ہوم << نئے بندوبست کی خبریں-عبداللہ طارق سہیل

نئے بندوبست کی خبریں-عبداللہ طارق سہیل

آئی ایم ایف سے قسط مل گئی، دیوالیہ ہونے کے اندیشے کا باب بند ہوا۔ بہت سارے پیسے اِدھر اُدھر سے بھی مل گئے، بے فکری ہو گئی، اب کیا ہو گا، یہ خبر ہے۔ ابھی سیلاب سے بحالی کا مرحلہ درپیش ہے۔ تباہی بے انداز ہوئی ہے، سندھ میں انفراسٹرکچر۔ بے مبالغہ۔ قریباً مکمل برباد ہو گیا ہے۔ انفرادی انسانی المیے ان گنت ہیں۔

بلوچستان کا ماجرا ذرا مختلف ہے۔ وہاں انفراسٹرکچر تھا ہی کہاں کہ تباہی کا ماتم ہو۔ بہت بڑے رقبے میں برائے نام، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔ کچّے مکانوں اور جھونپڑوں میں گنتی کے سکول، کہیں کہیں ہسپتال نام کی عمارت بھی تھی۔ سو زیادہ غم۔ نہیں ہاں، لوگ سب سے زیادہ اسی صوبے کے برباد ہوئے تو یہ کوئی ایسی فکر کی بات نہیں۔ بلوچستان ویسے بھی ہمارے لیے، میرا مطلب ہے میرے لیے۔ صوبے کا نہیں، رقبے کا نام ہے جہاں ہر دور میں کسی نہ کسی نام سے ’’باپ‘‘ پارٹی دستیاب ہو ہی جاتی ہے اور کام چلتا رہتا ہے۔ بحالی کے لیے بھی باہر سے بھاری رقم مل گئی ہے، آہستہ آہستہ ہو ہی جائے گی، جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں، وہ ایک نہ ایک دن مرنے والوں پر صبر کر ہی لیں گے۔

بات خبر کی تھی اور خبر کا پس منظر یہ ہے کہ کچھ مہینے یا ہفتے پہلے دو بڑے سینئر تجزیہ کاروں نے اشارہ دیا تھا کہ بجٹ کی منظوری کے بعد یا پھر آئی ایم ایف سے قسط کی وصولی کے بعد ارباب حکم، ارباب حکومت کو اذنِ رخصت دے دیں گے۔ ارباب حکم اور ارباب حکومت کا فرق آپ بہت بہتر جانتے ہیں۔ پھر الیکشن ہوں گے یا نیا بندوبست؟۔ اصل خبر یہ ہے ۔ ان میں سے ایک تجزیہ نگار نے یہ نتیجہ اپنی چڑیا کی دی گئی خبروں کی بنیاد پر نکالا تھا اور دوسرے عزم اپنے وسیع تجربے اور باریک بینی کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ یعنی یہ ایسا نتیجہ ہے جس کے برآمد ہونے پر خبر اور نظر، دونوں کا اتفاق ہے۔

گویا اب اس نتیجے کی برآمدگی کا ماحول بن گیا تو خبر یہ ہے کہ دو آپشن ارباب حکم کے زیر غور ہیں۔ اعلیٰ سطحی ذرائع سے ذرا کم سطحی ذرائع کی خبر یہ ہے کہ فیصلہ ابھی نہیں ہوا لیکن اگلے مہینے ہونے کی توقع ہے یعنی اکتوبر میں۔ پہلا آپشن یہ ہے کہ الیکشن اگلے سال اپریل مئی میں کرائے جائیں اور موجودہ حکومت تب تک برقرار رہے اور عوام کی ’’دعائیں‘‘اسی طرح سمیٹتی رہے۔ دوسرا آپس یہ ہے کہ ’’کیر ٹیکر‘‘نہیں، ’’ٹیکنو کریٹ‘‘ حکومت اسی نومبر میں قائم کر دی جائے۔ دونوں حکومتوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ کہ ’’کیر ٹیکر‘‘ تین مہینے کے لیے آتے ہیں اور ’’ٹیکنو کریٹ‘‘ کی مدّت ’’تا اطلاع ثانی‘‘ ہوتی ہے۔ کیر ٹیکر تین ماہ کے بعد الیکشن کرانے کے پابند ہوتے ہیں، ٹیکنو کریٹ کا کام ’’بھل صفائی‘‘ عرف اصلاحات ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ٹیکنو کریٹ سبکدوش ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ’’بھل‘‘ کی مقدار پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے۔

