ہوم << پاکستان میں ہم جنس پرستی کا فروغ اور مغرب کی "سرگوشیاں"‎‎- سیّد عطااللہ شاہ

پاکستان میں ہم جنس پرستی کا فروغ اور مغرب کی "سرگوشیاں"‎‎- سیّد عطااللہ شاہ

چونکہ مغرب عسکری طاقت کے ذریعے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوششوں میں ناکام ہو چکا ہے، اسی لئے اب وہ مشرق کے موجودہ معاشرتی نظام اور تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے۔

بین الاقوامی سطح کے مقبولیت رکھنے والے اداروں کی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے، مغرب اب مشرقی دنیا تک اپنی (ناپاک) تہذیب پہنچانے کیلئے مغرب میں موجود مغربی سوچ اور ذہنیت رکھنے والے مشرقی لکھاریوں اور فلم کاروں کی معمولی سطح کے فلموں کی تشہیر کرکے انھیں دنیا بھر میں مقبول کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح سے وہ ادبی/فلمی کام جس میں کوئی بھی شہری دلچسپی نہیں رکھتا، ٹرینڈنگ میں (منظر عام پر) آنے کے بعد ہر کوئی اسے دیکھنے کیلئے بے تاب ہوجائے گا اور یوں معاشرے میں ایک نئے مگر مغربی سوچ کو پذیرائی ملے گی۔

کچھ مہینے پہلے ایک ایسی ہی کہانی سامنے آئی جب 28 مئی کو پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اچانک Cannes Film Festival 2022 میں ایک پاکستانی فلم Joyland کے متعلق دھوم مچ گئی۔ اس خبر کو Al Jazeera اور Reuters سمیت کئی بڑے میڈیا ایجنسیز نے شائع کیا۔ پاکستان میں ایک دو کو چھوڑتے ہوئے باقی تقریباً تمام میڈیا چینلز نے یہ بڑے شوق اور بڑی تیزی کیساتھ نشر کیا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ یہ پاکستانی میڈیا ، مغربی میڈیا جیسے سی این این، فاکس یا بی بی سی کے مقابلے میں مغرب کی خبریں نشر کرنے میں کئی گنا زیادہ تیز ہے۔

ایک اور دلچسپ معاملہ یہ کہ حال ہی میں پاکستانی نژاد، "عالمی شہرتِ یافتہ" امریکی شہری ملالہ یوسفزئی جو کہ خود بھی کئی طبقوں میں مقبولیت رکھتی، اسی فلم کیلئے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بنائی گئی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کن کن زاویوں سے اور کس تیزی کیساتھ بیرونی ایجنڈے ملکِ پاکستان میں ہم جنس پرستی کی فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔ فلم Joyland کی کہانی ایک ایسے بندے (حیدر) کے گرد گھومتی ہے جس کا خاندان ایک پدر شاہی خاندان دکھایا گیا ہے۔ اس خاندان کے سربراہ، حیدر کا باپ، نے اپنے اس شادی شدہ بیٹے سے امید رکھا ہوتا ہے کہ اس کا کوئی مرد (نرینہ) اولاد پیدا ہوجائے گا اور یوں خاندان کو سہارا دے کر اسے چلتا کردے گا۔ مگر کہانی کا رُخ اس وقت بدل جاتا ہے جب حیدر کو ایک erotic intersex (شہوت پسند خُسرے/ہیجڑے) سے پیار ہوجاتا ہے۔ اور یوں کہانی پاکستان کے آئینی، مذہبی اور معاشرتی اطوار کو پاؤں تلے مسلتی ہوئی مکمل مخالف سمت میں مڑ کر ایک عجیب و غریب صورت اختیار کرلیتی ہے۔

پاکستان نے فلم Joyland پر پہلے ہی سے غیر اخلاقی اور جنسی رجحان کو ہوا دینے والی (بیہودہ) گفتگو کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ جب مغربی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے والی اس فلم کو میدان پر کوئی پذیرائی نہیں ملی تو Cannes نے اسے دو بڑے ایوارڈز "Un Certain Regard اور Queer Palm" (یہ دونوں انعامات ہم جنس پرستی کے موضوع پر مبنی فلموں اور ڈراموں کیلئے مخصوص ہیں) سے نواز کر ثابت کردیا کہ مغرب مسلمان ملکوں میں کس طرح سے اپنے مشہورِ زمانہ اداروں کو استعمال کرتے ہوئے غلاظت پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کا (کچھ پیچیدگی سے) اظہار فرانسیسی ڈائریکٹر اور ہم جنس پرستی پر مبنی انعامات کی کمیٹی کی سربراہ (French Director and Queer Palm Jury Head)، کیتھرین کورسینی نے ان الفاظ میں کیا: “It’s a very powerful film, that represents everything that we stand for.” "یہ ایک بہت ہی طاقتور فلم ہے، جو ہر اس چیز کی نمائندگی کرتی ہے جس کے لیے ہم کھڑے ہیں۔"

