ہوم << عمران خان کا نہیں قائد اعظم ؒ کا پاکستان چاہیے- بشریٰ نسیم

عمران خان کا نہیں قائد اعظم ؒ کا پاکستان چاہیے- بشریٰ نسیم

میرا پچھلا کالم بہت سے احباب کی طبیعتوں پر گراں گزرا ہے اصل میں ہم لوگ اندھی تقلید کے قائل ہوچکے ہیں اور سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو کھو چکے ہیں گناہ کرنا جبلت انسانی ہے گناہ پر نادم ہونا فطرت مومن ہے اور گناہ پر اکڑ جانا شیوہ ابلیس ہے۔

اشتہاریوں،درباریوں،خوشامدیوںکو روزاول سے حق پرستوںاورسچ لکھنے والوں کے ساتھ ایک عداوت رہی ہے کیونکہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے یہ لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور ان کو سچ بولنے اور لکھنے والوں سے ایک ڈر اور خوف رہتا ہے ،برحال کاپی پیسٹر کالم نگار،ادیب آج صنم خانے میں خدا بنے بیٹھے ہیں اور ہم جیسے’’ علم ‘‘کے طالبوں کو رموز صحافت سکھا رہے ہیں ۔ حالیہ سیلاب کے اندر ہر شخص دوسرے کو یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ اس سے زیادہ کوئی انسانیت کا خادم نہیں سندھ کے اند رایک سیاستدان وڈیرہ منظور وسان نے کشتی میں بیٹھ کرکہا کہ میں نے اپنی پچاس سالہ سیاسی زندگی میں ایسا نظارہ نہیں دیکھا ،ایسے حالات میں پیر گوٹھ سے 5ہزار سے زاہد افراد بے گھر ہوئے ہیں.

ایسے میں یہ علاقہ اٹلی کا شہر وینس کا منظر پیش کررہا ہے جہاں گائوں اور بنگلے اور پانی بھی ہے جب میں وینس گیا تو وہاں کے یہی حالات تھے، لٹی پٹی عوام کو ترقی پذیر ممالک کی مثالیں دیکر یہ کہہ رہا ہے کہ پانی کچھ بھی نہیں، ایک اورعوام کا خادم ،سابق صدر پاکستان کا بہنوئی ،ایم این اے منور تالپورتو باقاعدہ متاترین میں مبلغ پچا س پچاس روپے بانٹتے ہوئے دکھائی دئیے واہ امیر شہر واہ تیری سخاوت پر تھو ۔اگر پاکستان پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوجائیںتو پاکستان کا سارا قرض اتر سکتا ہے اورعوام خوشحالی کی زندگی گزار سکتی ہے مگر یہ قابض،وڈیرے،جاگیردار،سیاست دان کب چاہیں گے کہ ملک مستحکم ہو۔

سیلاب نے وطن عزیز میں تباہی مچادی ہے متاترین کے پا س خشک زمین نہیں ہے اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے اور اس نازک صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو اپنے جلسے ،جلوسوں سے فراغت نہیں ،یہاں ہر سیاست دان خود کو عوام کا خیر خواہ اور دوسرے کو غدار ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ۔سابق وزیر اعظم عمران خان جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرتے تھے ،کیا ریاست مدینہ ایسی تھی؟( نعوذباللہ) حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ کو بدنام کرنے کی سازش ہے جن میں عمران خان سوفیصد کامیاب ہوئے ہیں۔

عمران خان اگر پاکستان اور عوام کے ساتھ مخلص ہوتے تو اپنے پاور شو کرنے کی بجائے یہی پیسہ متاثرین کو عطیہ کردیتے توپھر یہ یقینا کامیاب ہوجاتے،عمران خان امریکہ کی کس غلامی کو ترک کرنے کی بات کرتے ہیں یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوامیں انکی حکومت ،پنجاب انکے پاس ،گلگت بلتستان ان کے پاس، ابھی اور ان کوکیا چاہیے ؟مجھے ان جاہلوں کی ذہنی حالت پر تشویش ہوتی ہے جو کہ عمران خان کو ایک لیڈر مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے سوا ملک کا کوئی خیر خواہ نہیں ،سلطان صلاح الدین ایوبیؒنے فرمایا تھا کہ کسی قوم کو جنگ کیے بغیر شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں کے اندر فحاشی پھیلادو،اور یہی کام تحریک انصاف نے بخوبی سرانجام دیا ہے.

