر میں سیاسی ٹرین مس کر دیتے ہیں۔ سیاست کو سیاسی تقاضوں کے بجائے اخلاقیات میں الجھا دیتے ہیں۔ حالانکہ سیاست میں سب ٹھیک ہی چلتا ہے۔ سیٹوں کے لیے اصولوں کی قربانی نہیں دیتے۔ جیتنے والے گھوڑوں کو شامل نہیں کرتے۔ اپنے کارکن کو ٹکٹ دیتے ہیں، ایسے کون کرتا ہے۔ بہر حال محفل میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ایجنڈا سیاست نہیں سیلاب زدگان ہیں۔ سراج الحق اور امیر العظیم اس موقعے پر جب ملک میں سیاسی درجہ حرارت گرم ہے ہم سے سیلاب زدگان پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ اسی سے ان کی سیاست کا انداذہ لگا لیں۔ بہر حال گفتگو شروع ہوئی۔ سراج الحق نے ہمیں بتایا کہ اب تک جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخد مت فاؤنڈیشن دس ارب روپے کا ریلیف کا کام کر چکی ہے۔
سراج الحق نے جب سے ملک میں سیلاب آیا ہے کوئی بڑی سیاسی سرگرمی نہیں کی بلکہ وہ سیلاب زدہ علاقوں میں ہی موجود ہیں۔ وہ بلوچستان کے ان دور دراز علاقوں میں بھی گئے ہیں جہاں شاید حکومت بھی نہیں پہنچی ہے۔ وہ ریلیف کے کاموں کی خود نگرانی کر رہے ہیں، اور سیاست سے چھٹی کر رہے ہیں۔ کون اس کو عقلمندی کہہ سکتا ہے۔ ان کے مد مقابل سارے سیاستدان سیلاب کو بھول بھی گئے ہیں۔ اور سراج الحق ابھی بھی سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سراج الحق نے بتایا کہ دس ارب روپے کے ریلیف سے لوگوں کو خیمہ بستیاں بنا کر دی گئی ہیں۔ کھانا دیا گیا ہے۔ ادویات دی گئی ہیں۔ موبائل ہیلتھ یونٹس سیلاب زدہ علاقوں میں بھیجے گئے ہیں۔
لوگوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکالا گیا ہے۔ ویسے تو جمائمہ نے بھی سیلاب کے ریلیف کے کاموں میں الخدمت کے کام کو تسلیم کیا ہے اور الخدمت کا پوسٹر ٹوئٹ کیا ہے، لیکن میں سن کر حیران ہوا کہ لوگوں نے الخدمت پر اعتبار کرتے ہوئے دس ارب روپے دیے ہیں۔ حالانکہ سراج الحق نے کوئی ٹیلی تھون نہیں کی۔ ہم نے کوئی شور بھی نہیں سنا کہ چندہ اکٹھا کیا جا رہا ہے۔کوئی بڑی چندہ مہم بھی نہیں دیکھی گئی۔ حالانکہ مقابلہ میں چندہ مہم پر زیادہ زور نظر آیا ہے۔عملی کام کا تو کوئی وجود نہیں۔ بہر حال سیلاب زدگان کی تکالیف بیان کرتے ہوئے سراج الحق کی آنکھیں نم تھیں۔
ان کی آواز میں درد تھا۔ لہجہ میں افسردگی تھی۔ وہ پریشان نظر آئے۔ وہ حکومتوں سے بھی خوش نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں صوبائی اور مرکزی حکومتوں دونوں نے سیلاب زدگان کے لیے وہ کام نہیں کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ کسی کی کوئی توجہ نہیں رہی۔سراج الحق نے بتایا کہ کے پی میں جو چار بھائی پانی میں کئی گھنٹے پھنسے رہے ان کو ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کرنے کے لیے میں نے خود وزیر اعظم سے لے کر کے پی کی حکومت سے بار بار درخواست کی۔ لیکن یہ حکمران وہ چار جانیں بچانے کے لیے اپنے ہیلی کاپٹر دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔
انھوں نے بتایا کہ لوگوں کو سیلاب میں عملی طور پر حکومتوں کی طرف سے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے پاس ان خواتین کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں ہے، وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے، وہاں کو ئی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔ زچگی کے لیے انتظام نہیں۔ ادویات نہیں ہیں۔سراج الحق نے کہا کیا پورے ملک میں کسی کو بھی خواتین کا احساس نہیں ہے۔کوئی ان کی بات نہیں کر رہا۔ سیلاب زدہ علاقوں سے نکال کر ہم نے لوگوں کو جہاں ٹھہرایا ہے ۔ وہاں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ان کے لیے کوئی بھی انتظام نہیں ہے۔
