ہوم << اندلسی خاتون سے ملاقات-فیاض قرطبی

اندلسی خاتون سے ملاقات-فیاض قرطبی

پاکستان میں دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے کے بعد قرطبہ آیا تو قرطبہ کا موسم ابھی تک گرم تھا شام کو البتہ دریا کبیر کے کنارے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کےلئے دریا کبیر کے کنارے ہم نے چہل قدمی شروع کررکھی ہے
گزشتہ شام دریا کنارے چلتے ہوئے ایک پر سکون جگہ پر پہنچ کر وہاں لگے بنچوں پر بیٹھ گیا آسمان پر نکلے چاند کی روشنی کا عکس دریا کی لہروں پر منعکس ہو کر ایک حسین نظارہ پیش کررہا تھا میں تخیلات کی دنیا میں کھوگیا
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک کانوں میں کسی عرب خاتون کی آواز میں نشید پڑھنے کی آواز سنائی دی پہلے تو میں سمجھا کہ سڑک سے کوئی گاڑی گزری ہوگی جس میں عربی میوزک لگا ہوگا لیکن مدہم سی آواز لگاتار سنائی دے رہی تھی
میں نے آواز کی سمت کا تعین کرنے کےلئے اپنے حواس کو مجتمع کیا اور اس سمت چل پڑا جدھر سے آواز آرہی تھی
کچھ دور کیا دیکھتا ہوں ایک خاتون عرب لباس میں بیٹھی ہے لباس بھی جیسے کسی شاہی خاندان کا زرک برق اور نقش و نگار سے مزین
چہرہ کے خدوخال سے اندازہ لگایا جائے تو چالیس پینتالیس سال کی لگ رہی تھی
میں حیرانگی سے اسے گھور رہا تھا کہ اس نے اپنا نشید بند کرکے میری طرف رخ کیا اور گویا ہوئی
من انت یا شباب ؟
اتنی عربی تو ہمیں سمجھ آگئی ہم نے اپنا نام بتایا اور ساتھ الباکستانی کہا اور ساتھ بتایا کہ کہ اس شہر میں پندرہ سال سے رہائش پذیر ہوں
اب ہم نے ان موصوفہ سے اپنا تعارف کروانے کی استدعا کی تو وہ بتانے لگی کہ میرا نام فاطمہ ابی قاسم بن عبدالرحمان بن محمد غالب ہے اسی قرطبہ میں پہلی بڑھی ہوں اور میرے اساتذہ میں میرے والد اور مشہور عالم ابو عبداللہ مداوی شامل ہیں جن سے میں سیرہ رسول پر ابن ہشام کی کتاب اور البغدادی کی الکامل اور صیحح مسلم پڑھ کر زبانی یاد کی تھیں عبداللہ مداوی بڑے مشہور صوفی تھے جن کی تربیت سے میں نے تصوف کا بھی علم حاصل کر رکھا ہے اور والد محترم کے زیر سایہ قران پاک بھی حفظ کیا ہے
میں نے یہ علم اپنے بیٹے ابو القاسم طلسان کو منتقل کیا ہےاب وہ بھی علمی حلقوں میں کافی پہچان بنا چکا ہے
میں اس کی یہ گفتگو سن کر خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا کہ یہ خاتون تو بارہویں صدی کے اندلس کے زمانہ کی ہیں جب قرطبہ و اشبیلہ کے ہر گھر میں علم و فکر کے چراغ جلتے تھے
یہ تو ان کی روح بھٹک کر یہاں آئی ہوئی ہے یا میں دریا کبیر کنارے چہل قدمی کرتے کرتےکسی ایسے راستہ پر پاوں رکھ بیٹھا جو مجھے کئی صدیاں پہلے لے آیا ہے اس سے پہلے کہ میں بے ہوش ہوتا وہ خاتون اچانک میری نظروں سے اوجھل ہو گئی
میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا اور وہاں سے گھر کی جانب دوڑ لگا دی اور گھر پہنچنے تک مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہ کی۔

Comments

Click here to post a comment