ہوم << تونسہ شریف میں سیلاب متاثرین کے ساتھ ایک دن-خواجہ مظہر صدیقی

تونسہ شریف میں سیلاب متاثرین کے ساتھ ایک دن-خواجہ مظہر صدیقی

رات کے دس بجنے کو ہیں ۔ ہم دس گھنٹوں کے طوفانی دورے کے بعد تونسہ شریف سے واپسی کے لیے روانہ ہیں۔ رات کے اس سمے شدید بارش ہو رہی ہے ،ساتھ ساتھ بادلوں کی گھن گرج اور آسمانی بجلی کی کڑک سے یوں لگتا ہے کہ یہ بجلی ہمارے اوپر آ ن گرے گی۔ ہم آج صبح ہی تونسہ شریف پہنچے تھے۔ یہاں برستی بارش نے ہمارا بھرپور استقبال کیا تھا۔ تونسہ میں سورج دن بھر ہم سے روٹھا رہا اور سرمئی بادلوں میں چھپا رہا۔

کار، 100 کی اسپیڈ سے ملتان کی طرف رواں دواں ہے اور میں کار میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا بندہ اور کیا بندے کی اوقات ۔ پتہ نہیں چلتا کہ بندہ کب مجبور و بے بس ہو جائے۔ غریب ، مفلس یا گدا بن جائے ۔ دینے والے ہاتھ لینے والے ہاتھ بن جائیں، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ تونسہ شریف اور اس کے مضافات میں سیلاب متاثرین راشن پیکج لینے کے لیے کبھی ہمارے سامنے قطاروں میں کھڑے ہوئے اور کبھی راشن کے حصول کے لیے آپس میں گتھم گتھا بھی ہو گئے ۔ ارتقاء ٹیم کے ممبران یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے اور آنکھیں اور پلکیں بھگوتے رہے ۔
اب جب رات کےدس بجنے کو ہیں تو آسماں پر بجلی صرف چمک ہی نہیں رہی بلکہ کڑک بھی رہی ہے۔ طوفانی بارش ہے ، جس نے جل تھل کا سماں پیدا کیا ہوا ہے۔ بارش اب سب کے لیے زحمت بن گئی ہے۔ غریب کی گندم رُل چکی ہے۔ سچ پوچھیں تو اس وقت جس اسپیڈ سے بارش برس رہی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں ایسی تیز بارش نہیں دیکھی۔ ہمارے کارکنان بجلی کی کڑک سے سہمے ہوئے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ یہ آسمانی بجلی دور کہیں گری بھی ہے۔

