ہوم << نیک اعمال کی حفاظت - شاہ فیصل ناصر

نیک اعمال کی حفاظت - شاہ فیصل ناصر

اللہ تعالی نےانسان کی اخروی زندگی کی کامیابی اور جنت کی حصول کیلئے ایمان کیساتھ نیک اعمال کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔ اسلئے ھر مسلمان اچھے اور نیک کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن نیک عمل کرنا اور اس کو محفوظ رکھ کر بارگاہ الہی میں پیش کرنا بہت ہی مشکل چیلنج ہے۔

کیونکہ انسان کی نفس، خواھش، بیرونی ماحول اور سب سے بڑھ کر اس کا دشمن، شیطان اسے نیک عمل کرنے نہیں دیتا بلکہ کیئے ہوئی عمل کو ضائع اور برباد کرنے کی بھرپور کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ نیک عمل سے روکنا، اسمیں سستی پیدا کرنا، اخلاص نیت خراب کرنا، اور ریا وسُمعت وہ مختلف اسباب ہیں جو شیطان، ایک مسلمان کی اعمال کو ضائع وبرباد کرنے کیلئے استعمال کرتاہے ۔اسلئے ھر مسلمان کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے نیک اعمال کی حفاظت کرکے اسے ضائع ھونے سے بچائے۔ اس کیلئے درجہ ذیل امور کو اختیار کرنا ضروری ہے ۔

1): ایمان اور صحیح عقیدہ:-

الله تعالی کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ قیامت کی دن صرف ایمان اور عقیدہ توحید کی بنیاد پر نیک اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ کافر، مشرک، منافق اور مرتد شخص کے (اچھے)اعمال کا کوئی بدلہ قیامت کی دن نہیں دیا جائے گا۔ سورہ کھف میں الله تعالى فرماتے ہیں،”یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا (ملاقاتِ رب کا انکار کیا)۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ، قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے”۔ اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا، جب وہ عمل کریں تو اللہ کے ہاں اس کا اجر واقع ہوا، پس اسے بدلہ ضرور دیاجائے گا، دنیا میں یا آخرت میں۔ پس کفار ومشرکین کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں پورا پورا دیتا ہے اور آخرت میں ان کیلئے کچھ نہیں چھوڑتا۔ جبکہ اھل ایمان کیلئے ان کے اعمال کا اجر پورا پورا بروزقیامت ملے گا۔

2): نیت کو خالص کرنا اور ریاء سے بچنا :-

تمام نیک اعمال کی قبولیت اور حفاظت کی دارومدار اخلاص نیت پر ہے۔اس سے اعمال میں وزن وقدر پیدا ہوتی ہے۔ سلف علماء میں ایک عالم کا قول ہے، ”رُبَّ عَملٍ صغير تُعظِمهُ النِّية.وَ رُبَّ عَملٍ كَبيرٍتُصغِرُهُ ألنّيَّة” بسا اوقات ايك چھوٹی سی عمل (درست) نیت کی وجہ سے عظیم بن جاتا ہے اور ایک بڑا عمل (خراب) نیت کی وجہ سے بے قیمت بن سکتاہے۔ صرف وہی عمل اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول اور باقی رہ جاتا ہے جس میں رضائے الہی مقصود ہو۔ اگر نیت خراب ہوجائے، ریاکاری اور نمودونمائش مقصود بن جائے تو اچھے اور نیک اعمال بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ربَّانى ہے، ”اس شخص کی طرح جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کامینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں ، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا "۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کو شرک اصغر کہا ہے۔ ریاکاری اور شھرت اعمال کی بربادی کا ایک اھم سبب ہے۔

3): طلب آخرت:-

اھل اسلام کو چاہئیے کہ وہ اپنی نیک اعمال کا مطلوب یوم آخرت کو بنائے اور دنیا میں اس کے بدلے کیلئے جلدی نہ کریں۔ کیونکہ دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر اور اسکی مشکلات عارضی ہے جبکہ آخرت اور اس کی سختیاں مستقل و ابدی ہیں۔ اسلئے آخرت کی سختیوں سے نجات کی نیت سے نیک عمل کرنا چاہیے ۔دنیاوی غرض عمل کوباطل اور ضائع کرتاہے۔ فرمان الہی ہے،” مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَهُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ۔ اُولٰۗئكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔۔(سورة هود.) جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ)جو کچھ انھوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔

4): نیک عمل پر ھمیشگی اور گناہ سے بچنا:-

ایک نیک عمل کو جب شروع کیاجائے تو پھر اس کو جاری رکھنا چاہئے خواہ تھوڑا کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالی کو محبوب عمل، ھمیشہ ہونے والا عمل ہے۔ اس سے عمل کی حفاظت ہوتی ہے اور برائیاں مٹ جاتی ہیں۔ اگر نیک عمل کرکے چھوڑدیا جائے اور گناہ شروع کیاجائے تو اس سے وہ نیک عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ظلم، لوگوں کا حق مارنا اور حرام خوری قیامت کی دن نیک اعمال سے محرومی کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آپ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا ہے جو اپنے ساتھ نیک اعمال (فرائض ونوافل) کا ایک بڑا حصہ لے آیا ہوگا، لیکن اس کیساتھ اس نے لوگوں کی حقوق بھی ماری ہوگی۔ پس اس کے تمام نیکیاں ان لوگوں کو دیاجائے گا جن کا حق اس نے مارا ہو۔ اور وہ خالی ہاتھ رہ کر جہنم میں ڈال دیاجائےگا۔

5): نیک عمل پر غرور نہ کرنا بلکہ اس کی قبولیت کیلئے دعا واستغفار کرنا:-

انسان ہر نیک کام اللہ تعالی کی توفیق سے کرتا ہے اور شیطان اس کی عمل کو خراب کرنے کی ہر طرح کوشش کرتا ہے۔ جسمیں ایک طریقہ نیک عمل پر فخروغرور کرنا ہے۔ اپنے نیکی کو حقیر سمجھنا چاہیے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہے اگر کسی وقت اپنے اعمال پر خودپسندی کا اندیشہ ہونے لگے تو ان تین چیزوں پر سوچو۔ اللہ وہ ہستی جس کی رضا پانے کی تم کو طلب ہے۔ وہ نعمتِ خلد (جنت) جو تمہاری مانگ ہے اور وہ سزا جس سے بچنے کےلیے تم یہ عمل کر رہے ہو۔جو ان تین چیزوں میں غور کرے، وہ اپنےعمل کو ناچیز جاننےلگےگا۔ نیک عمل کے بعد اس کی قبولیت کیلئے دعا کرنا بھی ضروری ہے۔ سیدنا ابراھیم اور اسماعیل علیھم السلام نے جب اللہ کی عبادت اور توحید کا مرکز کعبہ مشرفہ کو بنایا تو اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعاکرنے لگے ،“رَبَّنا تَقَبّل مِنّا ” اے ھماری رب یہ محنت ھم سے قبول فرما۔(سورہ بقرہ)۔

تکمیل حج کے بعد اللہ کا حکم ہے، ”وَستَغفِرُو ألله ” نماز كے بعد بھی استغفار کا حکم دیاگیا ہے۔اپنے نیکیوں پر فخروغرور کرنا مومن کا شیوا نہیں۔ اللہ تعالی ہماری ایمان اور نیک اعمال کی حفاظت فرمائیں۔ آمین

Comments

Click here to post a comment