جس کا مطلب یہ ہوا کہ تیسری دنیا میں تعلیم، غربت، خوراک اور مختلف مہلک بیماریوں جیسے بڑے مسائل کے ہوتے ہوئے مغرب کو صرف ہم جنس پرستی یعنی LGBTQ کی حقوق کا فکر لاحق ہے جو کہ مشرقی (اسلامی) تہذیب کیساتھ ہر لحاظ سے تصادم میں ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پورا مغرب پاکستان کو ہم جنس پرستی کے متعلق دباؤ میں لارہا ہے جیسے کہ اس واقعے سے کچھ دن پہلے، 17 مئی کو پاکستان میں موجود امریکی ایمبیسی نے بھی ہم جنس پرستی کے حق میں ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ" امریکہ پاکستان میں ہم جنس پرستی کے حقوق کیلئے برسرپیکار ہے"۔

پاکستان نے اس فلم پر پابندی لگاتے ہوئے آئینی و معاشرتی حق ادا کردیا ہے (اگر چہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے)۔ پاکستان دنیا کاوہ واحد ملک ہے جو نظریہ اسلام پر آزاد کیا گیا تھا اور جس کا آئین ہر لحاظ سے اسلامی تہذیب کی پاسداری کرتا ہے۔ پاکستان میں کسی قسم کی بھی ہم جنس پرستی پر مبنی سرگرمی آئینی اقدار کے خلاف ہے۔ جو آئین کی تمہید (قراردادِ مقاصد) میں واضح ترین الفاظ میں لکھا ہے:

مجلس دستور ساز نے، جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے: "جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک "قانون و اخلاق اجازت دیں"، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی و اقتصادی و سیاسی انصاف، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت، اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہو گی۔"

پاکستان کے "آئین کا دیباچہ" (قراردادِ مقاصد) ملک میں بنائے گئے تمام قوانین کی بنیاد ہے۔ اس لیے تمام قوانین اور اعمال کو ہر پہلو سے "قانون و اخلاقیات" کے تابع ہونا چاہیے۔ لہٰذا غیر اخلاقی اصولوں پر مبنی شادی یا رشتہ (جو کہ ہم جنس پرستی کا تصور ہے) پاکستان کے عوام کے لیے "قانونی و اخلاقی طور پر" کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے اور اس لیے ایسی کسی بھی کارروائی کو آئین کی خلاف ورزی تصور کیا جانا چاہیے۔ مغرب کو کسی مسلمان ملک کی آئین اور تہذیب میں رکاوٹ ڈالنے سے پہلے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مغربی اور مشرقی یا اسلامی تہذیب دنیا میں موجود دو مخالف تہذیبیں ہیں جو اپنے اپنے ثقافت اور الگ طرح کے معاشرتی اقدار اور پہچان رکھتے ہیں اور تبھی ایک تہذیب دوسرے پر زور زبردستی اپنے اقدار لاگو نہیں کرسکتا (جسے عمرانیات کی اصطلاح میں ثقافتی نسبتیت یعنی Cultural Relativism کہتے ہیں)۔

یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کے اندر انسانی حقوق سب سے پہلے اس ملک کے آئین نے، وہاں کے معاشرے اور اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے، بیان کرنے ہوتے ہیں اور تقریباً دنیا میں کوئی بھی اتنا ظالم ملک نہیں ہوگاجس کا آئین انسانوں کی "بنیادی" حقوق کی پامالی کرتا ہو۔ آئینی اور معاشرتی حقوق کو پامال کرکے اپنے نظریات کو 'نافذ' کرنے کی بجائے مالدار اور اقتصادی طور پر مضبوط مغرب کو تیسری دنیا کے بنیادی انسانی حقوق کے متعلق تگ و دو کرکے ان تک تعلیم پہنچانے اور غربت کی روک تھام کیلئے بہترین کاوشیں کرنی چاہئیں تاکہ پوری دنیا سے ناخواندگی اور غربت کا خاتمہ کرکے ایک خوشگوار ماحول پیدا کیا جا سکے۔

اگر ہم بنیادی حقوق اور "ضروریات" کے بجائے "نظریات" پھیلانے میں لگے رہیں تو ایسے میں مخالف نظریات کا تصادم ہوجائے گا۔ جس کیوجہ سے پوری انسانیت بجائے بہتر ہونے کے، تباہی کی لپیٹ میں آجائے گی اور یوں کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی۔

Comments

سیّد عطااللہ شاہ

سید عطا اللہ شاہ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے انگریزی میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ ایک لیکچرار، بلاگر اور فری لانس صحافی ہیں جو پاک افغان معاملات اور پاکستان کے سماجی ومعاشرتی مسائل کے متعلق لکھتے ہیں۔

Click here to post a comment