ٹیکنو کریٹ کی ذمہ داری پرانی فصل کو تلف کر کے نئی کی آبیاری کرنا ہوتا ہے۔ خبر مکمل ہو گئی ، یہ کہ فیصلہ ابھی ہوا نہیں ہے، ہونا ہے چنانچہ ارباب حکومت کم سے کم ستمبر کا مہینہ اطمینان سے گزار سکتے ہیں۔ اب منظرنامے بھی دو ہیں۔ ایک یہ کہ الیکشن اگلے سال اپریل مئی میں ہوں گے تو حکومت کی بڑی پارٹنر مسلم لیگ کا کیا بنے گا۔؟ اتفاق کچھ ایسا ہے کہ مسلم لیگ جو سال بھر پہلے مقبول ترین پارٹی تھی، اب غیر مقبولیت کی انتہائی حدود میں ہے۔ وزیر اعظم بااختیار ہیں مگر بجلی تیل کے نرخ بڑھانے کی حد تک اور وہ یہ اختیار بلاوقفہ، مسلسل ’’انجوائے‘‘ کر رہے ہیں۔ لندن میں بیٹھے نواز شریف پریشان ہیں کہ الیکشن میں مسلم لیگ کا کیا بنے گا۔ مریم نواز صاحبہ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد تباہ حالی کے باوجود بہت محبت سے اور بڑی تعداد میں ان کا استقبال کر رہی ہے۔

یہ بات نواز شریف کے لیے امید کا باعث بن سکتی ہے لیکن مزید دو تین ماہ کے بعد کیا ہو گا؟۔ جیسا کہ اوپر لکھا، عوام اس حکومت کو اتنی زیادہ ’’دعائیں‘‘ دے رہے ہیں کہ دعائوں کا سیلاب آ گیا ہے۔ دعائوں کے سیلاب میں ڈوبی حکومت اگلے چند مہینوں کے بعد کس کیفیت میں ہو گی؟۔ مسلم لیگ والوں کا خیال ہے کہ جلد ہی ہم ریلیف دینے کے قابل ہو جائیں گے اور فضا بدل جائے گی لیکن وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کا خیال کچھ اور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم مزید تکلیف دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ عام تاثر یہ ہے کہ مسلم لیگ کے سارے وزیر غیر متحرک ہیں۔ شاید اچھے وقت کے انتظار میں ہیں۔

مسلم لیگ کے برعکس پیپلز پارٹی کے حالات ’’اُمید‘‘ افزا ہیں۔ ان کے وزیر کام کر رہے ہیں، غیر متحرک نہیں ہیں۔ بلاول بھٹو کی بجاطور پر امیج بلڈنگ ہو رہی ہے۔ سیلاب زدگان کے لیے بہت بڑی اور بھاری غیر ملکی امداد ان کے کریڈٹ میں آ گئی ہے، ان کی شخصیت بن رہی ہے۔ یوں پیپلز پارٹی کے بعض ’’تھنک ٹینک‘‘ جو یہ بات کہا کرتے تھے کہ اگلے وزیر اعظم بلاول ہوں گے، درست لگنے لگے ہیں۔ یہ پتہ نہیں کہ ان تھنک ٹینکس نے یہ پیش گوئی خبر کی بنیاد پر کی تھی یا نظر کی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بندوبست کا بنیادی مقصد ہی مسلم لیگ سے اس کی مقبولیت کا کمبل چرانا تھا، سو وہ چوری ہو گیا ہے لہٰذا زیادہ امکانات یہی ہیں کہ اگلے اپریل مئی میں الیکشن ہو جائیں۔

ٹیکنو کریٹ والی امید ذرا کم ہے اگرچہ ارباب حکم کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ متحدہ اور باپ کو بس ابرد کا اشارہ ہی کرنا ہے اور متحدہ نے اپنی ناراضگی کے اشارے دینے بھی شروع کر دئیے ہیں۔ دیر ہی کیا لگتی ہے۔ ادھر نو حلقوں میں ضمنی الیکشن ہونے والے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس میدان میں نظر آ رہی ہے اور پی ٹی آئی بھی۔ ایک حلقے کے سوا مسلم لیگ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ شاید ایک ڈیڑھ ہفتے میں ’’رویت‘‘ ہو جائے۔ امید کرنے میں کیا حرج ہے۔؟

Comments

Click here to post a comment