ملک کے اندر باقاعدہ طور پرناچ گانے اور قوم کی مائوں،بہنوں،بیٹیوں کو بے پردہ سٹرکوںپر لانے والے یہ صاحب ہیں ،اب یہاں پر ذہنی غلام یہ دلیل دیں گے کہ باقی سیاسی جماعتیں بھی تو یہی کچھ کرتیں ہیں تو وہ ’’ریاست مدینہ ‘‘بنانے کی بات تو نہیں کرتے تھے؟وطن عزیز میں آنے والے اس خوفناک سیلاب نے ملک کا نقشہ بدل کررکھ دیا ہے ہر طرف پانی ہی پانی ہے اس نازک صورتحال میںمتاثرین کی سب سے زیادہ مدد افواج پاک،رینجرز ،نیوی کررہی ہے ،سابق وزیراعظم عمران خان جو کہ اس وقت بقول انکے زیادہ خطرناک ہوچکے ہیں جن کا ثبوت وہ فیصل آباد جلسے کے اندر دے چکے ہیں کہ اپنی ہی افواج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں متنازعہ باتیں کرنا کیا محب وطن لیڈر ایسے ہوتے ہیں عظیم لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے کارنامے ٹھوس ،کردار اور قومی وملکی مفادمیں ان کی غیر معمولی خاموش قربانیاں موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینارہوں۔

عمران خان کی سیاسی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی بات انکے مزاج کے خلاف کردی جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اورہرقسم کی نازیبا گفتگو پر اتر آتے ہیں اور یہی روش انہوں نے اپنے حواریوں میں منتقل کی ہے کہ وہ عمران خان کی ہربات کو سچ ماننااور اس پر عمل کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کی بے جاضد ہٹ دھرمی اور فوج مخالف بیانات نے آج وطن عزیز کو ایک نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے ۔یہ ایک جامع اور واضع اصول ہے کہ جب کسی ایک انسان کی زندگی خطرے میں ہو تو اسکی جان بچانے کے لیے حلال اور حرام کی تمیز کیے بغیر زندگی بچائی جاتی ہے ۔اگر عمران خان اتنے ہی محب وطن اور قوم کے خیر وخواہ ہیں تو ان کو اس وقت اپنی تمام تر ذاتی ترجیحات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کے مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔مجھے اس آزادی کی سمجھ نہیں آتی جس کی وہ بات کرتے ہیں ؟

سڑکوں پر وہ ننگے سر قوم کی مائوں ،بہنوں،بیٹیوں کو نچواچکے ہیں ،انصاف کے نام پر انصاف کا قتل کرچکے ہیں ،اپنے اقتدار کے لیے وہ مذہب کا بھی بے دریغ استعمال کرچکے ہیں ،نوجوان نسل کے اندر شعور کی جگہ بدتمیزی کو پیدا کرچکے ہیں ۔میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ ایک مذہبی جماعت کے لوگ بھی عمران خان کی اتباع میں جتے ہوئے ہیں اگر ان سے وجہ بندگی پوچھی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ بندہ امریکہ سے غلامی سے آزادی کی بات کرتا ہے ؟جی جی بالکل درست فرمایا ! اگر یہ بندہ آزادی کی بات کرتا ہے تو اسے کہیں کہ یہ جلسوں کے اندر اپنی ہی افواج کے بارے میں برا بھلا کہنے کی بجائے امریکہ مردہ باد کہے کیوں نہیں کہتا اس لیے کہ اس کا مشن قوم کے اندراپنی افواج کے کردار کو مشکوک بنانا ہے.

اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا ہے عدالتوں میں جاکر اپنی طاقت کی باتیں کرنا ہے اور نوجوانوں کو دنگا وفساد کے لیے اکسانا ہے ،نئے پاکستان کے لارے پر یہ قائد اعظم ؒاور اقبال ؒ کا پاکستان چھیننے والا کبھی بھی لیڈر نہیں ہوسکتا۔