سب خاموش ہیں۔ الخدمت نے سیلاب زدہ علاقوں میں نہ صرف ڈاکٹر بھیجے ہیں۔بلکہ موبائل ہیلتھ یونٹس بھی بھیجے ہیں۔ مزید بھیج رہے ہیں۔ میں بھی حیران تھا قوم کنٹینروں کے چکر میں ہے۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اسلام آباد میں کنٹینر کہاں سے پہنچ گئے۔ اور یہاں سراج الحق اور امیر العظیم ایک ایک موبائل ہیلتھ یونٹس کو رو رہے ہیں۔ صحیح لوگ کہتے ہیں انھیں سیاست نہیں آتی۔
میں نے سراج الحق سے کہا کہ آپ نے دس ارب روپے کا ریلیف اور ریسکیو کا کام کیا ہے۔ کوئی میڈیا کوریج نہیں۔ کوئی فوٹو نہیں۔ کہیں کوئی پریس ٹاک نہیں۔ یہاں لوگ چند ٹرک بھیجتے ہیں اور آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ چند ٹینٹ بھیجتے ہیں اور اس کی وڈیوز رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے ہزاروں لوگوں کو کھانا دیا ہے۔ سیکڑوں خیمہ بستیاں بنائی ہیں۔ موبائل ہیلتھ یونٹس بنائے ہیں۔لاکھوں پھنسے ہوئے لوگوں کو پانی میں سے نکالا ہے۔ لوگوں کی کیش مدد کی ہے۔ لیکن کوئی شور نہیں۔ یہ تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ الخدمت نے ہماری مدد کی ہے۔ عالمی ادارے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ سراج الحق نے خود کوئی کوریج نہیں کرائی۔ اب یہ اچھی بات ہے یا بری بات۔ یہ کون طے کرے گا۔
بہر حال سراج الحق سیلاب سے متاثرہ ساڑھے تین کر وڑ لوگوں کی بدحالی پریشان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں میڈیا کا فوکس ان پر رہے ۔ ریلیف کے کام کی ابھی بہت ضرورت ہے۔ پانی نکالنا ہے۔جہاں جہاں سے پانی نکل گیا ہے۔ وہاں وہاں لوگوں کو واپس آباد کرنا ہے۔ لوگوں کو گھر بنا کر دینے ہیں۔ دوبا رہ فصل لگانے کے لیے فنڈ دینے ہیں۔زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنانا ہے۔ خیمہ بستیوں میں اسکول چلانے ہیں۔ بچوں کو تعلیم دینی ہے۔ سراج الحق چاہتے ہیں پوری قوم اس طرف توجہ دے۔ لیکن قوم بہت مصروف ہے۔ سیاستدان اور حکومتوں کے پاس اور بھی بہت کام ہیں۔ وہ تو بتا رہے ہیں کہ انھوں نے بہت کچھ کر دیا ہے،اور سراج الحق کہہ رہے ہیں ابھی بہت کچھ کرنے والا باقی ہے۔
سراج الحق نے بتایا کہ ان کے خیال میں اس ریلیف کے کام کے لیے الخدمت کو پانچ ارب اور چاہے۔ وہ پر امید ہیں کہ جیسے پہلے دس ارب اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ پانچ اراب بھی اکٹھے ہو جائیں گے۔ مجھے بھی امید ہے کہ اکٹھے ہو جائیں گے۔ لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ دیں یا نہ دیں لیکن لوگوں کو یقین ہے کہ جماعت اسلامی فلاح کے کام ایمانداری سے کرتی ہے۔ ان کی رقم صحیح استعمال ہو گی۔ سفارت خانے بھی الخدمت کو وسائل دے رہے ہیں۔
سراج الحق نے بتایا کہ چینی سفارت خانہ نے لوگوں کے لیے پیکٹ دیے ہیں کہ الخدمت پہنچا دے۔سراج الحق کی گفتگو سے یقینا احساس ہوا کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ کچھ بھی ہو سیلاب زدگان ابھی بھی ہماری توجہ کے طالب ہیں۔
تبصرہ لکھیے