ہم دن بھر بارش میں ان متاثرین میں گھرے ہی رہے ، ہمیں بہت سے بڑے بوڑھے ،جوان اور بچے آ آ کر ملتے رہے جو دکھی اور غمزدہ تھے۔ اور ہم پوری توجہ و انہماک سے ان کے دکھڑے سنتے رہے۔ ہرشخص کی کہانی ایک دوسرے سے الگ تھی ، لیکن سب کے دکھ ایک سے تھے۔ ہزاروں گھر برباد ہوئے، چھتیں گر گئیں اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ پل بھر میں کتنے ہی مفلس ہوئے اور رات صحیح طرح سے سوئے ہوئے لوگ صبح بے گھر ہو گئے ۔ اب ان متاثرین کا" خیمہ بستی" میں قیام ہے اور یہ دکھیارے اور نصیبوں کے مارے دم بھر پیٹ بھرنے کے لیے ملک بھر سے آئی سماجی تنظیموں کی گاڑیوں کی طرف بھاگتے پھرتے ہیں اور بھوک نے انہیں دیوانہ کر دیا ہے ۔ سیلاب کے بعد عوامی خدمت کا بھی سیلاب ہے۔ خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار امت کے خیر خواہ دور دراز سے یہاں پہنچ رہے ہیں ۔ آسمان سے بادلوں کا زور و شور سے برسنا ہمارے پہنچنے تک جاری تھا۔ تونسہ شہر کو دیکھ کر ذرا بھی نہیں لگتا تھا کہ یہاں کوئی سیلاب آیا ہے ۔ کاروبار زندگی معمول پر تھا۔ بازار ، منڈی ،تعلیمی ادارے ،اسپتال ،کورٹ کچہری اور دفاتر میں سب شعبہ ہائے زندگی اچھے انداز میں چل رہا تھا ۔ ہم مرکزی قبرستان سے کلمہ چوک اور وہوا روڈ سے گورنمنٹ گریجوایٹ کالج تک گئے۔ کہیں بھی ایسا محسوس نہ ہوتا تھا کہ یہ آفت زدہ علاقہ ہے۔ کسی چہرے پر پریشانی اور نہ کسی کی پیشانی پر تفکر کا کوئی بل ۔ اس کے برعکس خدمت گار ،انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار کراچی سے خیبر تک راشن ، ادویات ، خیمے اور دیگر سامان لے کر جوق در جوق پہنچ رہے تھے ۔ میں بھلا ان مناظر کو کیوں نہ دیکھتا کہ جب تونسہ شہر سے ذرا باہر ہر سڑک کے کنارے پر امداد کے منتظر مرد و جوان امدادی ٹیموں پر چڑھ دوڑتے تھے ۔ کوئی نظم و ضبط اور نہ کوئی سلیقہ و تہذیب۔ جس نے جی میں ٹھان لی کہ بس راشن لینا ہے، ایک تنظیم سے لے کر قناعت اختیار نہیں کرنی بلکہ سب تقسیم کار انجمنوں سے لینا ہے اور بزور و زبردستی لینا ہے، چھین کر لینا ہے۔ شناختی کارڈ سب متاثرین کی جیبوں میں تھے۔ گھر بھر کے تمام بے بس و مجبور انسان بھوک چہروں پہ لیے سارا دن سامان جمع کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے ۔ میں ایسے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں کہ باہر سے آئی نا تجربہ کار ، اجنبیت کی حامل این جی اوز اور مخیر ادارے انہی چھینا جھپٹی کرنے والوں کو راشن دے کر واپس چلی جاتی تھیں ۔ کیونکہ اصل مستحق تک پہنچنا جاں گسل محسوس ہوتا اور یہ عرق ریزی و مشقت طلب کام تھا۔ باہر سے آئی تناظیم کو واپس جانے کی جلدی بھی ہوتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں اور کوئی دو رائے نہیں کہ سیلاب نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ پر سچی بات یہ ہے کہ اصل مستحقین تک کوئی کوئی پہنچتا ہے ۔ ہم نے اندرون سیلابی ریلوں سے متاثرہ خاندانوں کو قریب جا کر پانی میں گھرے افراد کے پاس ان کے ٹوٹے پھوٹے گھروں تک پہنچ کر ریلیف پیکج دیا۔ کئی آنکھوں میں ویرانی تھی۔ کئی دل دکھی اور غمزدہ تھے۔ ہم تونسہ شریف کے مضافات کی حالت زار اور خستہ حالت سے بہت دکھی ہوئے ۔ ہماری ٹیم نے سب سے محبت بھری باتیں کیں۔ حوصلے اور ہمت سے ان حالات کو برداشت کرنے کا کہا۔ ہر ایک کو راشن ہی نہیں تسلی و دلاسہ بھی دیا۔ ہم نے ان خواتین کو بھی حوصلہ دیا جن کے در و دیوار اور چھت تک سیلاب کی نذر ہو گئے تھے ۔ تونسہ سے کئی میل آگے واقع گمبر، لاشاری اور ٹبی قیصرانی کے اس علاقے میں بھی ہمارا جانا ہوا جہاں پوری بستی کے گھر زمیں بوس ہو گئے تھے ۔ ارتقاء ٹیم کا ناڑی جنوبی اور بڈی کے علاقے میں بہت اندر جا کر ان خیموں میں راشن دینا بھی ہوا، جہاں بے گھروں کے لیے عارضی قیام گاہوں کا بند و بست کیا گیا تھا۔ خالق کی خوشی اسی طرح حاصل کی جا سکتی ہے کہ اس کی مخلوق کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے ، ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان نے عملی طور پر ایک ادنی سی کوشش کی ہے کہ رب کے بندوں کی مشکل گھڑی میں اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ کیا جا سکے۔

Comments

Click here to post a comment